انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ذومخمر نام ونسب ذومخمر یاذومخجر نام، شاہ حبشہ نجاشی کے بھتیجے تھے، نجاشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خود تونہ آسکے مگران کوآپ کی خدمت کے لیے بھیجا۔ خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آمد حبشہ کے بہتر آدمیوں کے ساتھ آپ بھی خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ اسلام اس کی تصریح تونہیں ملتی کہ وہ مدینہ پہنچ کراسلام لائے یاحبشہ ہی میں اسلام قبول کرچکے تھے؛ مگرحضرت نجاشی رضی اللہ عنہ، حضرت ذومخمر رضی اللہ عنہ کے آنے سے پہلے اسلام قبول کرچکے تھے، اس سے یہ قیاس ہوتا ہےکہ چچا کے ساتھ حضرت ذومخمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کیا ہوگا اور مدینہ بحالتِ اسلام آئے ہوں گے۔ غزوات غزوات میں شرکت کی کوئی تصریح تونہی ملتی؛ البتہ مسند کی ایک روایت سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی شریک رہتے تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ کی عادت شریف یہ تھی کہ تیز چل کرلوگوں سے آگے نکل جایا کرتے تھے (اور ایسا سامانِ سفر کی قلت کی وجہ سے کیا کرتے تھے کہ راستہ میں زیادہ دیر لگے گی توزادِ راہ سفر زیادہ چاہیے) چنانچہ اس سفر میں بھی وہ آگے نکل گئے توایک شخص نے کہا: یارسول اللہ! بہت سے لوگ پیچھے چھوٹ گئے ہیں، آپ ٹھہرگئے،جب سب لوگ جمع ہوگئے توآپ نے فرمایا: اگرتم لوگ چاہوتوتھوڑا ساآرام کرلو؛ پھرفرمایا کہ رات کے وقت نگرانی کون کریگا؟ حضرت ذومخمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس خدمت کے لیے اپنے کوپیش کیا، آپ نے اپنی اُونٹنی کی نکیل میرے ہاتھ میں دے دی اور فرمایا کہ غلطی سے بے خبر نہ ہوجانا میں آپ کی اور اپنی اونٹنی کی نکیل پکڑ کروہاں سے کچھ دورگیا اور دونوں کوچرنے کے لیے چھوڑ دیا، میں برابر اُونٹنیوں کودیکھتا رہا، اسی اثنا میں مجھے نیند آگئی اور ایسی گہری نیند آئی کہ جب اُٹھا توسورج کی کرنیں میرے اُوپرپڑ رہی تھیں، میں نے دیکھا کہ دونوں اُونٹنیاں چر رہی ہیں، میں دونوں کی نکیل پکڑے ہوئے جہاں سب لوگ سورہے تھےآیا اور کنارے سے ایک شخص کوجگایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُٹھے اور آپ نے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے وضو کیا اور باجماعت نماز فجر کی قضا کی(البدایہ:۵/۳۳۴) اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سفر کسی غزوہ ہی کے لیے رہا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک توآپ مدینہ میں رہے، بعد میں شام منتقل ہوگئے اور غالباً وہیں سکونت بھی اختیار کرلی اس لیے کہ اہلِ طبقات آپ کوشامیین میں شمار کرتے ہیں۔ وفات وفات کے متعلق اہلِ طبقات نے توکوئی تصریح نہیں کی ہے؛ البتہ تہذیب التہذیب میں یہ ہے کہ: نزل الشام ومات به۔ (تہذیب التہذیب:۳/۱۹۴، شاملہ، موقع یعسوب) ترجمہ:شام گئے اور وہیں وفات پائی۔ علم وفضل آپ سے مسند میں متعدد روایتیں ہیں، ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بھی آپ کی روایتیں موجود ہیں، حسب ذیل حضرات نے آپ سے روایتیں کی ہیں، ابوحیٔ الموذن، جبیرابن نغیر، عباس بن عبدالرحمن، عمروبن عبداللہ الحضرمی وغیرہ۔ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ذومخمر رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ آپ کا شمار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام میں ہے، اس شرف میں آپ اس قدر مشہور ہوئے کہ بعض لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موالی (موالی جن کواُردو میں غلام کہا جاتا ہے، اس سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جوجنگ میں گرفتار ہوکر آتے تھے اور خادم ہروہ شخص ہے جوکسی کی خدمت کرتا ہو، موالی خاص ہے اور خادم عام ہے) کی فہرست میں آپ کوبھی شمار کیا ہے۔