انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وتر کی نماز رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَلْوِتْرُحَقٌ، فَمَنْ لَّمْ یُوْ تِرْ فَلَیْسَ مِنَّا، وتر ایک حق ہے ، جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیںحوالہ (ابوداود بَاب فِيمَنْ لَمْ يُوتِرْ ۱۲۰۹) بند مسئلہ: وتر واجب ہے ، اگر وتر بھولے سے یا جان بوجھ کر چھوڑدے تواس کی قضاء ضروری ہے ۔حوالہ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ نَامَ عَنْ الْوِتْرِ أَوْ نَسِيَهُ فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَ وَإِذَا اسْتَيْقَظَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَنَامُ عَنْ الْوِتْرِ أَوْ يَنْسَاهُ ۴۲۷) بند مسئلہ: وتر کی نماز ایک سلام سے تین رکعت ہے۔حوالہ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ رَقَدَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَيْقَظَ فَتَسَوَّكَ وَتَوَضَّأ… ثُمَّ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ (مسلم، بَاب الدُّعَاءِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ وَقِيَامِهِ۱۲۸۰)عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يُسَلِّمُ فِي رَكْعَتَيْ الْوِتْرِ(نسائي بَاب كَيْفَ الْوِتْرُ بِثَلَاثٍ۱۶۸۰) عن عائشة ، قالت :« كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث لا يسلم إلا في آخرهن (المستدرك وأما حديث بكر بن وائل ۱۰۹۰) بند مسئلہ: کھڑے ہونے پر قدرت کے باوجود بیٹھ کر وتر کی نماز پڑھنا جائز نہیں۔حوالہ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ(بخاري بَاب إِذَا لَمْ يُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ ۱۰۵۰) بند مسئلہ: اسی طرح جانور پر سوار ہو کر وتر پڑھنا جائز نہیں ہاں جبکہ کوئی عذر ہو۔حوالہ عَنْ ﴿ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ وَيُوتِرُ بِالْأَرْضِ ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ كَذَلِكَ (شرح معاني الاثار بَابُ الْوِتْرِ هَلْ يُصَلَّى فِي السَّفَرِ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَمْ لَا ۲۵۹/۲)عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ قَالَ كُنْتُ أَسِيرُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ فَقَالَ سَعِيدٌ فَلَمَّا خَشِيتُ الصُّبْحَ نَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ ثُمَّ لَحِقْتُهُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَيْنَ كُنْتَ فَقُلْتُ خَشِيتُ الصُّبْحَ فَنَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِسْوَةٌ حَسَنَةٌ فَقُلْتُ بَلَى وَاللَّهِ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ عَلَى الْبَعِيرِ(بخاري بَاب الْوِتْرِ عَلَى الدَّابَّةِ ۹۴۴) بند مسئلہ: نماز ی کا وتر کی ہر رکعت میں نفل کی طرح سورۂ فاتحہ اور دوسری سورتیں پڑھنا ضروری ہے۔حوالہ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ قَالَ سَأَلْنَا عَائِشَةَ بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يُوتِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ ( ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِيمَا يُقْرَأُ بِهِ فِي الْوِتْر، حدیث نمبر:۴۲۵)۔ بند مسئلہ:مسئلہ:وتر کی دوسری رکعت میں تشہد کے لئے بیٹھے، اور تشہد پر کچھ اضافہ نہ کرے۔۔حوالہ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنَّا لَانَدْرِي مَانَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ..... فَقَالَ إِذَاقَعَدْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ فَقُولُوا التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ، الخ( نسائی، باب کیف التشھد الأول، حدیث نمبر:۱۱۵۱ ) بند مسئلہ: جب تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو تونہ ثنا پڑھے اور نہ تعوذ پڑھے- مسئلہ:جب تیسری رکعت میں سورت کی قرات سے فارغ ہو جائے تو اس وقت دونوں ہاتھوں کا کانوں کے برابر اٹھانا اور تکبیر کہنا ضروری ہے ، جیسا کہ نماز شروع کرتے وقت کرتے ہیں۔حوالہ عَنْ الأَسْوَدِ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُودٍ كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ كَبَّرَ ثُمَّ قَنَتَ ، فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقُنُوتِ كَبَّرَ ثُمَّ رَكَعَ. …عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :ارْفَعْ يَدَيْك لِلْقُنُوتِ )مصنف ابن ابي شيبة فِي التَّكْبِيرِ لِلْقُنُوتِ ۳۰۷/۲) بند پھر رکوع سے پہلے کھڑے کھڑے دعائے قنوت پڑھے۔حوالہ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْنُتُ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ (ترمذي كِتَاب الْعِلَلِ ۴۹۶/۱۲) بند مسئلہ: دعائے قنوت وتر میں سال بھر واجب ہے۔حوالہ عن النخعي :أن ابن مسعود كان يقنت السنة كلها في الوتر (المعجم الكبير عبد الله بن مسعود الهذلي ۲۸۳/۹) بند مسئلہ: امام مقتدی اور منفرد میں سے ہر شخص (آہستہ سے) دعاءقنوت پڑھے۔حوالہ عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ. )مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ.۳۰۸/۲) بند حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے منقول قنوت پڑھنا سنت ہے اور وہ یہ ہے: اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَھْدِیْکَ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ وَنَشْکُرُکَ وَلاَ نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکَ مَنْ یَّفْجُرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعَیٰ وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْرَحْمَتَکَ وَنَخْشَیٰ عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ۔ ترجمہ:اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے اور تجھ سے ہدایت طلب کرتے ہیں اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں اور تیرے سامنے توبہ کرتے ہیں اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری بہتر ثنا بیان کرتے ہیں اور تیرا شکر ادا کرتے ہیں ہم تیری ناشکری نہیں کرتے اور ہم الگ ہوتے ہیں اور چھوڑتے ہیں جو تیری نافرمانی کرتا ہے۔ اے اللہ ! ہم خاص تیری عبادت کرتے ہیں اور تیرے لئے ہی نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور ہم تیری بندگی کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں، بیشک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔حوالہ (مصنف ابن ابی شیبہ، مايدعو به الرجل في قنوت الوتر، جلدنمبر:۷/۱۱۴) بند جو شخص اس منقول قنوت پڑھنے پر قادر نہ ہو تو وہ کہے:’’ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ‘‘ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں قبر کے عذاب سے بچالے۔حوالہ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(بخاري بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً۵۹۱۰) بند یا تین مرتبہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ کہے یا تین مرتبہ یَارَبِّ کہدے۔حوالہ اگر نمازی قنوت پڑھنا بھول جائے اور اس کو رکوع کی حالت میں یاد آجائے تو رکوع میں قنوت نہ پڑھے اور نہ ہی قنوت پڑھنے کیلئے اٹھ کر کھڑا ہو ، بلکہ واجب کو بھولے سے چھوڑدینے کی وجہ سلام کے بعد سجدہ سہو کرے اسی طرح اگر اسے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یاد آجائے تو قنوت نہ پڑھے ، بلکہ سلام کے بعد سجدہ سہوکرلے،اگر رکوع سے اٹھنے کے بعد قنوت پڑھ لے تو رکوع کو نہ لوٹائے لیکن سجدہ سہو کرے ، اس لئے کہ اس نے قنوت کو اپنی جگہ سے مؤخر کیا ہے۔ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ :مَنْ نَسِىَ الْقُنُوتَ فِى الْوِتْرِ سَجَدَ سَجْدَتَىِ السَّهْوِ.(السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ نَسِىَ الْقُنُوتَ سَجَدَ لِلسَّهْوِ ۴۰۴۲) بند مسئلہ:اگر امام مقتدی کے قنوت سے فارغ ہو نے سے پہلے رکوع کرے تو مقتدی اس کی پیروی نہ کرے بلکہ قنوت کو مکمل کرے پھر اس کے ساتھ رکوع میں شریک ہو جائے۔حوالہ عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ. )مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ.۳۰۸/۲) بند ہاں اگر امام کے ساتھ رکوع کے ملنے کی اميد نہ ہو تو امام کی پیروی کرے اور قنوت چھوڑ دے ۔حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ(بخاري بَاب إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ ۶۸۰) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ (بخاري بَاب إِيجَابِ التَّكْبِيرِ وَافْتِتَاحِ الصَّلَاةِ: ۶۹۲) مذکورہ نصوص سے معلوم ہوا کہ امام کی متابعت ضروری ہے، اب اگروہ دعائے قنوت میں لگا رہے اور رکوع میں امام کے ساتھ نہ مل پائے تواس کا ایک رکن میں امام کی متابعت نہ کرنا پایا جائے گا پھر اس کی نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے اس صورت میں قنوت چھوڑ کرامام کی متابعت کرلے گا۔ بند مسئلہ: اگر امام دعائے قنوت چھوڑدے تو مقتدی کا اگر امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہونا ممکن ہو تو قنوت پڑھ لے۔حوالہ عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ. )مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ. ۳۰۸/۲) بند اور اگر امام کے ساتھ رکوع کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو تو امام کی پیروی کرے اور قنوت چھوڑدے۔ حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ(بخاري بَاب إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ ۶۸۰) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ (بخاري بَاب إِيجَابِ التَّكْبِيرِ وَافْتِتَاحِ الصَّلَاةِ: ۶۹۲) مذکورہ نصوص سے معلوم ہوا کہ امام کی متابعت ضروری ہے، اب اگروہ دعائے قنوت میں لگا رہے اور رکوع میں امام کے ساتھ نہ مل پائے تواس کا ایک رکن میں امام کی متابعت نہ کرنا پایا جائے گا پھر اس کی نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے اس صورت میں قنوت چھوڑ کرامام کی متابعت کرلے گا۔ بند مسئلہ:قنوت ، وتر کے علاوہ صرف مصائب کے وقت پڑھا جائے گا، حوادث و مصائب کے وقت پڑھا جانے والا قنوت صرف امام کے لئے رکوع سے سراٹھانے کے بعد مسنون ہے نہ کہ منفرد کے لئے ۔حوالہ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَقَنَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصُّبْحِ قَالَ نَعَمْ فَقِيلَ لَهُ أَوَقَنَتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ قَالَ بَعْدَ الرُّكُوعِ يَسِيرًا(بخاري باب الْقُنُوتِ قَبْلَ الرُّكُوعِ وَبَعْدَهُ ۹۴۶) بند امام کے لئے بہتر یہ ہے کہ مصائب میں درج ذیل قنوت کو پڑھے ، مزید اس میں سنت سے ثابت شدہ زیادتی کی جاسکتی ہے۔حوالہ اَللّٰھُمَّ اھْدِنَا بِفَضْلِکَ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ ، وَعَافِنَا فِیْمَنْ عَافَیْتَ ، وَتَوَلَّنَا فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لَنَا فِیْمَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّمَا قَضَیْتَ ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلاَ یُقْضَیٰ عَلَیْکَ، وَاِنَّہٗ لاَ یُذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ ، وَلَا یَعِزُّمَنْ عَادَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ ، وَصَلَّی اللُّہُ عَلَی سَیِّدِنَا مُحَمِّدٍ وَّالِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ ‘’(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ۴۲۶) بند مسئلہ:اگر مسبوق اپنے امام کو تیسری رکعت کے رکوع میں پالے تو حکما قنوت پانے والا ہوگا ، لہذا وہ اپنی نماز مکمل کرنے کے لئے کھڑا ہوتے وقت قنوت نہیں پڑھے گا۔حوالہ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ « مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصَّلاَةِ فَقَدْ أَدْرَكَهَا قَبْلَ أَنْ يُقِيمَ الإِمَامُ صُلْبَهُ(دار قطنی باب مَنْ أَدْرَكَ الإِمَامَ قَبْلَ إِقَامَةِ صُلْبِهِ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلاَةَ.۱۳۲۹) بند مسئلہ: رمضان میں وتر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا آخری رات میں تنہا پڑھنے سے افضل ہے ۔حوالہ عَنْ مَالِك عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً (موطامالك بَاب مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ: ۲۳۳) مذکورہ اثر سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین رمضان میں جماعت کے ساتھ وترادا کیا کرتے تھے اور یہ حضرات امتِ محمدیہ میں سب سے زیادہ بہتر اور افضل پرعمل کرنے والے تھے؛ اس لیے فقہاء کرام نے رمضان میں وتر جماعت سے پڑھنے کوافضل قرار دیا ہے۔ بند اورغیر رمضان میں وتر کی جماعت مکروہ ہے ۔حوالہ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَطَوُّعِهِ فَقَالَتْ كَانَ يُصَلِّي فِي بَيْتِي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَيُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ وَيَدْخُلُ بَيْتِي فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ فِيهِنَّ الْوِتْرُ(مسلم، بَاب جَوَازِ النَّافِلَةِ قَائِمًا وَقَاعِدًا وَفِعْلِ بَعْضِ الرَّكْعَةِ قَائِمًا وَبَعْضِهَا قَاعِدًا ۱۲۰۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وترگھر میں تنہا ادا فرماتے تھے؛ اس لیے غیررمضان میں وترباجماعت مکروہ قرار دی گئی۔ بند