انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تبع تابعینؒ تعارف تبع تابعین حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ: خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ۔ (بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ،بَاب فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۳۳۷۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:میری بہترین اُمت میرے زمانہ کے لوگ ہیں (صحابہ) پھر وہ لوگ ہیں جنھوں نے اُن کا زمانہ پایا (تابعین) پھروہ لوگ ہیں جنھوں نے اُن کا زمانہ پایا (تبع تابعین)۔ عام علمائے اُمت (شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے غالباً بعض اعتراضات سے بچنے کے لیے پہلے ٹکڑے سے عہدِ نبوی اور دوسرے سے عہد صدیقی اور تیسرے سے عہد فاروقی مراد لیا ہے) نے ارشادِ نبوی کے پہلے ٹکڑے کا مصداق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مقدس جماعت کواور دوسرے اور تیسرے ٹکڑے کا مصداق تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے برگزیدہ گروہ کوقرار دیا ہے۔ اس مشہود بالخیرقرون ثلثہ میں صرف خلافتِ راشدہ کا تیس سالہ مبارک عہد ایسا گذرا ہے جن میں عہد نبوی کی تمام سعادتیں اور برکتیں یایوں کہیے کہ اسلام کی تمام اخلاقی وقانونی خوبیاں ایک تسلسل کے ساتھ حکومت ومعاشرہ دونوں میں مشاہد طور پرموجود تھیں، جن کوہرآیندہ وردندایک سرسری نگاہ میں دیکھ سکتا تھا؛ چنانچہ اس عہد سعید میں جتنی کم سیاسی اور معاشرتی برائیاں پیدا ہوئیں، دنیا کی سیاسی ومذہبی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی؛ لیکن اس عہد سعید کے بعد اتفاق سے حکومت کی باگ ڈور ایسک لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی جواپنی بہت سی انفرادی واسلامی خصوصیات کے باوجود سیاسی میدان اور حکومت کے ایوان میں اپنی اجتماعی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کوکماحقہ ادا نہ کرسکے، جس کے نتیجہ میں بہت جلد اسلامی خلافت شخصی حکومت میں تبدیل ہوگئی؛ گونام ابھی خلافت ہی تھا؛ مگراس میں خلافت کی روح باقی نہیں تھی، عہد راشدہ میں سیاست مذہب واخلاق کے تابع تھی اور اب مذہب واخلاق پرسیاست کوترجیح دی جانے لگی تھی، اس سے پہلے خلافت کسی خاندان کی میراث نہ تھی اور اب کسی نہ کسی خاندان کے لیے مخصوص ہوگئی تھی، حضرات خلفائے راشدین معاشرہ کی اصلاح وفلاح کوحکومت کی سب سے بڑی بلکہ ذاتی ذمہ داری سمجھتے تھے اور اب حکومت کا قیام اور اس کی بقا کے لیے سیاسی جوڑتوڑ خلفاء کا سب سے بڑا کام رہ گیا تھا؛ غرض یہ کہ اس تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ معاشرہ میں بعض نئی نئی اور بعض دبی ہوئی پرانی برائیاں پھراُبھرنے لگیں اور بہت سے سوئے ہوئے فتنے نئے نئے قالب میں پھرسراُٹھانے لگے؛ لیکن ایوانِ حکومت سے باہر ابھی ممتاز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بڑی تعداد اور حضرات تابعین رحمہم اللہ کی پوری جماعت موجود تھی، جوعہد نبوی اور عہد راشدہ کی تمام سعادتوں، برکتوں اور اسلام کی انفرادی واجتماعی خصوصیتوں کوابھی تک اپنے سینوں سے لگائے ہوئے تھی، جس کے دل میں جہاد کی تڑپ اور اقامت دین کا جذبہ موجود تھا، جوامربالمعروف ہی کونہیں بلکہ نہی عن المنکر کوبی اپنی سب سے بڑی ذمہ داری اور سعادت سمجھتی تھی؛ چنانچہ اس مبارک جماعت کے افراد انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقہ پراس صورتِ حال کوبدلنے اور برائیوں اور فتنوں کومٹانے کے لیے آگے بڑھے اور اس راہ میں انہوں نے وہ سب کچھ جھیلا جو اس راہِ حق کے راہ رؤں کوجھیلنا اور سہنا پڑتا رہا ہے، یعنی کتنے اس مقابلہ میں شہید ہوکر خدا کے خضور سرخ رو ہوئے، کتنوں نے داررسن کولبیک کہا اور اپنے مولیٰ کی مرضی پائی اور کتنے قید وبند کی کڑیاں جھیلتے جھیلتے جاں بحق ہوگئے اور کچھ موقع کی تلاش میں تھے: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَاعَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ۔ (الأحزاب:۲۳) ترجمہ:اہلِ ایمان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جومعاہدہ کیا تھا اُسے پورا کردکھایا؛ پھربعض اُن میں ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نذر پوری کرلی، کچھ اس کے پورا کرنے کے آرزو مند ہیں۔ گواس برگزیدہ جماعت کی یہ کوششیں شخصی حکومت کودوبارہ اسلامی خلافت میں تبدیل کردینے میں مکمل طور پرتوکامیاب نہیں ہوئیں (اس کے بہت سے اسباب تھے، جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے، مکمل طور پرکی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ ان کوششوں کا کہ کچھ نہ کچھ اثر نظامِ حکومت اور ان کے چلاے والوں پربھی ضرور پڑتا تھا؛ مگرزیادہ تراس کا اثرمحدود اور وقتی ہوتا تھا؛ انہی کوششوں کا ایک ظہور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت تھی)؛ مگرایوانِ حکومت سے باہر معاشرہ کی اکثریت کودینِ مبین پرقائم واستوار رکھنے، ان کونئے نئے فتنوں سے بچانے اور علمی وعملی طور پردین کی حفاظت میں ان کی جدوجہد اور قربانی کا غیرمعمولی اثر ہوا اور ان کی یہ سعی اس لحاظ سے سعی مشکور ثابت ہوئی اور دراصل ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے۔ حضرات تابعین کے بعد اس مبارک کام کوان کی فیض یافہ جماعت یعنی تبع تابعین رحمہم اللہ نے اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے زمانہ کے حالات وضروریات کے مطابق اسے پورا کرنے کی کوشش کی، اس راہ میں ان کوبھی وہ تمام مصیبتیں اور صعوبتیں اُٹھانی پڑیں جوان کے پیش روؤں کواُٹھانی پڑی تھیں، صحابہ کرام اور تابعین وتبع تابعین کی کوششوں کے دائرہ عمل میں اتنا فرق ضرور ہے کہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم نے انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح سے اصلاحِ حال کی سعی کی اور حضراتِ تابعین وتبع تابعین نے حالات اور چھپہلے تجربات کی بناپربی اور اس لیے بھی کہ امت مزید جنگ وجدال اور فتنہ وفساد سے محفوظ رہے، اپنا دائرۂ عمل انفرادی جدوجہد ہی تک محدود رکھا گوکہیں کہیں اجتماعی جدوجہد کی جھلک بھی ملتی ہے۔ قرآن مجید اور سیرۃ نبوی کا ایک اعجاز قرآن مجید اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا اعجاز یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ دنیا کے علم وفن میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا؛ بلکہ ان کے ذریعہ اس کا دامن ایک ایسی متحرک عملی واخلاقی زندگی سے بھی مالامال ہوا جوایک خاص وقت میں پیدا ہوکر ختم نہیں ہوگئی؛ بلکہ صدہاسیاسی اور تمدنی انقلابات کے باوجود وہ دوام وتسلسل کے ساتھ آج تک باقی ہے اور انشاء اللہ قیامت تک باقی رہے گی، اس نئی متحرک اخلاقی وعملی زندگی کا اولین نمونہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ تھے یہی وجہ ہے کہ امت نے قرآن وسیرت کی حفاظت کے بعد ان بزرگوں کی سوانح حیات اور سیرت کے معنوی خدوخال کوتحریری طور پرمحفوظ ومنقوش کرلینے میں سب سے زیادہ کوشش کی؛ گوان نقوش کے ذریعہ ان قدسی صفات بزرگوں کی زندگی کی پوری کیفیتیں اور معنویتیں ہم تک نہیں پہنچ سکیں؛ مگرپھربھی ان کی زندگی کا جتنا حصہ بھی بذریعہ تحریر ہم تک پہنچا ہے، اس کے پڑھنے سے آج بھی مردہ دلوں میں زندگی اور بجھی طبعیتوں میں سوزوگداز اور حرارت پیدا ہوتی ہے، ان کی سادہ سادہ باتوں سے دل میں خدا کی محبت کاجوش اور رضائے الہٰی کی طلب اور آخرت کا یقین بلکہ ذوق ومشاہدہ پیدا ہوتا ہے، ان کی زندگی کے عام واقعات کے سننے اور پڑھنے سے اقامت دین کا جذبہ احیائے سنت کا ولولہ اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی تڑپ پیدا ہوتی ہے، ان کے زہد واتقاء استغنا وبے نیازی اور خلفاوامراء سے ان کی بے تعلقی اور اظہارِ حق کے واقعات پڑھ کردنیا کی بے حقیقتی اور اس کوایمان کی راہ میں شارکردینے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے؛ اگرایک طرف اموی اور عباسی دور کی تاریخ پڑھ کرمایوسی اور شرمندگی پیدا ہوتی ہے توان کے حالات کا مطالعہ کرکے شرمندگی اور مایوسی دور ہوجاتی ہے۔ اسی اہم ضرورت کے پیشِ نظر دارالمصنفین نے اپنے ابتدائے قیام ہی سے سیاسی وتمدنی تاریخ کی تدوین وترتیب کے ساتھ اس مشہودبالخیر قرون ثلاثہ کے ممتاز بزرگوں کے سوانح حیات اردوزبان میں منتقل کرنے کا بھی پروگرام بنایا تھا؛ چنانچہ اس پروگرام کے مطابق قرن اوّل اور قرن ثانی کے بزرگوں کے اسوے اور سوانح حیات پرتقریباً ایک درجن کتابیں آج سے کئی برس پہلے شائع ہوچکی ہیں، اب یہ قرن ثالث یعنی تبع تابعین کے سوانح حیات کا مرقع ہدیۂ ناظرین کیا جارہا ہے اور یہ اس سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی ہے۔ تبع تابعین کے عہد کی تعیین عہد صحابہ کی ابتدا بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئی اور اس کا اختتام اس وقت ہوا جب کہ دیدارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف اندوز ہونے والے آخری صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا پہلی صدی کے اختتام پرانتقال ہوا۔ عہد صحابہ کی طرح عہد تابعین کے بارے میں تاریخ وسنہ کی تعین کے ساتھ یہ بتانا مشکل ہے کہ وہ کب سے شروع ہوا اور کب ختم ہوا؛ مگربعض واقعات اور قوی قرائن کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس عہد کی ابتداء عہدِ نبوی میں ہوگئی تھی؛ کیونکہ اس عہد میں متعدد ایسے سلیم الفطرت لوگ موجود تھے جنہوں نے اپنے سرکی آنکھوں سے توروئے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی تھی؛ لیکن جوں ہی دعوتِ حق کی آواز ان کے کانوں تک پہنچی انہوں نے اس پرلبیک کہا اور اس کواپنے سویدائے دل میں جگہ دی، مثلاً حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ، حضرت اصمحہ شاہِ حبشہ رحمہ اللہ وغیرہ، اس طرح تقریباً ایک صدی تک عہدِ صحابہ اور عہدِ تابعین ساتھ ساتھ چلتا رہا؛ لیکن پہلی صدی کے اختتام پرصحابہ کا عہد سعید ختم ہوگیا اور اب حضرات تابعین کے ساتھ ان کی تربیت یافتہ جماعت اتباع تابعین کا عہد رشید اس میں منسلک ہوگیا اور تابعین کے ساتھ تبع تابعین کا دور قریب قریب پون صدی تک ساتھ ساتھ گذرا۔ عہد تابعین کی طرح، اتباعِ تابعین کے بارے میں بھی سنہ وتاریخ کی تعیین کے ساتھ نہیں بتایا جاسکتا کہ وہ کب سے شروع ہوا اور کب ختم ہوا؛ مگربعض اتباع تابعین کے سنہ ولادت اور بعض تابعین کے سنہ وفات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی صدی کے آخر سے اس عہد کی ابتدا ہوگئی تھی، مثال کے لیے امام شعبہ رحمہ اللہ کی ولادت سنہ۸۰ھ میں ہوئی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ولادت بھی سنہ۸۰ھ میں ہوئی لیکن عام ارباب تذکرہ امام شعبہ کا شمار اتباعِ تابعین میں کرتے ہیں، امام صاحب کا تابعین میں؛ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اتباعِ تابعین کا اصلی دور دوسری صدی کے ربع اوّل سے شروع ہوکر تیسری صدی کے ربع اوّل تک ختم ہوجاتا ہے اس لیے کہ بعض تابعین کی وفات سنہ۱۶۴ھ اور بعض کی سنہ۱۷۴ھ میں ہوئی، اس اعتبار سے جن ائمہ فقہ وحدیث کی ولادت سنہ۱۵۰ھ اور سنہ۱۶۴ھ کے درمیان ہوئی ان کوبھی معاصرت کی وجہ سے اسی زمرہ میں شامل کرلیا گیا ہے؛ اگرچہ تابعین سے ان کے کسب فیض کرنے کا کوئی ظاہری ثبوت موجود نہیں ہے، مثلاً امام شافعی، امام احمد بن حنبل، اسحاق ابنِ راہویہ، علی بن المدینی وغیرہ، دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اموی خلیفہ ولید ثانی کے عہد سے لے کرعباسی عہد کے دسویں خلیفہ متوکل علی اللہ کے عہد تک اتباعِ تابعین کا خالص عہد رہا ہے۔ تبع تابعین سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس عہد میں گوبڑے بڑے صاحب سطوت خلفاء لائق ترین امراء اور سپہ سالار کامل ترین فلاسفہ ومتکلمین اور بڑے بڑے زبان آور خطباء ادباء وشعراء پیدا ہوئے جن میں سے ہرایک سے بواسطہ یابلاواسطہ ملک وملت اور اسلامی علوم کی کوئی نہ کوئی خدمت انجام پائی اور اس لحاظ سے ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا بڑی احسان ناشناسی ہوگی؛لیکن ان کوہم زمرۂ تبع تابعین میں اس لیے شامل نہیں کرتے کہ صحابہ اور تابعین کی طرح تبع تابعین کا لقب بھی امت میں ان حضرات کے لیے مخصوص ہوگیا ہے، جن کے علم وعمل میں یکسانیت اور ہم رنگی رہو، جن کے ذریعہ دین یاعلم دین کی حفاظت کا براہِ راست کوئی نہ کوئی کام انجام پایا ہو، جن کی زندگی میں سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وتابعین کی سیرت کا رنگ غالب رہا ہو، جن کے علم وفضل، زہدوورع اور دیانت وتقویٰ پرایک مخلوق کواعتماد رہا ہو اور یہ اعتماد اب تک باقی ہو اس لیے جن خلفاء، وزراء، شعراء، ادباء اور اہلِ علم کی زندگی اس معیر پرپوری نہیں اترتی ان کا ذکر مستقلاً اس کتاب میں نہیں آئے گا، یوں جس طرح اس عہد کی سیاسی تاریخ کے ضمن میں حضرات تبع تابعین کا ذکر ضمناً آجاتا ہے؛ اسی طرح اس مرقع میں بھی اس کا ذکر ضمناً موقع، بہ موقع آگیا ہے۔ اس عہد کی خوبیاں اور خرابیاں تبع تابعین رحمہم اللہ کے عہد کی عکاسی اگرمختصر لفظوں میں کی جائے تویہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ عہد تضاد تھا، یعنی اگرآپ اس عہد کی سیاسی اور ادبی، تاریخ، فکری آزادی اور بعض معاشرتی خرابیوں کی داستان پڑھیں گے توآپ کے دل ودماغ پرتھوڑی دیر کے لیے یہ احساس ضرور طاری ہوجائے گا کہ یہ عہد ظلم وجورعیش وعشرت، قبائلی عصبیت اور مختلف مذہبی وسیاسی فتنوں اور فلسفیانہ موشگافیوں سے بھرا ہوا تھا؛ لیکن اسی آن اگر آپ کواس عہد کے قابل اعتماد محدثین، فقہا علما اور صلحاء کے تذکرے دے دئے جائیں اور اُن کے ذریعہ آپ کوکچھ دیر کے لیے ان برگزیدہ نفوس حضرات کی صحبت ومجلس میں پہنچادیا جائے تویہی نہیں کہ منفی طور پرآپ کے پہلے احساس میں کمی آجائے گی؛ بلکہ مثبت طور پرآپ یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ آپ کے کانوں میں ہرگوشہ سے قال اللہ اور قال الرسول ہی کی آواز آرہی ہے، ہرگھر اور ہرمجلس میں دین اور علم دین ہی کا چرچا ہے، فقروفاقہ کے باوجود دنیا اور اہلِ دنیا سے استغنا وبےنیازی، زہدواتقاء حق گوئی وبے باکی اور ان کی سادگی وتواضع کے واقعات پڑھ کرآپ کچھ دیرکے لیے اپنے آپ کوعہد صحابہ سے قریب ترمحسوس کرنے لگیں گے، ان کی علمی کاوشوں اورتفقہ واجتہاد اور قانونی دقتِ نظری کی اتنی کثرت سے مثالیں ملیں گی کہ اس عہد کی فلسفیانہ موشگافیوں کی آپ کے دل میں کوئی وقعت نہیں رہ جائے گی؛ جیسا کہ ذکر آچکا ہے کہ اسلامی معاشرہ میں یہ قضاء گوعہدراشدہ کے بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا؛ لیکن اس عہد میں بعض سیاسی اسباب اور بعض نئے فتنوں کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوگیا تھا، عہد تابعین یعنی اموی دور میں معاشرہ میں عام طور پرعربی اور بدوی رنگ غالب تھا اس لیے اس عہ دکی برائیوں میں ملمع سازی نہیں سادگی تھی؛ لیکن عہد تبع تباعین یعنی عباسی دور میں جوسیاسی، علمی، مذہبی، معاشرتی برائیاں پیدا ہوئیں، ان میں عجمیت، اباحیت پسندی اور فلسفیانہ موشگافی کا رنگ غالب تھا، جاحظ کا یہ مشہور مقولہ ہے کہ: من كلام خُلفائنا من وَلَد العباس، ولوأن دولتَهم عجميّة خُراسانيّة، ودولة بني مَرْوان عربيّة أعرابيّة۔ (البیان ولتبیین:۱/۳۱۱، شاملہ، موقع الوراق۔دیگرمطبوعہ:۳/۲۰۶) ترجمہ:عباسی حکومت میں عجمی اور خراسانی رنگ غالب تھا اور بنوامیہ کی حکومت میں عربی اور بدوی رنگ غالب تھا۔ یہ تضاد دوسرے عناصر کے ساتھ یونانی، سریانی اور ہندی علوم خاص طور پرفلسفہ اور نجوم کی کتابوں کے عربی میں منتقل ہونے اور مدح خوان شعراء ادباء اور مغنیون کی حکومت کی طرف سے ہمت ازائی کی وجہ سے بھی پیداہوا اور اس کے بڑھانے میں قبائلی عصبیت اور ایرانی قومی حمیت نے بھی حصہ لیا؛ چنانچہ اس کے اثرات نہ صرف عملی زندگی میں پڑنے لگے؛ بلکہ اس کا اثراسلامی علوم اور اسلامی عقائدہ پربھی پڑا، اسلامی مملکت کے اکثر مقامات اور خاص طور پرکوفہ وبصرہ پایہ تخت ہونے کی وجہ سے نئے نئے مسائل اور نئے نئے مباحث کے آماج گاہ بن گئے تھے، شیعیت، خارجیت اور عربی عصبیت کے قدیم فتنے کیا کم تھے کہ ان میں قبائی اور قومی عصبیت، شعوبیت، اعتزال، مرجئیت، قدریت او رجہمیت وغیرہ جیسے نئے نئے فتنوں کا اضافہ ہوگیا تھا۔ اس پرفن اور پرشوردور میں جس میں آدمی کا اپنے ایمان کو سلامت رکھنا مشکل تھا، حضرات تبع تابعین نے نہ صرف یہ کہ اُن تمام فتنوں کا سلبی طور پرمقابلہ کیا؛ بلکہ ایجابی طور پرعلومِ دینیہ کی حفاظت اور تدوین وترتیب کا غیرمعمولی کام بھی انجام دیا؛ اگریہ برگزیدہ جماعت اس کام کی طرف متوجہ نہ ہوتی توامت، اسلامی علوم کے نہ جانے کتنے بڑے حصہ سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتی اور ان کی جگہ نہ جان کتنے غیراسلامی علوم نے لے لی ہوتی آئیندہ صفحات میں ان کے سلبی اور ایجابی دونوں طرح کے کارناموں کی قدرے تفصیل کی جاتی ہے؛ لیکن ان کے ان کارناموں کی تفصیل سے پہلے ضرورت ہے کہ اس عہد کے فتنوں کا مختصر تذکرہ کردیا جائے، ان کا تذکرہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ کتاب میں بار بار ان کا نام آئے گا اور اس لیے بھی کہ ان کی حقیقت جانے بغیر نہ توتبع تابعین کے کارناموں کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے اور نہ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ بعض ائمہ نے ان کے مقابلہ میں اپنے جسم وجان کا پورا سرمایہ کیوں لگادیا۔ قبائلی عصبیت ظہورِ اسلام سے قبل عربوں میں قبائلی عصبیت اور ایرانیوں اور عیسائیوں میں قومی اورطبقاتی عصبیت اپنے شباب پرتھی، اس لام نے ان تمام عصبیتوں پرشدید ضرب لگائی اور اس کے بجائے اس نے شرف وامتیاز کا صرف ایک معیار قرار دیا: يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّاخَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (الحجرات:۱۳) ترجمہ:اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کوایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے؛ تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو، درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جوتم میں سب سے زیادہ متقی ہو، یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا، ہرچیز سے باخبر ہے۔ (توضیح القرآن:۳/۱۵۸۵، مفتی محمدتقی عثمانی، مطبوعہ:فرید بکڈپو، دہلی) قرآن کی اس ہدایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار اور خاص طور پراپنے آخری حج کے موقع پراعلان فرمایا کہ: عَنْ أَبِي نَضْرَةَ حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ خُطْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَسَطِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ فَقَالَ يَاأَيُّهَا النَّاسُ أَلَاإِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ أَلَالَافَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ وَلَالِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ وَلَالِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلَاأَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّابِالتَّقْوَى۔ (مسنداحمد بن حنبل، حَدِيثُ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۳۵۳۶، شاملہ، الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة) اس تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ عربی، عجمی، رومی ایرانی، کالے، گورے، غلام اور آقا ہرطبقہ وگروہ کے لوگ اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئے اور ان میں سے ہرایک گروہ اور طبقہ کے لوگوں نے اپنی اپنی ذاتی صلاحیت وتقویٰ کی بنیاد پربڑے سے بڑا شرف وامتیاز حاصل کیا؛ لیکن اموی حکومت نے جب اسلامی خلافت کی جگہ شخصی حکومت کی بنیاد ڈالی توانہوں نے اپنی سیاسی مصلحت کی بناپر اپنے گردایسے ہی لوگوں کوجمع کرنا شروع کیا اور انہی کی زیادہ ہمت افزائی کی جوہرحال میں ان کی حمایت کریں؛ چونکہ یہ خود عربی النسل تھے اور شام کے عربوں کی حمایت پران کی حکومت قائم ہوئی تھی اس لیے انہوں نے عربی عصبیت کوہوادی اور خاص طور پرعرب قبائل کوحکومت اور فوج میں زیادہ سے زیادہ دخیل کیا، اس دور کے عربی ادب وشاعری میں یہ چیز عام طور پرنظر آتی ہے، اس عصبیت سے اموی حکومت کوکچھ سیاسی فائدے ضرور ہوئے؛ لیکن اس ذہنیت نے عربوں میں بھی یمنی، مصری اور عدنانی وقحطانی عصبیت کوپھرسے زندہ کردیا اور یہ کہنا بالکل مبالغہ نہ ہوگا کہ اسی عصبیت نے مشرق میں بھی اموی حکومت کا بیڑا غرق کیا اور مغرب یعنی اندلس میں بھی ایک مدت تک ان کوچین لینے نہیں دیا، یہ داستان بڑی لمبی اور دل دوز ہے، اموی خلفاء میں حضرت عمربن عبدالعزیم رضی اللہ عنہ کی ایک ذات ایسی تھی جونہ صرف اس عصبیت سے دورتھے؛ بلکہ انہوں نے اس کے مٹانے کی بھی کوشش کی۔ غیرعربوں کی قومی عصبیت ایران وروم کی سیاسی شکست کے بعد وہاں کی دبی اور کچلی ہوئی عام آبادی نے تواسلام کوبطیبِ خاطرقبول کرلیا اور اس کواپنے لیے ایک نعمت ورحمت تصور کیا؛ مگروہاں کے بااقتدار اور اونچے طبقہ نے گوظاہری طور پراسلامی حکومت کی اطاعت قبول کرلی تھی؛ مگرابھی تک اس کے دل سے طبقہ واریت اور قومی عصبیت کا ناپاک جذبہ نہیں نکلا تھا اور جب بھی ان کوموقع ملتا تھا وہ اس جذبہ کوظاہر کرتے رہتے تھے الاماشاءاللہ جس طرح امویوں نے اپنی سیاسی مصلحت کے تحت عربی عصبیت کوہوادی؛ اسی طرح عباسیوں نے اپنی حکومت کے قیام اور پھراس کے بقا کے لیے عجمی عصبیت کوابھارا جس کی وجہ سے ان کے پیرپورے طور پرجم گئے؛ چنانچہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عربوں یامسلمانوں کے خلاف جتنی سیاسی بغاوتیں یااسلامی ممالک میں جتنے مذہبی اور معاشرتی فتنے پید ہوئے ان کی ابتدائ یاتوکسی عجمی کے ذریعہ ہوئی یاکم ازکم ان کی پشت پران کی مدد ضرور رہی، عباسی حکومت انہیں کی مدد سے قائم ہوئی جس کا خود منصور کواعتراف تھا اور بار بار اعلان کرتا رہا کہ: ياأهل خُرَاسان، أنتم شيعتنا وأنصارنا، وأهل دعوتنا۔ (مروج الذهب:۱/۴۸۲، شاملہ،المؤلف : المسعودي،موقع الوراق۔ مسعودی:۱۲۷) ترجمہ: اے اہلِ خراسان تم ہمارے مددگار اور انصار اور ہماری حکومت کے داعی ہو۔ مگراس کے باوجود منصور کے زمانہ سے لے کرہارون کے زمانہ تک جتنی بغاوتیں اور مذہبی فتنے پیدا ہوئے ان میں ایرانیوں کا ہاتھ ضرور تھا، مثال کے طور پرسنہ۱۳۷ میں سنباو کی بغاوت سنہ۱۴۱ میں فرقہ راوندیہ کی شورش میں انہی کا ہاتھ تھا، سنہ۱۵۰ میں استاذسیس نامی ایک خراسانی نے دعوائے نبوت کیا، جس کی دعوت کوسب سے زیادہ فروغ انہی میں ہوا؛ اسی ذہنیت کے نتیجہ میں منصور کواپنے سب سے بڑے حامی ابومسلم حراسانی کوقتل کرانا پڑا، عجمیت نوازی کے نتائج عباسی حکومت کے سامنے برابر آتے رہے؛ لیکن ایرانی اور غیرعربی عنصر عباسی حکومت میں اتنا دخیل ہوچکا تھا کہ اس کوبالکل نظر انداز کردینا اس کے بس میں نہیں تھا۔ اس عجمیت نوازی سے گوعربوں کی اہمیت سیاسی طور پرقدرے کم ہوگئی تھی؛ لیکن پھربھی جوعربی عناصر حکومت کے اندر اور باہر موجود تھے؛ انھوں نے شکست نہیں کھائی تھی؛ بلکہ وہ ہمیشہ اس ذہنیت کا مقابلہ کرتے رہتے تھے؛ چنانچہ امین مامون کی جنگ گوبظاہر دوبھائیوں کی جنگ تھی؛ لیکن حقیقۃ عربوں اور عجمیوں کی جنگ تھی؛ اگرامین فاتح ہوتا تواس سے عربوں کی فتح ہوتی (کیونکہ اس کی ماں عربی النسل تھی جس کی وجہ سے عربی عصبیت اس میں کوٹ کوٹ کربھری تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس کی پشت پناہی زیادہ ترعربوں نے کی) اور مامون کی جیت ہوتی تواس سے عجمیوں اور غلاموں کی فتح ہوتی؛ کیونکہ وہ خود کنیز زادہ تھا اس لیے عجمیت نوازی اس کوورثہ میں ملی تھی اور اہلِ عجم ہی اس کے پشت پناہ تھے، ان عجمیوں کی فتنہ پرورذہنیت کا اندازہ نعیم بن حاذم عربی کی اس گفتگو سے لگائیے جواس نے مامون کے عجمی وزیر فضل بن سہل سے کی تھی، نعیم اور فضل میں مامون کے سامنے کسی بات پرسخت گفتگو ہوئی، نعیم نے فضل سے صاف صاف کہا کہ تم یہ چاہتے ہوکہ بنوعباس سے حکومت نکال کرآل علی میں پہنچادو اور پھرآل علی سے چھین کرآل کسریٰ کی حکومت دوبارہ قائم کردو۔ (کتاب الوزراء:۳۹۷) شعوبیت اسی عجمی ذہنیت نے شعوبیت کا فتنہ پیدا کیا، بظاہر اس کا مقصد توعربوں اور غیرعربوں میں مساوات پیدا کرنا تھا؛ مگر اس کے اندر عرب دشمنی کے ساتھ کسی قدر اسلام دشمنی بھی پوشیدہ تھی، صاحب لسان العرب نے شعوبی کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: والشعوبي: هوالذي يصغر شأن العرب، ولايرى فضلا على غيرهم۔ (لسان العرب۔ ھامش سیرأعلام النبلاء:۹/۲۴۲،موقع يعسوب) ترجمہ:شعوبی اس کوکہتے ہیں جوعربوں کی اہمیت کوگھٹائے اور دوسروں پران کی فضیلت کوتسلیم نہ کرے۔ یہ لوگ اپنے استدلال میں قرآن کی ان آیات اور احادیثِ نبوی کوپیش کرتے تھے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فی نفسہ کسی خاص طبقہ کوکسی خاص طبقہ پریاکسی خاص قوم کوکسی خاص قوم پرکوئی فوقیت نہیں ہے، جوکچھ فضیلت وفوقیت ہے وہ علم وتقویٰ کی بناپر ہے، اس میں بہت سے لوگ خلوش سے اس مساویانہ ذہنیت کوفروغ دینا چاہتے تھے؛ لیکن اکثریت کے دماغ میں عجمی عصبیت اور عرب دشمنی بھری ہوئی تھی، اس تحریک کی بساط ایوان حکومت سے لے کربزم علم تک پھیلی ہوئی تھی، یہ ایک مذہب اور مسلک بن گیا تھا، مامون کے مشہور وزیر فضل کے بارے میں ابن ندیم نے لکھا ہے کہ: کان فارسی الاصل شعوبی المذہب، شدید العصبیۃ علی العرب ولہ فی ذالک کتب کثیرۃ۔ ترجمہ:یہ ایرانی النسل اور شعوبی المذہب تھا اس کوعربوں سے سخت دشمنی تھی، اس موضوع پراس نے بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ اس طرح اس موضوع پردوسرے بہت سے عجمیوں نے کتابیں لکھیں، جن میں علان الشعوبی، سعید بن حمید، ہشیم اور ابوعبیدہ کی کتابیں بہت مشہور ہوئیں، ابن ندیم نے ان سب کا تذکرہ کیا ہے، خاص طور پرابوعبید توان کا سرخیل تھا، ابن خلکان نے اس کے بارے میں لکھا ہے: کان یبغض العرب والف فی مثالبہا کتبا کثیرۃ۔ (ابن خلکان:۲/۵۵۴) اس تحریک نے صرف سیاسی طور پرعربوں کوکمزور نہیں کیا بلکہ اس کے ذریعہ اسلامی علوم کوبھی کافی نقصان پہنچا؛ انہوں نے ادب وتاریخ اور تفسیر میں ایران کے شاہی زمانہ کے کتنے فرضی قصے اور نہ جانے کتنی بے سروپا روایتیں داخل کردیں؛ گوتبع تابعین اور ان کے بعد کے محدثین اور مفسرین نے ان قصوں اور روایتوں کی بڑی حد تک پردہ دری کی؛ لیکن اس کے باوجود تفسیر وحدیث کے ذخیرہ میں بہت سی روایتیں اہلِ عجم کی فضیلت کے سلسلہ میں اب بھی ایسی ملتی ہیں جن کودرایۃً تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔ عربی عصبیت اور عجمی عصبیت کے ساتھ اسلامی مملکت میں ایک اور عنصر نے معاشرہ کے بگاڑنے میں حصہ لیا، وہ موالی یعنی غلاموں کاطبقہ تھا، طوالت کے خیال سے اس کی تفصیل کونظرانداز کیا جاتا ہے؛ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خواص وعوام پرانہی کا اثر تھا اور معاشرہ میں اس وقت اسلامی ذہنیت کا بالکل ہی فقدان ہوچکا تھا اور اس کا مظاہرہ کرنے والے موجود نہیں تھے؛ بلکہ مقصود یہ دکھانا ہے کہ حضراتِ تبع تابعین کے عہد میں مسلمانوں کے حکمران اور غالب عجمی عنصر کا مقصود یہ دکھانا ہے کہ حضرات تبع تابعین کے عہد میں مسلمانوں کے حکمران اور غالب عجمی عنص رکا رحجان کیا تھا؟ اور معاشرہ میں کیا خرابیاں پیدا ہورہی تھیں؛ ورنہ اب بھی معاشرہ میں انہی لوگوں کی حقیقی عزت وعظمت تھی اور خواش اور عوام پرانہی کا اثر تھا، جوعلم وتقویٰ کے لحاظ سے ممتاز تھے؛ خواہ عربی ہوں یاعجمی، کالے ہوں یاگورے، اس ذہنیت کے پیدا کرنے اور پھراس کے باقی رکھنے میں حضرات تبع تابعین رحمہم اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ حصہ لیا، ان کی مجلسوں کا دروازہ جس طرح ایک عجمی کے لیے کھلا ہوا تھا؛ اسی طرح ایک عربی کے لیے بھی، جس طرح ان کا چشمہ فیض ہاشمیوں اور قریشیوں کے لیے جاری تھا؛ اسی طرح غلاموں کے لیے بھی؛ یہاں محمود وایاز ایک ہی صف میں نظر آتے تھے؛ یہاں امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام ابویوسفؒ، امام زفرؒ، سفیان ثوریؒ جیسے عربی النسل حضرات کی جوعظمت وعزت تھی، وہی عظمت وجلالت امام محمدؒ، یحییٰ بن معینؒ، امام اوزاعیؒ، سعید القطانؒ، ابن جریحؒ، علی بن المدینیؒ، عبدالرحمن مہدیؒ اور عبداللہ بن مبارکؒ جیسے غلامانِ اسلام کی تھی، ان حضرات کوجب بھی موقع ملا اس ذہنیت کومٹانے اور اس پرضرب لگانے کی کوشش کی، امام سفیان ثوریؒ کا انتقال غربت ومسافرت میں ہواتھا، انتقال کے وقت آپ نے پوچھا کہ میرے وطن کا کوئی آدمی ہے؟ لوگوں نے عبدالرحمن بن عبدالملک اور حسن بن عیاش کا نام لیا، آپ نے عبدالرحمن کونمازِ جنازہ اور حسن کوترکہ کی وصیت کی، انتقال کے بعد جب لوگوں کومعلوم ہوا کہ عبدالرحمن نمازِ جنازہ پڑھائیں گے توبنوتمیم کے لوگ یہ کہہ کرمانع ہوئے: یمنی یصلی علی مصری، ترجمہ:ایک یمنی مضری کی نمازِ جنازہ پڑھائے گا۔ یعنی امام سفیان مضری تھے اور عبدالرحمن کندی یمنی تھے، اس لیے یہ شرف کسی مضری ہی کوملنا چاہیے، جبلوگوں نے بنوتمیم سے یہ کہا کہ یہ امام کی وصیت ہے توپھرانہوں نے نمازِ جنازہ پڑھانے کی اجازت دی (تاریخ بغداد:۹/۱۶۰) اس سے اندازہ لگانا چاہیے کہ سیاسی بازی گرؤں نے اس ذہنیت کوکہاں تک پہنچادیا تھا۔ حضرت فضیل بن عیاض اور امام اوزاعی کے حالات میں پڑھیں گے کہ انہوں نے منصور اور ہارون جیسے باجبروت خلفا کے سامنے کس طرح اس ذہنیت پرضرب لگائی۔ مذہبی فتنے حضرت تبع تابعین میں سے آپ جن بزرگ کا بھی تذکرہ کتاب میں پڑھیں گے ان میں چند فرقوں کا کسی نہ کسی حیثیت سے ذکر ضرور آئے گا، جس طرح بعض سیاسی اسباب کی بناپر بعض فتنے پیدا ہوگئے تھے؛ اسی طرح سیاسی انتشار اور نئی نئی قوموں کے اسلام میں داخلے اور پھریونانی اور ہندی فلسفہ کے اثر سے بعض دینی فرقے پیدا ہوئے، جن میں سے بعض نے تبع تابعین کے زمانہ میں بڑا اثرورسوخ پیدا کرلیا تھا اور ان کی وجہ سے اسلامی معاشرہ میں روزآنہ نئے نئے مسئلے اور قضیئے پیدا ہونے لگے تھے، حضرات اتباع تابعین گوان فرقوں اور ان کے پیدا کیے ہوئے مسائل سے صرفِ نظر کرکے شریعت کی اسادہ اور اعلیٰ تعلیم کی حفاظت اور اس کی ترویج میں لگے ہوئے تھے؛ مگرپھربھی ا کوکبھی کبھی ان کے خلاف زبان کھولنی پڑتی تھی، ان کا ذکر کتاب میں بار بار آئے گا، ا س لیئے قدرے ان کی تفصیل کردی جاتی ہے، ان میں سب سے زیادہ طاقت ور فرقے شیعہ، خوارج، مرجیہ، جبریہ، جہمیہ، قدریہ یامعتزلہ تھے۔ شیعیت شیعیت گوایک سیاسی تحریک ہے، جوحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں ظاہر ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس نے زورپکڑا اور بنوامیہ کے عہ دمیں جوں جوں ہاشمیوں پر ظلم ہوتا رہا اس کا حلقہ اثر بڑھتا رہا، بعد میں اس نے ایک مذہبی فرقہ کی حیثیت اختیار کرلی، اس فرقہ کی تاریخ اسلامی حکومت کی مخالفت سے پر ہے، جب تک بنوامیہ کی حکومت رہی اس وقت تک یہ بنوہاشم کے نام پر بغاوتیں اور سازشیں کرتا رہا اور جب بنوامیہ کا خاتمہ ہوگیا توپھریہ بنوعباس کے درپے آزار ہوگیا، یہ اسی فرقہ کی سیاسی غلطی تھی کہ خانوادۂ نبوت کے نہ جانے کتنے معصوموں کوخاک وخون میں تڑپنے پرمجبور ہونا پڑا، اس فرقہ کوسب سے زیادہ عروج عراق اور پھرایران میں ہوا اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ عراق مشرق ومغرب کا دروازہ ہے، جہاں اسلام سے پہلے بھی دوسری قوموں کی آمد ورفت تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا دارالخلافہ یہیں بنایا تھا؛ پھربنوعباس نے بھی اسی کواپنا مرکز حکومت بنایا، جس کی وجہ سے یہ یہود وانصاری اور ہندی مزوکی اور مانی فرقوں کی آماج گاہ بن گیا، ان فرقوں کے جوافراد مسلمان ہوجاتے تھے ان کوشیعے یہ کہہ کر بہت آسانی سے اپنا ہم نوابنالیتے تھے کہ خلافت کے حق دار وہی لوگ زیادہ ہیں جورشتہ ونسب کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قربت رکھتے ہیں ان نومسلموں کے ذہن میں یہ بات آسانی سے اس لیے بیٹھ جاتی کہ یہ نسبی وخاندانی بادشاہت ہی کے پروردہ اور اس کے عادی تھے۔ ان کی مذہبی وسیاسی کشمکش کی داستان بڑی طویل ہے اس سلسلہ میں صاحب فجرالاسلام کا تبصرہ ہم یہاں نقل کیے دیتے ہیں، جس سے کچھ اندازہ ہوجاے گا: حق یہ ہے کہ شیعیت ان تمام لوگوں کے لیے جائے پناہ تھی جوکسی قدیم عداوت یاحسد کی بناپر اسلام کی بنیاد کوگرانا اور اسلاف واجداد کی تعلیمات کواس میں داخل کرنا چاہتے تھے، مثلاًیہودی، نصرانی، زردشتی اور مزدکی وغیرہ؛ اسی طرح ان لوگوں کے لیے بھی یہ جائے پناہ تھی جواپنے ملک کواسلامی مملکت سے کاٹنا اور حکومت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے؛ غرض یہ کہ ایسے تمام افراد اہلِ بیت کی محبت کوآڑبناکر اپنے اپنے اغراض کی تکمیل چاہتے تھے، مثال کے لیے تشیع میں یہودیت کا اثر وظہور ورجعت امام کے عقیدہ میں دیکھا جاسکتا ہے، جس طرح یہود نے کہا تھا کہ ہم کوچند دن آگ جلائے گی؛ اسی طرح یہ عقیدہ کسی نہ کسی شکل میں تشیع میں بھی ہے، نصرانیت سے ان میں یہ تصور آیا کہ امام کوخدا سے وہی نسبت ہے جوحضرت مسیح علیہ السلام کو خدا سے تھی؛ انہوں نے کہا کہ لاہوت نے عالم ناسوت میں امام کا روپ دھارلیا ہے اور نبوت ورسالت کبھی ختم نہیں ہوگی جس نے بھی لاہوت سے اتحاد پیدا کرلیا وہ نبی ہے اسی طرح تناسخ ارواح، خدا کی تجسیم اور حلول کا عقیدہ ان میں برہمنوں اور فلاسفہ کے اثر سے آیا۔ مقریزی نے لکھا ہے کہ جب اہلِ ایران نے جنگ وجدل کے میدان میں شکست کھائی توان میں سے ایک جماعت نے ظاہری طور پراسلام قبول کرلیا اور جولوگ اہلِ بیت سے محبت رکھتے تھے، ان کواکسااکساکر اپنے گرد جمع کرنا شروع کیا؛ یہاں تک کہ اخرجوہم عن طریق الہدیٰ (مقریزی:۱/۳۶۶) ان کوراہِ حق سے دور ہٹالے گئے۔ جیسا کہ اوپرذکر کیا گیا ہے، ابتدا میں یہ ایک یساسی تحریک تھی جس نے بعد میں ایک مذہبی فرقہ کی حیثیت اختیار کرلی؛ لیکن پہلی صدی تک یہ صرف تفضیلیت تک محدود رہی، یعنی اس خیال کے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوحضرات شیخین سے افضل سمجھتے تھے؛ لیکن عباسی دور میں دوسری قوموں اور خاص طور پراہلِ فارس سے ان کا اختلاط کثرت سے بڑھا تواس نے ایک نئے مذہب کا قالب اختیار کرلیا جس نے عقائد اسلامی کے بارے میں ایسے عجیب وغریب خیالات کا اظہار کیا جس سے امت واقف نہیں تھی، اس نے کتاب اللہ کی ایک نئی تفسیر وتاویل اور حدیث کی ایک ایسی اچھوتی اصلاح گھڑی(ان کے نزدیک حدیث صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر کونہیں کہتے؛ بلکہ ان کے نزدیک ائمہ معصومین کے قول وفعل وتفرد کوبھی حدیث کہتے ہیں؛ گویا منصب نبوت ومنصب امامت میں تقدم وتاخر کے علاوہ کوئی خاص فرق نہیں ہے) جس کا ثبوت عہد صحابہ اور عہد تابعین میں نہیں ملتا، تفصیل کے لیے مقریزی حصہ اوّل اور ملل ونحل کا مطالعہ کرنا چاہیے، یہ سب زیادہ ترعہد تبع تابعین میں ہوا۔ ائمہ کے تسلسل اور ان کی تعیین کے سلسلہ میں اور بھی بہت سے فرقے پیدا ہوگئے جن میں خاص طور پردوفرقے بہت زیادہ مشہور ہیں، امامیہ اور زیدیہ، ان میں فرقہ زیدیہ اہلِ سنت والجماعت سے سب سے زیادہ قریب تر ہے (یمن میں اس فرقہ کی حکومت ہے) فرقہ امامیہ کا دوسرا نام اثناعشریہ ہے؛ اسی اثنا عشریہ امامیہ کی ایک شاخ باطینت ہے (اب اثنا عشریہ ان کے خیالات سے اپنی برأت کا اظہار کرتے ہیں) جوخالص عہد تبع تابعین کا فتنہ ہے (مامون کے عہد میں اس کی ابتدا ہوئی اور معتصم کے عہدمیں اس کوفروغ ہوا) جس کی بنیادی گمراہی اس کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن اور اسلامی تعلیمات کا ایک باطن ہے اور ایک ظاہر ہے اور احکام میں اصل چیز اس کی باطنی حیثیت ہے، اس تقسیم کی بناپر انہوں نے اسلام کے عقائد، عبادات اور دوسرے امورِ دین کوایک فلسفہ؛ بلکہ ایک مذاق بناکے رکھ دیا ہے؛ انہی کواسماعیلیہ بھی کہا جاتا ہے، ہندوستان میں ان کے دوحصے ہوگئے ہیں، عراق میں وہ قرامطہ اور خراسان میں ملحدہ وتعلیمیہ کے نام سے مشہور تھے، ہندوستان میں بھی ابتداً قرامطہ ہی کے نام سے ان کا ذکر تاریخوں میں ملتا ہے، یہ اپنے کوشیعوں سے جدا کرنے کے لیے شیعیہ اسماعیلیہ بھی کہتے ہیں۔ خوارج عہدتبع تابعین میں گوان کا زور قدرے کم ہوگیا تھا؛ مگران کے اور شیعوں کے بعض عقائد کی جھلک معتزلہ اور جہمیہ وغیرہ کے عقائد میں بھی ملتی ہے، جوخاص اس دور کی پیداوار ہیں، اس عقائد کی جھلک معتزلہ اور جہمیہ وغیرہ کے عقائد میں بھی ملتی ہے، جوخاص اس دور کی پیداور ہیں، اس لیے مختصراً ان کا ذکر کردیا جاتا ہے، خوارج کی ابتداء اس جنگ سے ہوئی جوحضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان صفین میں ہوئی تھی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب محسوس کیا کہ ان کواب شکست ہوجائے گی توانہوں نے یہ تجویز رکھی کہ یہ معاملہ ثالث کے سامنے رکھ دیا جائے؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ے باوجودیکہ جنگ میں ان کا پلہ بھاری تھا، یہ تجویز منظور کرلی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمروبن العاص اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما ثالث مقرر کردیئے گئے، اس تحکیم کے مسئلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کچھ موافقین نے جن میں خاص طور پرقبیلہ بنوتمیم کے وہ افراد شامل تھے؛ جنھوں نے اس جنگ میں بڑی جاں فروشی دکھائی تھی، اس بناپر اختلاف کیا کہ تحکیم تواس مسئلہ میں ہونی چاہئے جس میں فریقین میں سے کسی ایک فریق کے برسرحق ہونے میں شبہ ہو؛ لیکن یہاں توحضرت علی رضی اللہ عنہ کا برسرحق ہونا واضح ہے اور جب کوئی بات ظاہر ہوتوپھر اس میں خدا کے حکم کے علاوہ کسی دوسرے کوحکم بنانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے؛ چنانچہ انہوں نے لاحکم الااللہ کا نعرہ بلند کیا اور اس نے ایک بڑے طبقہ کومتاثر کیا اور اسی کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ سے حکم بنانے میں غلطی ہوگئی ہے، اس لیے آپ کواپنی اس غلطی کا بلکہ اپنے کفرکا اقرار کرلینا چاہیے اور اس کے بعد توبہ کرکے تجدید ایمان کرنا چاہیے؛ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس اہم شرعی مصلحت کی بناپر اپنی فتح کوشکست میں تبدیل کرلیا تھا وہ اس مطالبہ کوکیسے منظور کرسکتے تھے، جب کہ ان سے یہ مطالبہ کرنے والوں کے استدلال کی بنیاد بھی صحیح نہیں تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے جوخطبہ دیا تھا اس میں ان کے استدلال کی غلطی واضح طور پربیان کردی تھی، یعنی یہ کہ تحکیم کا حکم بھی خدا ہی نے دیا ہے، اس لیے یہ تحکیم ان الحکم الاللہ کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے، ان کے اس نعرہ کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ مقولہ زبان زد خاص وعام ہے کہ کلمہ حق اریدبہا الباطل بات صحیح ہے مگر اس سے باطل وغلط کام لیا جارہا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد یہ لوگ اموی دور میں اموی حکومت سے ہمیشہ برابر برسرپیکار رہے، خاص طور پر ان کے دوجنگی مرکز تھے، ایک مرکز بصرہ کے قریب نطائح تھا، دوسرا جزیرۂ عرب میں خاص طور پریمامہ، حضرموت، یمن اور طائف میں ان کا کافی زور تھا، عباسی دور میں گوان کا زور کچھ کم ہوگیا تھا؛ مگرپھربھی متعدد بغاوتیں ان کی طرف سے ہوئیں، جیسا کہ اوپرذکر آیا ہے ان کی ابتدا ایک دینی مسئلہ کی سیاسی تعبیر کے سلسلہ سے ہوئی اور ان کی یہی حیثیت برابر باقی رہی؛ بلکہ بعد میں ان پردینی رنگ زیادہ غالب ہوگیا، شیعوں کی طرح ان کے بھی متعدد فرقے ہوگئے تھے، جن میں مشہور یہ ہیں، ازارقہ، اباضیہ اور یزیدیہ، دعوتیہ یہ پچھلے دونوں فرقے مسلمانوں سے بہت زیادہ دور اور اباضیہ سب سے زیادہ قریب تھے۔ شیعوں کی طرح خوارج نے بھی سیاسی اور دینی دونوں طرح کے فتنے پیدا کیے؛ لیکن ان پرچونکہ دین کا غلبہ تھا، اس لیے ان کے عقائد واعمال میں بعض خوبیاں تھیں، مثلاً وہ انتہائی عبادت گذار اور دیانت دار ہوتے تھے، وہ جوقدم اُٹھاتے تھے ان میں دینی رنگ غالب ہوتا تھا، ان کا سب سے بہتر عقیدہ یہ تھا کہ خلافت کسی خاص خاندان یاکسی خاص گروہ کے لیے مخصوص نہیں؛ بلکہ خلیفہ عام مسلمانوں کے انتخاب سے ہونا چاہیے، ان کا سب سے غلط عقیدہ یہ تھا کہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ شیعوں کے مقابلہ میں ان میں خوبیاں زیادہ اور برائیاں کم تھیں، اس لیے اخیارِ امت کا سلوک ان کے ساتھ قدرے ہمدردانہ رہا، خود حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے بعد خوارج سے جنگ نہ کی جائے اس لی کہ جس شخص نے حق طلب کیا مگراس میں اس سے غلطی ہوئی، اس شخص کی طرح نہیں ہے جس نے باطل طلب کیا اور اسے پابھی لیا۔ (فجرالاسلام:۳۱۵) حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ خوارج کومخاطب کرکے فرماتے تھے کہ میں جانتا ہوں کہ تم نے یہ موقف دنیا اور نتائجِ دنیا کی طلب کے لیے نہیں اختیار کیا ہے؛ بلکہ آخرت کی طلب کے لیے اختیار کیا ہے؛ مگرراستہ اختیار کرنے میں تم سے غلطی ہوئی، حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ عکرمہ مولی بن عباس اور حضرت حسن بصری وغیرہ تحکیم کے مسئلہ میں قریب قریب وہی رائے رکھتے تھے، جوخوارج کی تھی؛ البتہ وہ اس کوکفروفسق نہیں کہتے تھے، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ، حضرت علی رضاللہ عنہ کا ذکر اپنی مجلس میں کرتے توفرماتے کہ ان پرخدا رحم کرے، کامیابی ان کے پیرچوم رہی تھی؛ یہاں تک کہ انہوں نے تحکیم مان لی، آپ نے کیوں تحکیم قبول کی جب آپ کہ آپ حق پرتھے؟۔ (ابن اثیر:۲/۱۳۶) مرجیہ شیعیت اور خارجیت کے غلو کے نتیجہ میں فرقہ مرجیہ پیدا ہوا؛ اگریہ فرقہ ایمان وعمل کے مسئلہ میں غلوا اختیار نہ کرتا تواس کا شمار اہلِ سنت والجماعت میں ہوتا۔ مرجیہ کا عقیدہ اس کا وجود بھی گوسیاسی اختلافات ہی کے نتیجہ میں ہوا؛ مگردوسرے فرقوں کی طرح جلد ہی اس نے ایمان وعمل کے مسئلہ تک اپنی توجہ مرکوز کردی اور اس میں حد سے زیادہ مبالغہ سے کام لیا اور اسی وجہ سے جمہورِ امت نے ان سے بیزاری کا اظہار کیا اور ان کی اس مبالغہ آمیزی کوگمراہی قرار دیا؛ ورنہ فی نفسہٖ نہ توان کی بات گمراہی تھی اور نہ ان کا شمار فرقہ ضالہ میں ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد امت میں کچھ لوگ توحضرت علی رضی اللہ عنہ کے حامی ہوگئے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرنے لگے اور کچھ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حامی ہوگئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرنے لگے؛ لیکن انہی میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ ان میں سے کوئی نہ توغلطی ہے اور نہ ان میں سے کسی کی تنقیص کرنی چاہیے، ہم کوان دونوں کے ساتھ احترام کا شیوہ اختیار کرنا چاہیے اور ان کے آپس کے معاملات کوخدا کے سپرد کرنا چاہیے، وہ خود ہی فیصلہ کریگا، مرجیہ، ارجا، سے نکلا ہے، جس کے معنی مؤخر کرنے کے ہیں؛ چونکہ وہ ختنین کے معاملہ میں خود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے فیصلہ کوقیامت پرمؤخرکرتے ہیں، اس لیے ان کومرجیہ کہا جانے لگا؛ گویا اس اعتبار سے وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین مرجیہ تھے؛ جنھوں نے ان اختلافات سے اپنا دامن بچائے رکھا؛ لیکن شیعیت اور خارجیت کوجوں جوں فروغ ہوتا گیا اور انھوں نے دینی مسائل میں مبالغہ آمیز رائیں دینی شروع کیں، ان لوگوں کی حیثیت بھی ایک مذہبی فرقہ کی ہوگئی، جس کی بحث کا دائرۂ ایمان اور کفر اور مؤمن وکافر کی تعریف تک محدود ہوگیا، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک طرف شیعوں نے اپنے علاوہ سب کی تکفیر شروع کردی اور اماممعصوم کے اعتقاد کوایمان کا ایک جز قرار دے دیا، دوسری طرف خوارج نے گناہِ کبیرہ کے مرتکب کوکافر قرار دینا شروع کردیا اور اپنے علاوہ سب کی تکفیر شروع کردی؛ چنانچہ مرجیہ نے دونوں فرقوں کی مبالغہ آمیزی سے بچنے کے لیے ایمان کی یہ تعریف کی کہ: الْمَعْرِفَةُ بِاَللَّهِ وَبِرُسُلِهِ۔ ترجمہ:اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت کا نام ایمان ہے۔ (الایمان الاؤسط:۱/۹۱، شاملہ، موقع الإسلام،المؤلف:شيخ الإسلام أحمد بن عبدالحليم بن تيمية،المحقق : محمود أبو سن) بس اب جس نے بھی کلمہ طیبہ کا اقرار کرلیا اس کومعرفت ایمان حاصل ہوگئی، اب وہ مؤمن ہے، معرفت ایمان میں عمل کوکوئی دخل نہیں ہے، ایمان کی یہ تعریف ان خوارج کا بھی رد تھی جوکہتے تھے کہ ایمان صرف اللہ اور اس کے رسول کی معرفت کا نام نہیں ہے؛ بلکہ فرائض کی ادائیگی اور کبائر سے اجتناب بھی اس میں شامل ہے (توجوشخص ایمان کے بعد فرائض ترک کردے یاگناہ کبیرہ کا ارتکاب کرے وہ خوارج کے نزدیک کافر ٹھہرے گا اور مرجیہ اس کوکافر نہیں بلکہ مؤمن ہی کہیں گے) اسی طرح اس میں ان شیعوں کا جواب بھی تھا جوامام کی طاعت کوبھی ایمان کا ایل لازمی جز سمجھتے تھے؛ یہاں تک تومرجیہ کی بات اپنی جگہ پردرست تھی؛ لیکن بعضوں نے اس میں ذرہ زیادہ مبالغہ سے کام لیا اور یہاں تک کہنے لگے کہ اگرکوئی شخص ایمان کے بعد کفر کا اظہار بھی زبان سے کردے تووہ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، ان کی یہ بات اس لیے غلط ہے کہ اگریہ بات تسلیم کرلی جائے توپھر کسی برائی پرنہ توکسی کوٹوکا جاسکتا ہے اور نہ اس کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کی جاسکتی ہے۔ معتزلہ عموماً ہراس شخص کومرجی کہنے ےلگے تھے جس کا اعتقادیہ نہ ہو کہ گناہِ کبیرہ کامرتکب ابدی جہنمی ہوتا ہے، غالباً انہی کے اثر کی وجہ سے بہت سے ائمہ کواور خاص طور پرامام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ کومرجی کہا جانے لگا؛ گواس اعتبار سے تمام جمہور اہلِ سنت والجماعت کومرجیہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ گناہِ کبیرہ کے مرتکب کوکافر اور ابدی جہنمی قرار نہیں دیتے؛ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ مرجیت اور خارجیت سے عام جمہورِ امت نے اپنا دامن بچائے رکھا؛ مگرچونکہ یہ مسائل اُٹھ چکے تھے اور ان کا چرچا ہرجگہ عام ہوچکا تھا، خاص طور پرعہد تبع تابعین میں ہرمجلس میں ان مسائل کا ذکر تھا، اس لیے ان بزرگوں کوبھی زبان کھولنی پڑتی تھی، اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ رحمہم اللہ نے جورائے دی وہ مرجیت سے زیادہ قریب تھی اور عام محدثین اور ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ نے جورائے دی وہ شیعیت اعتزال اور خارجیت سے کسی قدر قریب تھی، یعنی امام صاحب رحمہ اللہ نے تویہ فرمایا کہ ترکِ فرائض اور ارتکاب گناہ کی وجہ سے کوئی شخص خارج ازاسلام نہیں ہوسکتا؛ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گناہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، یاگناہ کا اثر ایمان کی کیفیت پرنہیں پڑتا یااظہار کفر سے بھی آدمی مؤمن ہی رہتا ہے؛ اسی بناپر شہرستانی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کومرجیہ اہل سنت میں شمار کیا ہے، اس کے برخلاف عام ائمہ ومحدثین نے یہ فرمایا کہ عمل بھی ایمان کا جزوہے اور ترک فرائض اور ارتکاب گناہ سے مؤمن کا ایمان کم ہوجاتا ہے؛ لیکن خوارج ومعتزلہ کی طرح ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ترک عمل سے آدمی کافر ہوجاتا ہے، غرض یہ کہ ائمہ اہلِ حق کے درمیان اس مسئلہ میں تھوڑا سااختلاف ہے؛ لیکن منشا اور نتیجہ کے اعتبار سے دونوں کی رایوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مسائل جبرواختیار دوسری صدی کے آخر میں جونئے کلامی مسائل مسلمانوں میں رواج پذیر ہوئے ان میں مسائل جبرواختیار اور قضاوقدر بھی ہیں، قرآن کی بعض آیات اور بعض احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان اپنی ہدایت وضلالت اور اپنے ارادہ وافعال میں مجبور محض ہے؛ اسی طرح بعض آیات وروایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے ارادۂ واختیار میں مختار ہے اور اسی اختیار کی وجہ سے اس سے بازپرس ہوگی، ان مسائل پرجن لوگوں نے کسی ایک ہی پہلو اور ایک ہی قسم کی آیات واحادیث کی روشنی میں غور کیا؛ انھوں نے ٹھوکر کھائی او راسلام کی راہِ اعتدال سے ان کا قدم ہٹ گیا؛ چنانچہ ان مسائل میں جن فرقوں نے ایک پہلوپرزور دیا اور اس کے ذریعہ دین میں نئے نئے مسائل پیدا ہوئے ان میں جبریہ وقدریہ بہت زیادہ مشہور ہوئے؛ گوبعد میں ان فرقوں کا دائرۂ بحث ان مسائل سے آگے بڑھ کرخدا کی ذات وصفات تک پہنچ گیا؛ لیکن ان کی ابتاد قضا وقدر کے مسائل سے ہوئی، قدریت کی مذمت کا ذکر بعض احادیث نبوی اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں بھی ملے گا؛ مگراس زمانہ کی قدریت ریب وشک تک محدود تھی اور تبع تابعین کے عہد میں یہ انکار کی سرحد میں داخل ہوگئی تھی، تبع تابعین کے عہد میں جبریہ عموماً جہمیہ اور قدریہ عموماً معتزلہ کے نام سے موسوم تھے، ان دونوں فرقوں میں شدید اختلاف کے باوجود بعض مسائل میں دونوں کی دانستہ یانادانستہ رائے ایک ہوگئی تھی، خاص طور پرصفاتِ باری کی نفی میں دونوں بالکل متحد نظر آتے ہیں، ان دونوں فرقوں کے خیالات کی مزید تفصیل یہ ہے۔ جبریہ یاجہمیہ اس فرقہ کا عقیدہ تھا کہ انسان جوکچھ کرتا ہے اس میں اس کے ارادہ کوکوئی دخل نہیں ہوتا، وہ جوکچھ کرتا ہے اسے وہی کرنا ہی چاہیے تھا خدا نے اسی کام پراس کومجبور کردیا ہے، افعال کے صدور میں انسان اور جمادات ونباتات میں کوئی فرق نہیں ہے، محض مجازاً افعال کی نسبت انسان کی طرف کردی جاتی ہے، جیسے مجازاً یہ کہا جاتا ہے کہ آسمان سے پانی برسا، درحت سے پھل نکلا، اسی طرح انسان کے بارے میں مجازاً کہا جاتا ہے کہ انسان نے لکھا، یاانسان نے پڑھا، انسان نے نافرمانی کی، یااطاعت کی، ورنہ حقیقۃً وہ یہ سب کرنے پرمجبور تھا۔ اس عقیدہ کوسب سے زیادہ فروغ جہم بن صفوان نے دیا، اس لیے اس فرقہ کا دوسرا نام جہمیہ پڑگیا، ائمہ تبع تابعین زیادہ تراسی نام سے اس فرقہ کویاد کرتے ہیں، جہم بن صفوان خراسان کارہنے والا تھا، بڑا زبردست خطیب تھا، لوگوں کواپنی تقریر سے فوراً متاثر کرلیتا تھا، ابتدا میں اس کے مسلک کوخراسان کے علاقہ میں بڑا فروغ ہوا سنہ ۱۲۸ھ میں بنوامیہ کے خلاف بغاوت میں قتل کیا گیا۔ (فجرالاسلام:۳۴۲) اس فرقہ نے مذکورۂ بالا خیالات ہی کے اظہار پراکتفا نہیں کیا؛ بلکہ اس نے آگے چل کرخدا کوایک مجروذات مان کراس کی تمام صفات کا انکار کردیا، ان کا خیال تھا کہ خدا کی صفات اور اعضا کا ذکر قرآن میں آیا ہے، ان سے مخلوق کے ساتھ تشبہ لازم آتا ہے، اس لیے ان تمام آیات واحادیث کی تاویل کرنی چاہیے؛ اسی کے نتیجہ میں انہوں نے کہا کہ قرآن یعنی کلام الہٰی مخلوق ہے، اسی نفی صفات کے نتیجہ میں قیامت میں خدا کے دیدار کا انکار کیا، یہ بھی کہا کہ دوزخ وجنت اہلِ دوزح اور اہلِ جنت کے دخول کے بعد فنا ہوجائیگی، اس لیے کہ ہرحرکت کی ایک ابتداء اور انتہا ہے، اس لیے ان کی بھی انتہا لازمی ہے، تبع تابعین اور ان کے تلامذہ اور بعد کے علما نے اپنی کتابوں میں ان عقائد وخیالات کی سخت الفاظ میں تردید کی ہے۔ قدریہ فرقہ جبریہ یاجہمیہ کے بالکل مقابل قدریہ تھے، ان کا خیال تھا کہ انسان اپنے ارادہ وعمل میں بالکل آزاد اور مختار ہے، خدا انسان کا خالق ہے؛ مگراس کے ارادۂ وافعال کے پیدا کرنے میں اس کے ارادۂ ومشیت کوکوئی دخل نہیں ہے، وہ بھلی بری جوراہ چاہے اختیار کرے؛ اسی فرقہ نے بعد میں اعتزال کی صورت اختیار کرلی اور قدریت کے بجائے دنیائے اسلام، اعتزال کے فتنہ سے دوچار ہوئی، معتزلہ اور قدریہ کوجبریہ سے ارادۂ ومشیت الہٰی کے سلسلہ میں شدید اختلاف تھا؛ لیکن نفی صفات میں وہ جبریت کے ہم نوابن گئے تھے؛ غرض یہ کہ دوسری صدی میں قدریت کی مکمل اور نفی صفات کے سلسلہ میں جبریت وجہمیت کی جزئی نمائیندگی یہی معتزلہ کررہے تھے۔ قضاوقدر پربحث ومباحثہ کی ابتدا توعہدِ نبوی ہی میں ہوگئی تھی، جس سے آپ نے روک دیا تھا، ابتداء میں جولوگ قضاوقدر میں قیل وقال کرتے تھے ان کوقدری کہا جاتا تھا انہی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ القدریہ مجوس ہذہ الامۃ (اگراس کوپیشین گوئی سمجھا جائے تواس کی زد میں وہ تمام فرقے آتے ہیں جوقضا وقدر میں اعتدال کی راہ سے ہٹ گئے تھے) لیکن دوسری صدی میں عیسائیوں اور زردشتیوں کے اثر سے قدریت ایک مستقل فلسفہ بن گئی، جس پرصدیوں تک متکلمین اسلام اور دوسرے فرقوں میں معرکہ آرائی رہی اور جس کا مقصد اسلام کے بنیادی عقائد میں رخنہ اندازی تھی، اس فرقہ کے مسلمان بانی معبد اور غیلان ہیں؛ مگران کے ذہن میں فلسفیانہ قدریت کا وجود کیسے ہوا، اس کے لیے ابن نباتہ کا بیان ملاحظہ ہو: قيل إن أول من تكلم في القدر رجل من أهل العراق كان نصرانيا فأسلم ثم تنصر، وأخذ عنه معبد الجهني وغيلان الدمشقي۔ (مجلة البحوث الإسلامية:۱۵/۱۸۶، شاملہ، موقع الرئاسة العامة للبحوث العلمية والإفتاء۔ شرح العیون) ترجمہ:کہا جاتا ہے کہ پہلا شخص جس نے قدر کے بارے میں کلام کیا وہ ایک عیسائی تھا، جس نے اسلام قبول کیا اور پھرعیسائی ہوگیا؛ اسی سے معبد جہنی اورغیلان دمشقی نے قدریت کا سبق لیا۔ مؤرخین نے اسپربحث کی ہے کہ اس قدریت کا منبع عراق ہے یاشام؛ مگراس پرسب کا اتفاق ہے کہ یہ بدعت سیئہ نصرانیت ہی کی دین ہے۔ قدریت کے داعی اوّل معبد اور غیلان دونوں عہدتابعین میں پیدا ہوئے اور ان کے خیلات اسی عہد میں پھیلنے شروع ہوگئے تھے اور علمائے نے ان سے مباحثہ ومناظرہ بھی شروع کردیا تھا؛ چنانچہ خود حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے غیلان سے گفتگو کے بعد تمام ممالک اسلامیہ میں ان خیالات سے بچنے کی ہدایت کی تھی؛ مگراس کا زیادہ زور تبع تابعین کے عہد میں اس وقت ہوا جب اس نے اعتزال کی صورت اخیار کرلی۔ معتزلہ اوپرذکر آچکا ہے کہ قدریت کی دوسری شکل اعتزال تھی اور نفی صفات کے سلسلہ میں وہ جبریوں کے ہم عقیدہ ہوگئے تھے، معتزلہ اپنے کومعتزلہ یاقدریہ کہلانا پسند نہیں کرتے تھے؛ کیونکہ قدریت پرحدیث میں تنقید اور وعید آئی ہے اور اعتزال کے لفظ سے علیحدگی پسندی معلوم ہوتی ہے۔ وجہ تسمیہ عام طور پرعلم کلام کی کتابوں میں معتزلہ کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اعتزال کے داعی اور واصل بن عطا حسن بصری رحمہ اللہ کی مجلس میں شریک ہوتا تھا؛ گناہِ کبیرہ کے مسئلہ میں اس نے خوارج اور جمہورِ امت کی رائے سے احتلاف کرکے ایک نئی رائے یہ دی کہ کبیرہ کا مرتکب نہ توکافر ہے جیسا کہ خوارج کہتے ہیں اور نہ مؤمن فاسق ہے، جیسا کہ جمہور امت کا خیال ہے بلکہ ان کے لیے کافرومؤمن کے درمیان ایک دوسری منزل ہے چونکہ یہ بالکل نئی بات تھی اس لیے امام حسن بصری رحمہ اللہ نے اس کواپنی مجلس سے نکلا دیا اور وہ ان سے کنارہ کش ہوگیا؛ چونکہ کسی سے کنارہ کش ہوجانے کوعربی میں اعتزال کہتے ہیں اس لیے ان کا نام معتزلہ پڑگیا، الفرق بین الفرق، کے مصنف نے لکھا ہے کہ ان کوحسن بصری رحمہ اللہ کی مجلس سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ امت کی عام رائے سے علیحدہ ہوجانے کی وجہ سے کہا گیا ہے، مسعودی نے لکھا ہے کہ ان کومعتزلہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ گناہِ کبیرہ کے مرتکب کوکافر اور مؤمن دونوں سے علیحدہ ایک مقام تجویز کرتے تھے، مقریزی کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ اس نام سے وہلوگ یاد کئے گئے جونومسلم اہلِ کتاب تھے، ان میں سے جس پہلو سے بھی دیکھا جائے ان کومعتزلہ کہنا صحیح تھا؛ لیکن ان کی وجہ تسمیہ کی سب سے زیادہ صحیح تعبیر صاحب الفرق بین الفرق نے کی ہے؛ بہرحال وجہ تسمیہ جوبھی ہومگردوسری صدی ہجری کا سب سے بڑا فتنہ یہی اعتزال تھا۔ اعتزال اور شیعیت اعتزال کی طرف جولوگ سب سے زیادہ بڑھے وہ یاتونومسلم تھے، جن میں اکثریت اہلِ کتاب نومسلموں کی تھی یاوہ لوگ تھے جواپنی آزادروی میں کوئی پابندی لگانا پسند نہیں کرتے تھے یافلاسفہ اور شیعوں نے اس کولبیک کہا بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس فتنہ کوپیدا فلاسفہ نے کیا اور اس کوسب سے زیادہ فروغ شیعوں کی وجہ سے ہوا، صاحب الملل ولنحل کا بیان ملاحظہ ہو، وہ لکھتے ہیں کہ واصل بن عطا نے حضرت زید بن علی سے استفادہ کیا تھا، جس کی وجہ سے صارت الزیدیہ معتزلہ صفحہ نمبر:۳۲، سارے زیدی معتزلہ کے خیل بن گئے، اہلِ اعتزال اور شیعوں میں اصولی وبنیادی فرق ہے؛ لیکن تنقید صحابہ میں دونوں چونکہ ہم رائے ہیں، اس لیے شیعوں نے اعتزل کے قبول کرنے میں سبقت کی، شیعوں کے دخول سے پہلے معتزلہ صحابہ کے بارے میں اتنی سمنت رائے نہیں رکھتے تھے، جتنی کہ اس کے بعد رکھنے لگے؛ چنانچہ اس کی تائید کے لیئے ابن ابی لحدید کی شرح نہج البلاغہ کی جلد:۴/۴۵۴، کا مطالعہ کرنا چاہیے، خلفائے عباسیہ اور اہلِ بیت کے تعلقات ہمیشہ خراب رہے، مامون پہلا خلیفہ گذرا ہے جس نے اہلِ بیت کواہمیت دی؛ حتی کہ ان کے حق میں وہ خلافت چھوڑنے کے لیے بھی تیار ہوگیا تھا اور اتفاق سے اعتزال کوبھی سب سے زیادہ اہمیت بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ حکومت کی پالیسی میں اس کا داخلہ اسی کی وجہ سے ہوا؛ گویا ان دونوں متضاد عناصر کا اتحاد تنقید صحابہ کے سلسلہ میں بھی ہوا اور امامون بھی اس کا واسطہ بنا۔ معتزلہ کے عقائد جن عقائد پرمعتزلہ سب سے زیادہ زور دیا کرتے تھے، ان میں چند یہ ہیں: (۱)خدا کے بارے میں ان کاعقیدہ تھا کہ اس کی صفات اس کی ذات سے کوئی علیحدہ اور زائد چیز نہیں ہے؛ اگرخدا کی ذات سے الگ صفات قدیمہ کا وجود تسلیم کیا جائے تواس سے تعددقدم اور تعددالہ کا لزوم ہوتا ہے؛ حالانکہ وہ وحدۂ لاشریک ہے اور کسی حیثیت سے بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اس عقیدہ سے حقیقۃً تونہیں مگربظاہر صفاتِ الہٰی کی نفی لازم آتی تھی، اس لیے علمائے امت اور خاص طور پراتباع تابعین نے اس کی تردید کی اور پھراسی عقیدہ سے خلق قرآن کا مسئلہ پیدا ہوا، ان سب کی تفصیل آگے آتی ہے۔ (۲)ان کا دوسرا عقیدہ یہ تھا کہ انسان خود اپنے اچھے اور برے اعمال کا خالق ہے اور اس پرپورے طور پرقادر ہے، خدائے تعالیٰ کی طرف خیروشر کی تخلیق کی نسبت صحیح نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اس نسبت سے بلند ہے۔ اس عقیدہ سے لازم آتا ہے کہ خلق کے بعد خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں سے کوئی تعلق نہیں رہا اور اب وہ معطل ہوکر صرف تماشا دیکھ رہا ہے، ظاہر ہے کہ اللہ کی ذات کومعطل سمجھنا اسلامی تعلیمات کے خلاف تھا، اس لیے اس کی تردید کی گئی۔ (۳)ان کا تیسرا عقیدہ منزلۃ بین المنزلتین تھا، یعنی وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کونہ توجمہور امت کی طرح مؤمن فاسق کہتے تھے اور نہ خوارج کی طرح کافر؛ بلکہ کہتے تھے کہ ایمان وکفر کے درمیان ایک تیسری منزل ہے جس میں یہ فاسق رکھے جائیں گے خوارج کے مقالبہ میں ان کا عقیدہ جمہورِ امت سے زیادہ قریب ہے۔ ان کا چوتھا عقیدہ جس پرعلم کلام سے لیکر اصول فقہ کی کتابوں تک میں آج بحث وتمحیص ہوتی ہے وہ یہ ہے: (۴)حسن وقبح یابھلائی وبرائی کے پہچاننے کے لیے صرف عقل کی راہ نمائی کافی ہے؛ اگرچہ شریعت کسی برائی کوبرائی اور کسی بھلائی کوبھلائی نہ بھی کہتی ہو، مثلاً صدق یعنی سچائی فی نفسہٖ سچائی ہے؛ اسی طرح جھوٹ فی نفسہٖ جھوٹ ہے، اس لیے شریع تکا علم ہویانہ ہوبندے پرلازم ہے کہ وہ سچائی اختیار کریں اور جھوٹ کوترک کردیں۔ اس عقیدہ کوتمام جمہور ِامت نے بالکل رد نہیں کیا ہے؛ بلکہ فقہائے احناف توحسن وقبح کے عقلی ہونے کے قائل ہیں؛ البتہ ان کے اور معتزلہ کے طرزِ تعبیر میں تھوڑا فرق ہے، تفصیل اصول فقہ کی عام کتابوں میں موجود ہے۔ یہ توان کے اصولی مباحث ہیں، جن میں تمام معتزلہ کا اتفاق ہے؛ لیکن ان کے علاوہ بعض اور مباحث ہیں جن میں معتزلہ مختلف گروہوں میں بث گئے تھے، شہرستانی نے ان کے دس گیارہ فرقوں کاذکر کیا ہے، مثال کے لیے حضراتِ شیخین کی افضلیت کے بارے میں بصرہ کے معتزلہ شیخین کوحضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل مانتے تھے؛ مگربغداد کے معتزلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوافضل سمجھتے تھے؛ اسی طرح حسن وقبح کے بارے میں بعض معتزلہ، اشاعرہ کے ہم نواہوگئے تھے۔ عہدتبع تابعین کے مشہور معتزلی علماء اس عہ دکے مشہور معتزلی علماء واصل بن عطا، عمروبن عبید، نظام، جاحظ، ابوالہذیل، ہشام الفوطی، بشربن معمر، ابوالحسین الخیاط، قاضی ابوداود وغیرہ۔ معتزلہ کے کارنامے یہاں پر اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے، معتزلہ کے چند فلسفیانہ خیالات اور عقائد میں ان کی موشگافی کونظرانداز کرکے اگردیکھا جائے تواس فرقہ کے لوگوں نے علم دین کی جوبے بہاخدمات انجام دی ہیں وہ کسی دوسرے گمراہ فرقہ نے نہیں دیں، خاص طور پرتفسیر، علوم القرآن اور ادب میں انہوں نے جونقوش چھوڑے ہیں ان کوامت نے ہمیشہ اپنے سینوں سے لگائے رکھا؛ انہوں نے شیعوں کی طرح نہ توالگ امت بنائی نہ نئی تفسیر، نئی حدیث، نئی فقہ ایجاد کی؛ بلکہ انہوں نے اسلامی علوم کی خدمت میں ہمیشہ امت کا ساتھ دیا، یہ اور بات ہے کہ قرآن کی تعبیر میں بعض جگہ ان سے غلطی ہوئی ہے؛ لیکن ان کی غلطی ایسی ہی تھی جیسی کہ خود اشاعرہ اور ماتریدیہ سے بعض مسائل میں غلطی ہوئی ہے، اس کی تفصیل کے لیے ایک مستقل مضمون درکار ہے، اس لیے صرف اشارات پراکتفا کیا جاتا ہے۔ علمی فتنے ان مذکورہ بالا فتنوں کے علاوہ اس عہد میں بعض علمی فتنے بھی پیدا ہوئے، یہ فتنے دوطرح کے تھے، ایک توفلسفیانہ اور مشرکانہ علوم وفنون کی کتابوں کے ترجمہ کا فتنہ دوسرے ان علوم کی مدد سے مختلف فرقوں کا اپنے خیالات کا اسلامی علوم میں داخل کرنے کی کوشش اور اپنے اپنے مزعومات کے مطابق قرآن وسنت کی سادہ تعلیم کی توجیہ وتاویل۔ غیراسلامی کتابوں کے ترجمہ کا فتنہ گواسلام دوسری قوموں کے علوم وفنون سے فائدہ اُٹھانے کی ترغیب دیتا ہے، اس کاعام حکم ہے کہ حکمت ودانائی مؤمن کی کھوئی ہوئی چیز ہے، وہ جہاں پائے اس کواپنے دامن میں سمیٹ لے؛ لیکن اسلامی مملکت میں یونانی فلسفہ ونجوم عجم کی قصہ گوئی اور موسیقی، ہندوستانی دیدانت کی کتابوں کا ترجمہ ایسے وقت میں شروع ہوا جب شخصی حکومت کی بے راہ روی اور عجمیت نوازی کی وجہ سے پورا معاشرہ سیاسی اور مذہبی انتشار سے دوچار تھا؛ چنانچہ ان علوم وفنون کے ترجمہ سے عربی زبان ضرور مالا مال ہوئی؛ لیکن ان کی وجہ سے سادہ اور ٹھیٹ اسلامی ذہنیت اور دینی علوم کوبڑا نقصان پہنچا؛ انہی علوم کے نتیجہ میں نئے نئے خیالات اور مسائل پیدا ہوئے اور پھرانہی کی وجہ سے امت میں نہ جانے کتنے نئے نئے فرقے اور گروہ بن گئے، آپ اگراسلامی فرقوں کی تاریخ پرایک سرسری نظر بھی ڈالیں گے توآپ کونظر آئے گا کہ ان سب کوغذا انہی غیراسلامی علوم اور مشرکانہ فلسفہ سے ملتی تھی اوپرجہمیت اور اعتزال وغیرہ کے ذکر میں اس کی طرف اشارہ کی اجاچکا ہے، خاص طور پرشیعوں اور باطنیوں کے مذہب کی بنیاد توحکمت شریعت کے بجائے سراسرحکمت یونان پرہے، حکمت شریعت کا پردہ اس پراس لیے ڈالا گیا تھا کہ اس عہد میں کوئی تحریک یا انقلاب ڈالے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی تھی، اس عہد میں نقل وترجمہ کا جوکام ہوا اس کی تفصیل توبڑی لمبی ہے، مختصر طور پراس کا تذکرہ سن لیجئے: یوں تواموی دور میں بھی نقل وترجمہ کا کام ہوا، خاص طور پرہشام بن عبدالملک اور خالداموی نے اس میں بڑا حصہ لیا؛ لیکن اس سلسلہ میں اصل کام عباسی دور میں ہوا، سب سے پہلے منصور نے اس کی طرف توجہ کی؛ پھرہارون نے بیت الحکمۃ کے نام سے اس کے لیے ایک ادارہ قائم کیا؛ اسی کے عہد میں برامکہ پیدا ہوئے جنہوں نے غیراسلامی خیالات اور علوم کی ترویج میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا؛ پھرمامون نے بیت الحکمۃ کوترقی دی اور اس کام کونقطۂ عروج تک پہنچایا، آل برمک کی علم دوستی قابل قدر چیز ہے؛ لیکن ان کا نقطہ نظر کیا تھا، اس کومشہور لغوی ادیب اصمعی کی زبان سے سنیے: ؎ إذا ذُكرَ الشِّركُ في مجلسٍ أنارَتْ وُجُوهُ بني برمَكِ وإنْ تُليتْ عندهُم أيةٌ أَتَوا بالأحاديثِ عن مَزْدِكِ (حماسة الظرفاء:۱/۲۶، شاملہ، موقع الوراق،المؤلف: العبدلكاني الزوزني) ترجمہ:یعنی جب کسی مجلس میں شرک کی باتیں ہوتی ہیں توآل برمک کے چہرے کھل جاتے ہیں اور جب قرآن کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تویہ مزدک کی باتیں شروع کردیتے ہیں۔ اسلامی عقائد میں بحث ومباحثہ بھی انہی برامکہ کا فیض ہے، مسعودی نے لکھا ہے: وقد كان يحيى بن خالد ذاعلم ومعرفة وبحث ونظر، وله مجلس يجتمع فيه أهل الكلام من أهل الإسلام وغيرهم۔ (مروج الذهب،حديث لهم عن العشق:۲/۱۳، شاملہ، موقع الوراق،المؤلف: المسعودي) ترجمہ:یحییٰ بن خالد صاحب بحث ونظرتھا، اس کی مجلس میں مسلمان متکلمین (یعنی معتزلہ) اور غیرمسلموں کا مجمع رہا کرتا تھا۔ امون کے عہد میں اس فتنہ نے سیلاب کی صورت اختیار کرلی، ہزاروں لاکھوں روپیے خرچ کرکے اس نے آرمینہ، شام، مصر اور سائپرس سے فلسفہ، ہیئت اور نجوم کی کتابیں جمع کرائیں، اس کے عہد میں جولوگ اس کام پرمامور تھے، ان کی تعداد ایک درجن سے زیادہ تھی اور جن کوہزاردوہزار تک ماہوار تنخواہیں ملتی تھیں، مثلاً حجاج بن یوسف کوفی، قسطابن لوقا، حنین بن اسحاق، سہل بن ہارون، یعقوب کندی، یوحنا، ماسویہ وغیرہ، مامون کی اس فلسفہ نوازی کے نتیجہ میں اہلِ اعتزال کواس کے دربار میں اتنا درخور حاصل ہوا کہ یہی مسلک اسلامی حکومت کا مذہب قرار پاگیا، جس کے خلاف علماء اور خاص طور پرامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی جان کی بازی لگاکر جدوجہد کی اور خدا نے ان کوکامیاب بنایا۔ اسلامی علوم میں فسلفیانہ خیالات کی آمیزش اور ان کے مطابق اسلامی مسائل کی توجیہ وتاویل تبع تابعین رحمہم اللہ کواس فتنہ کے ساتھ ایک دوسرے علمی فتنہ سے بھی سابقہ پڑا، اس فتنہ کووضع وتلبیس کہہ سکتے ہیں، اس وقت اسلامی ملکوں میں جتنے فرقے پیدا ہوچکے تھے؛ گووہ اصول وفروغ میں ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے تھے؛ لیکن اس فتنہ وضع وتلبیس میں سب متفق تھے؛ اگرایک طرف انہوں نے وضع روایات کی تحریک شروع کی تودوسری طرف اسلامی عقائد اور اصول میں فلسفیانہ موشگافی کرکے ریب وشک پیدا کرنے کی سعی کی؛ پھرتیسری طرف انہوں نے قرآن کی بے شمار آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی من مانی توجیہ وتاویل کرکے وہ مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی جونہ توصحابہ وتابعین نے سمجھاتھا اور نہ وہ روحِ شریعت سے میل کھاتا تھا، ان تمام گوشوں کی تفصیل کا موقع نہیں ہے، اس لیے چند اشارات پراکتفا کیا جاتا ہے۔ وضع روایات احادیث نبوی صلی اللہ علیہ ولم کی تحدیث اور قدیم اسرائیلی قصص کی روایت بڑی ذمہ داری کا کام ہے، عہد صحابہ تک اس پرقانونی اور اخلاقی دونوں طرح کی پابندی عائد تھی، اس لیے ہرشخص اس کی جرات نہیں کرتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب کوئی روایت بیان کی جاتی تھی تووہ اس پر اکابر صحابہ تک سے شہادت طلب کرتے تھے، اس قانونی پابندی کے ساتھ عہد صحابہ تک روایت حدیث کی اہمیت اور اس کی ذمہ داری کا احساس بھی عام تھا؛ چنانچہ بعض جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اسی ذمہ داری کے شدت احساس کی بناپر روایت حدیث سے گریز کرتے تھے؛ مگربعد میں نہ اس پرسخت قانونی گرفت باقی رہی اور نہ وہ پہلا سااخلاقی اثر رہا؛ پھررواۃ حدیث کومعاشرہ میں عزت وشرف کی گناہ سے دیکھا جاتا تھا، اس لیے اہل وصاحب کمال لوگوں کے ساتھ بعض نااہل بھی اس مجدد شرف میں شریک وسہیم بننے کے لیے اس منصب پرمتمکن ہوگئے اور انہوں نے نہایت غیرذمہ دارانہ طور پراحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسرائیلی قصوں کی روایتیں شروع کردیں، خاص طور پرپیشہ ورواعظوں اور قصہ گویوں نے گرمی مجلس کی خاطر نہ جانے کتنی بے سروپا روایتیں عوام میں پھیلادیں؛ پھراسی کے ساتھ اموی اور عباسی کش مکش، عربی وعجمی عصبیت اور مختلف فرقوں نے اپنی اپنی تائید کے لیے نہ جانے کتنی روایتیں گھڑ ڈالیں اور وہ روایتیں زبان زد خاص وعام ہوگئیں، ا فتنہ کی پوری تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے، چند واقعات سے اس کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس عہد کے معروف محدث حماد بن زید فرماتے تھے: وضعت الزنادقة على رسول الله صلى الله عليه وسلم اثني عشر ألف حديث۔ (الكفاية في علم الرواية، الخطيب البغدادي:۱/۴۳۱، شاملہ، الناشر: المكتبة العلمية،المدينة المنورة۔ الموضوعات الکبیر) ترجمہ:زنادقہ نے تقریباً بارہ ہزار جعلی حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیں۔ ہارون کے سامنے ایک گمراہ وبے دین شخص لایا گیا، اس نے اس کے قتل کا حکم دیدیا، قتل کا حکم سن کراس نے کہا کہ آپ مجھے توقتل کردیں گے؛ لیکن ان چارہزار روایتوں کوکیا کریں گے جو میں نے لوگوں میں پھیلادی ہیں، جن کا ایک حرف بھی صحیح نہیں ہے۔ عبدالرحمن واسطی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے موت کے وقت کہا کہ میں نے سترحدیثیں صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں وضع کی ہیں، ابنِ جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: مغطم البلاء فی وضع الحدیث من القصاص لانہم یریدون احادیث ترقق وتنفق۔ (الموضوعات لکبیر:۱۳) ترجمہ:وضع حدیث کا سب سے بڑا فتنہ واعظوں اور قصہ گویوں کی وجہ سے پیدا ہوا، اس لیے کہ یہ ایسی حدیثیں گھڑتے تھے جودلوں میں رقت پیدا کرتی تھیں اور آسانی سے رواج پذیر ہوجاتی تھیں۔ ایک شخصمحمد بن شجاع شلجی تھا، جوتشیع سے متعلق بہت سی احادیث وضع کرکے محدثین کی طرف منسوب کردیتا تھا۔ آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی کی غلط توجیہ وتاویل شیعہ، باطینہ، خوارج، مرجیہ، قدریہ اور جہمیہ وغیرہ جتنے اسلامی فرقے پیدا ہوئے ان سب نے اپنے اصول کی بنیاد آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی کوبنایا؛ مگران کی ترجمانی اور تاویل اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق کی جس کی کچھ تفصیل اوپرگذرچکی ہے اور کچھ یہ ہے، متکلمین جن میں اکثریت اہلِ اعتزال کی تھی، ان کے بارے میں ابن قتیبہ نے لکھا ہے: فسروا القرآن باعجب تفسیر یریدون ان یردوہ الی مذاہب ہم ویحملوا التاویل علی محلہم۔ (الموضوعات الکبیر:۱۳) ترجمہ:یہ قرآن کی عجیب عجیب تفسیریں کرتے تھے، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس سے ان کے مذہب کی تائید ہواور اس کے موقع ومحل کے خلاف اس کی تاویل کرسکیں۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد آیات کی تفسیر پیش کرکے اس کی تفصیل کی ہے؛ اسی طرح ابن فورک متوفی سنہ۴۰۶ھ اپنی کتاب مشکل الحدیث میں لکھتے ہیں کہ خدا کی ذات وصفات اور مشیت وقدرت کے سلسلہ میں متشابہ آیات واحادیث کی تفسیر میں جمہورِ اُمت نے صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہم اللہ کی جوسادہ روش اختیار کی تھی، اس پریہ تمام فرقے سخت اعتراض کرتے تھے، اس لیے کہ یہ چیز ان کی خواہش کے خلاف تھی۔ (مشکل الحدیث:۴) غرض یہ کہ انہوں نے یہی نہیں کہ متشابہ آیات واحادیث سے غلط استدلال کیا؛ بلکہ جمہورِ اُمت نے اس کا جومفہوم متعین کیا تھا، اس پربھی وہ اعتراض کرتے تھے۔ تبع تابعین رحمہم اللہ نے ان تمام فتنوں کا مقابلہ کیا حضراتِ تبع تابعین نے ان تمام فتنوں کا منفی ومثبت دونوں طریقہ پرمقابلہ کیا، ان میں سے کتنے فتنوں کا توزور انہوں نے توڑ دیا اور کچھ خاص اسباب کی بناپرجن کا زور ختم نہ ہوسکا کم ازکم ان کے اثرات سے جمہورِ امت کوانہوں نے محفوظ کرلیا، اس کام کے سلسلہ میں حضرات تبع تابعین بھی دوگروہوں میں بٹ گئے تھے؛ گو ان دونوں گروہوں نے اس میں حصہ لیا؛ مگر بعض اسباب کی بناپر ان کے درمیان ایک خلیج سی حائل ہوگئی تھی، جوبعض بزرگوں کی کوشش سے جلد ہی پٹ بھی گئی وہ دوگروہ محدثین اور فقہا کے تھے، یہ دونوں بعض مسائل کی تعبیر میں اختلاف کے باوجود ان فتنوں کے مقابلہ میں متحد تھے؛ البتہ دونوں کے کام کی نوعیت جدا تھی، ابن فورک نے لکھا ہے: فرقة منها هي أهل النقل والرواية الذين تشتد عنايتهم بنقل السنن وتتوفر دواعيهم على تحصيل طرقها وحصر أسانيدها والتمييز بين صحيحها وسقيمها فيغلب عليهم ذلك ويعرفون به وينسبون إليه۔ (مشكل الحديث وبيانه:۱/۳۷، شاملہ،المؤلف:أبو بكر محمد بن الحسن بن فورك الأصبهاني،الناشر عالم الكتب،بیروت) ترجمہ:ان میں سے ایک گروہ اہلِ نقل وروایت کا تھا، جن کی ساری توجہ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت ونقل پرمرکوز تھی؛ انھوں نے اپنی ساری کوشش اس کے طرق اور اسانید کے جمع کرنے اور صحیح وسقم کے چھانٹنے میں لگادی؛ چنانچہ ان پریہی کام غالب آگیا اور اسی نام سے وہ مشہور ہوئے اور اسی کی طرف ان کی نسبت کی جاتی تھی (یعنی اہلِ نقل وروایت)۔ وفرقة منهم يغلب عليهم تحقيق طرق النظر والمقاييس والإبانة عن ترتيب الفروع على الأصول ونفي شبه الملبسين عنها وإيضاح وجوه الحجج والبراهين على حقائقها۔ (مشكل الحديث وبيانه:۱/۳۷، شاملہ،المؤلف:أبو بكر محمد بن الحسن بن فورك الأصبهاني،الناشر عالم الكتب،بیروت) ترجمہ:اور ایک گروہ پرفکرونظر کی راہوں کی تحقیق وجستجو کا شوق اور قیاس واجتہاد اور فروغ کواصول کے مطابق مرتب کرنے اور ان پرشبہ واعتراض کرنے والوں کے شبہ واعتراض دور کرنے اور ان کے دلائل وشواہد کی پردہ کشائی کرنے کا غلبہ ہوا۔ ان دونوں گروہوں کے کام کی نوعیت ابن فورک کے نزدیک یہ تھی: فالفرقة الأولى للدين كالخزنة للملك والفرقه الأخرى كالبطارقة التي تذب عن خزائن الملك المعترض عليها والمتعرضين لها۔ (مشكل الحديث وبيانه:۱/۳۸، شاملہ،المؤلف:أبو بكر محمد بن الحسن بن فورك الأصبهاني،الناشر عالم الكتب،بیروت) ترجمہ:تودین کے لیے پہلے گروہ کی حیثیت بادشاہ کے خزانے کے خزانچیوں اور محاسبوں کی ہے اور دوسرے گروہ کی حیثیت پاسبانوں اور نگہبانوں کی ہے، جوبادشاہ کے خزانے کودست درازی اور نظرِبد ڈالنے والوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلے گا کہ عہد تبع تابعین کے تمام ہی محتاط اور قابل اعتماد محدثین اور فقہا نے کم وبیش ان فتنوں سے دین اور اہلِ دین کومحفوظ کرنے کی کوشش کی؛ اگرآپ ایک طرف فقہائے، تبع تابعین مثلاً امام مالک، امام ابویوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کے حالات میں یہ پڑھیں گے کہ وہ لوگوں کوعقائد اور صفاتِ باری تعالیٰ کے سلسلہ میں کیف وکم اور تعین وتقید سے روکتے تھے تودوسری طرف ممتاز اہلِ نقل وروایت تبع تابعین جیسے سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن معین، اسحاق بن راہویہ اور سفیان ثوری رحمہم اللہ وغیرہ کوان مسائل میں ان کا ہمنواپائیں گے، ان دونوں گروہوں کے دودو ایک ایک حضرات کے اقوال ہم یہاں نقل کرتے ہیں، امام ابویوسف رحمہ اللہ نے اپنے تلامذہ کو جوجامع نصیحت کی تتتھی، اس کا کچھ حصہ یہ ہے: اصولِ دین کے معاملہ میں شک، لڑائی اور کج بختی کوچھوڑ دو؛ اس لیے کہ دین بالکل واضح اور روشن ہے، خدا نے اس کے فرائض وواجبات متعین کردیئے ہیں اور اس کے حدود وقیود بھی مقرر کردیئے ہیں، حلال کوحلال اور حرام کوحرام کردیا ہے، جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے کہ میں نے دین کومکمل کردیا اور اپنی نعمت کوتمہارے اوپر تمام کردیا اور تمہارے لیے دینِ اسلام کوپسند کرلیا؛ تواس کے حلال کوحلال سمجھو اور حرام کوحرام سمجھو، قرآن کی محکم آیات پرعمل کرو اور آیات پرایمان ویقین رکھو اور اُس کے اندرجوامثال ہیں ان سے عبرت حاصل کرو؛ اگردین (عقائد) میں کج بحثی کوئی تقوے کی بات ہوتی تواس کی طرف سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم سبقت کرتے توکیا انھوں نے کبھی عقائد اور اصولِ دین میں بحث ومباحثہ کیا؟ اگرانھوں نے اختلاف اور بحث ومباحثہ کیا توان فقہی مسائل میں جن کا تعلق عملی زندگی سے ہے، مثلاً نماز، حج، طلاق، حلال وحرام وغیرہ انھوں نے عقائد، صفاتِ باری اور اصولِ دین میں کبھی اختلاف اور منازعہ نہیں کیا۔ (دیکھئے اصل کتاب میں، صفحہ نمبر:۸۵) امام محمد رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں، مشرق سے مغرب تک تمام فقہا اس بات پرمتفق ہیں کہ قرآن اور ان احادیث پرجن کوثقات نے روایت کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات پربغیر کسی تفسیر، تشبیہ اور توصیف کے ایمان رکھنا چاہیے، جوشخص ان چیزوں کی تفسیر وتوضیح کرتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف کے طریقہ سے علیحدہ روش اختیار کرتا ہے، جس شخص نے جہم بن صفوان کی طرح بات کی وہ سلف کی جماعت سے خارج ہوگیا اس لیے کہ وہ خدا کوایسی صفات سے متصف کرتا تھا جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان مسائل میں اسی طرح کا جواب آپ امام مالک، اوزاعی، ابن مہدی، سفیان ثوری اور امام احمد بن حنبل سے بھی سنیں گے، کتاب میں تفصیل موجود ہے، عام طور پران مسائل میں قیل وقال سے گریز کرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ محدثین اور فقہا اس سے درماندہ تھے؛ بلکہ اس میں کئی دینی مصلحتیں تھیں، ایک یہ کہ اسلام زندگی کے لیے ایک اخلاقی پروگرام اور عمل وتحریک پیدا کرنے کا ذریعہ ہے؛ اگراس کا دامن فلسفیانہ موشگافیوں اور بے نتیجہ دقیقہ سنجیوں میں اُلجھادیا گیا، توپھروہ بھی دوسرے مذاہب کی طرح ایک فلسفہ ہوکر رہ جائے گا اور عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہ جائے گا اور یہ چیز سراسر اس کی روح کے منافی تھی۔ دوسرے یہ کہ اگریہ حضرات ان مسائل میں اُلجھ جاتے توان میں اُلجھانے والوں کا وہ مقصد پورا ہوجاتا، جس کے لیے یہ فتنے پیدا ہوئے تھے، یعنی دین اور علم دین کی تدوین وترتیب اور ترویج واشاعت میں یہ حضرات جس یکسوئی کے ساتھ لگے ہوئے تھے وہ ختم ہوجاتی اور قیمتی کام نہ ہوپاتا جوہوا جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ تیسرے یہ کہ منفی طور پران کا اس فتنہ سے دور رہنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ عام معاشرہ میں ان مسائل میں بحث ومباحثہ کواچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا اور معاشرہ کے عام افراد ان سے اپنا دامن بچائے رکھنا ہی پسند کرتے تھے؛ اگریہ حضرات ان موشگافیوں میں پڑجاتے توپھرعوام کوان سے بچانا مشکل تھا۔ ان اسباب ووجوہ کی بناپر وہ زیادہ تران نئے نئے فلسفیانہ مباحث اور مسائل سے وہ رہنے کی ترغیب دیتے تھے؛ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگرکوئی ضروری موقع آجاتا جب بھی وہ اس کا جواب نہیں دیتے تھے، آپ امام اوزاعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ اور بعض دوسرے بزرگوں کے حالات میں پڑھیں گے کہ ا نہوں نے شرعی حدود میں متعدد اہلِ فرق کے افراد سے بحث ومباحثہ کرکے بھی ان کوقائل کرنے کی کوشش کی، امام بخاری رحمہ اللہ جوتبع تابعین کے سب سے بڑے علمی وارث ہیں، ان کی کتاب سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ انہوں نے ان فرقوں کے خیالات کی تردید کرنے میں کتنی کدوکاش کی تھی؛ البتہ استدلال میں انہوں نے متکلمین کی روش کے بجائے سلف کی روش اختیار کی ہے۔ یہاں پردواور باتوں کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے، ایک یہ کہ ان فرقوں میں بھی بعض افراد ایسے تھے جوخلوص سے یہ سمجھتے تھے کہ ان نئے مسائل ومباحث کا عقلی طور پربھی جواب دیا جاسکتا ہے، اس لیے انہوں نے ان کا جواب دیا اور انہی کوہم متکلمین اسلام کے نام سے یاد کرتے ہیں، ابتدا میں یہ کام عام طور پرمعتزلہ نے انجام دیامگر بعد میں اس میں اہلِ سنت والجماعت کے بعض افراد بھی شریک ہوگئے؛ مگریہ بھی ایک واقعہ ہے کہ اس سے نہ توکوئی عملی فائدہ اسلام کوپہنچا اور نہ تبلیغی ودعوتی۔ دوسری بات یہ کہ عباسی خلفاء نے گوان فرقوں کوذہنی غذا پہنچانے میں بالقصد یابلاقصد بڑی مدد کی؛ لیکن اس کا اظہار نہ کرنا احسان ناشناسی ہوگی کہ ان میں بعضوں نے ان افراد کے خلاف قانونی کاروائی بھی کی؛ اگرچہ یہ کاروائی زیادہ تراس وقت ہوتی تھی جب عوام میں یہ اپنے خیالات پھیلانے کی کوشش کرتے تھے اور اس سے کسی عوامی شورش پیدا ہونے کا انداشیہ ہوتا تھا؛ ورنہ دربار میں زیادہ تر رواداری کا سلوک ہوتا تھا، الاماشاء اللہ۔ فتنہ وضع حدیث کا مقابلہ اوپر فتنہ وضع حدیث کا مختصر ذکر کیا گیا؛ لیکن اس سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ فتنہ دین اور علم دین کے لیے کتنا بڑا خطرہ تھا، اس فتنہ کا مقابلہ حضرات تبع تابعین رحمہم اللہ نے کئی طرح سے کیا، سب سے پہلے انہوں نے صحیح اور غلط، مستند اور موضوع تمام روایتوں کے سارے ذخیرہ کوجمع کرنے کی کوشش کی اور جمع کرکے پھرانھوں نے قرآن کی ہدایات، صحیح احادیث اور مختلف سلسلۂ اسناد کی روشنی میں ان کوپرکھا اور پھرصحیح وسقیم کوعلیٰحدہ کرکے رکھ دیا امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا یہ قول حاکم نے نقل کیا ہے: کبھی کسی حدیث کی صحت اور عدم صحت کے متعلق فیصلہ کوملتوی کرنے کے لیے ہم بعضوں کی روایتوں کوسن لیتے ہیں اور بعضوں کی بیان کی ہوئی روایتوں کوہم جانتے ہیں کہ مستحق توجہ نہیں ہیں؛ لیکن پھربھی بیان کرنے والے کی روش اور مسلک کا پتہ چلانے کے لیے ہم اس سے روایت کرتے ہیں۔ (معرفۃ علوم الحدیث:۱۳۵) حاکم ہی نے ایک دوسرا واقعہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی زبانی یحییٰ بن معین کا نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ جس زمانہ میں ہم لوگ یمن میں تحصیل حدیث میں لگے ہوئے تھے، ایک دن ابن معین کودیکھا کہ وہ گوشہ میں بیٹھے ہوئے کچھ لکھ رہے ہیں، جب کوئی آدمی سامنے آتا ہے تواسے چھپادیتے ہیں، میں نے پوچھا توفرمایا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے نام سے جعلی حدیثوں کا ایک مجموعہ ابان کی روایت سے جومروج ہے اسے نقل کررہے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ: میں جانتا ہوں کہ یہ ساری روایتیں جعلی ہیں؛ مگراس کے لکھنے سے میری غرض یہ ہے کہ اگرکوئی ابان کی جگہ کسی معتبر راوی کا نام داخل کرکے لوگوں کوغلط فہمی میں مبتلا کرنا چاہے گا تومیں یہ کہہ کراس غلط فہمی کاازالہ کرسکوں گاکہ ان روایتوں کا واضع ابان ہے۔ (معرفہ:۶) ابن معین کا ایک اور قول بھی کتاب میں ملے گا؛ اوپر یہ ذکر آچکا ہے کہ ایک بددین کوہارون نے قتل کرنے کا حکم دیا اس نے کہا کہ امیرالمؤمنین آپ میرے قتل کا حکم کیوں دیتے ہیں، ہارون نے کہا کہ اللہ کے بندوں کوتیرے فتنے سے بچانے کے لیے، بولا کہ آپ قتل کرکے کیا کریں گے، میں نے جوچار ہزار روایتیں وضع کرکے عوام میں پھیلادی ہیں، ان کا آپ کے پاس کیا علاج ہے، ہارون بولا کہ: این انت یازندیق عن عبداللہ بن مبارک وابن اسحاق القراری نخیلانہ فیخرجاند حرفاً حرفاً۔ (کتاب الموضوعات، ملاعلی قاری:۱۳) ترجمہ:اے ملعون! توکس خیال میں ہے عبداللہ ابن المبارک اور ابواسحاق فزرای ان تمام جعلی حدیثوں کوچھلنی میں چھانیں گے اور جعلی روایتوں کا ایک ایک حرف علیحدہ کرکے رکھ دیں گے۔ دوسری کوشش ان حضرات نے یہ کی کہ تحدیث کا ایک معیار مقرر کیا، روایت ودرایت کے اصول وضع کیے، ان حضرات کے انہی اصولوں پرفن اسماء الرجال کی بنیاد کھڑی ہوئی اس سلسلہ میں اس عہد کے تمام ہی محدثین نے حصہ لیا؛ مگران میں حضرت ابن مبارک، امام شعبہ، ابن معین اور سعید القطان رحمہم اللہ وغیرہ زیادہ ممتاز ہیں، امام نووی رحمہ اللہ نے صالح بن محمد کا یہ قول نقل کیا ہے: أوَّلُ مَنْ تَكَلَّمَ في الرجالِ: شُعْبةُ ثمَّ اتَبِعَهُ يحيى القَطَّانُ، ثمَّ أَحْمَدُ بْنُ حنبلٍ، وَابنُ مَعِينٍ۔ (تہذیب الأسماء:۱/۳۴۵، شاملہ، ملف وورد أهداه بعض الأخوة للبرنامج) ترجمہ:سب سے پہلے حدیث کے راویں پرامام شعبہ نے کلام کیا؛ پھریحییٰ قطان اور ان کے بعد ابن معین اور ابن حنبل وغیرہ نے اس میں حصہ لیا۔ مزید تفصیل کتاب میں ملے گی۔ خاص طور پردرایت کے معیار پرکسی روایت کا جانچنا روایت کے معیار پرجانچنے سے بھی مشکل ہے، روایت کے معیار پرجانچنے کا دارومدار قوتِ حافظہ پرہے؛ اگرخدا نے اس نعمت سے نوازا ہے توتھوڑی سی ذکاوت وذہانت کے ساتھ کسی روایت کے مختلف سلسلہ سند اور راوی کے عام حالات سے واقفیت کی روشنی میں فیصلہ کرلیا جاسکتا ہے؛ لیکن درایت کا فیصلہ ذرہ مشکل ہے، درایت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی روایت کی خارجی حیثیت پرنہیں بلکہ اس کی معنوی اور داخلی حیثیت پربھی نظر رکھی جائے کہ اس میں کوئی بات اسلام کی روح یاقرآن کی صریح تعلیم کے خلاف تونہیں ہے؛ خواہ سند کے اعتبار سے اس میں کوئی عیب نہ ہو، ظاہر ہے کہ اس میں قوتِ حافظہ ووسعت علم کے ساتھ دقتِ نظر کی بھی ضرورت ہوتی ہے، ائمہ حدیث کی اصطلاح میں اسی کا دوسرا نام علم علل الحدیث ہے، اس لیے اس فن کے جاننے والے امت میں بہت کم پیدا ہوئے، زمرۂ تبع تابعین میں اس میں سب سے زیادہ ممتاز ابن مہدی اور ابن مدینی تھے، ابن مہدی نے درایت کی ایک بہترین مثال دی ہے: ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ ابوسعید آپ کسی روایت کوقوی اور کسی کوضعیف قرار دیدیتے ہیں، کسی پرصحت او رکسی پرعدم صحت کا حکم لگادیتے ہیں، آخر آپ کے پاس وہ کونسا معیار ہے جس پرپرکھ کرآپ یہ حکم لگاتے ہیں، فرمایا کہ جب تم کسی صرّاف یاروپیہ کے پادکھ کے پاس روپیئے وریزگاری لے جاتے ہوتووہ دیکھتے ہی کھرا اور کھوٹا الگ کرکے رکھ دیتا ہے توکیا تم اس سے پوچھتے ہوکہ یہ حکم کیوں اور کیسے لگایا، یابے چون وچراتسلیم کرلیتے ہو، بولا نہیں تسلیم ہی کرلینا پڑتا ہے، فرمایا کہ یہی حال روایت کا بھی ہے؛ مگریہ منصب ہرشخص کوحاصل نہیں ہوتا؛ بلکہ اس کے لیے بڑی ممارست، اہلِ علم کی صحبت، تبادلۂ خیال اور وفورِ علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ معرفت حدیث کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ: معرفت حدیث ایک طرح کا الہام ہے، اس معیار پرانہوں نے صرف غیرذمہ دار راویوں ہی کونہیں پرکھا؛ بلکہ اگرکسی شیخ وقت اور محدث معروف سے بھی کوئی غلطی ہوجاتی تھی تووہ اس کوظاہر کردیتے تھے، ان حضرات کی انہی کوششوں کے نتیجہ میں جونااہل اس منصب پرفائز ہوگئے تھے، ان کا پردہ فاش ہوگیا اور ان کوخواص ہی نہیں بلکہ عوام تک پہنچاننے لگے اور غلط اور جعلی روایتوں کا سارا سرمایہ بے قیمت ہوکر رہ گیا، گواب بھی حدیث وتفسیر کی کتابوں میں بعض روایتیں ایسی ملیں گی؛ مگران کے سقم وعیب کوبھی بعد کے محدثین نے واضح کردیا ہے۔ علمی اور عملی کارنامے اب تک زیادہ تران کے منفی کارناموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ انھوں نے جوخالص مثبت کارنامے انجام دیئے، ان کی طرف بھی کچھ اشارے یہاں کردیئے جاتے ہیں، پوری تفصیل کتاب میں ملے گی۔ علمی کارنامے ان کے علمی کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ علومِ دینیہ کی تدوین وترتیب ہے؛ گویہ کام عہدِ صحابہ سے لےکرعہدِ تابعین تک برابر جاری رہا؛ لیکن اس عہد میں اس کام میں اتنی ترقی ہوئی کہ بعد کی صدیوں میں اس پربہت کم اضافہ ہوسکا۔ تابعین اور تبع تابعین کے کام میں فرق عہدِ تابعین میں بھی علومِ دینیہ کی تدوین وترتیب کثرت سے ہوئی؛ لیکن ابھی تک ان علوم کی نہ توفنی تقسیم ہوئی تھی، یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، مغازی، تاریخ ورجال ولغت وغیرہ فنون کے نام علیحدہ علیحدہ نہیں پڑے تھے اور نہ ان کی علیحدہ علیحدہ تدوین ہوئی تھی، اس وقت عام طور پرایک امام اپنے درس میں تفسیر، حدیث، تاریخ ومغازی اور ادب ولغت غرض ہرطرح کے مسائل سے گفتگو کرتا تھا اور ان کے تلامذہ ان کے افادات کواپنے اپنے صحیفوں میں لکھ لیا کرتے تھے اور وہی پھردوسروں تک پہنچ جاتے تھے؛ گویا ان کی حیثیت اساتذہ کے نوٹس یاذاتی ڈائری کی ہوتی تھی، بعض تابعین نے فنی تقسیم کے اعتبار سے بھی کتابیں لکھی؛ مگران میں سے مشکل ہیں سے دوچار کتابیں اس وقت موجود ہوں گی؛ لیکن عہدِ تبع تابعین میں اس میں سے ہرفن کی علیحدہ علیحدہ ترتیب وتدوین ہوئی اور اس اونچے پیمانہ پرہوئی کہ وہ کتابیں ااج تک اسی صورت میں موجود ہیں، اس کی پوری تفصیل مختلف ائمہ کے حالات میں ملے گی؛ یہاں ایک مجمل تبصرہ کردیا جاتا ہے، امام ذہبی رحمہ اللہ نے سنہ۱۴۳ھ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: في سنة ثلاث وأربعين شرع علماء الإسلام في هذا العصر في تدوين الحديث والفقه والتفسير فصنف ابن جريج بمكة ومالك الموطأ بالمدينة والأوزاعي بالشام وابن أبي عروبة وحماد بن سلمة وغيرهما بالبصرة ومعمر باليمن وسفيان الثوري بالكوفة وصنف ابن إسحاق المغازي وصنف أبوحنيفة رحمه الله الفقه والرأي ثم بعد يسير صنف هشيم والليث وابن لهيعة ثم ابن المبارك وأبويوسف وابن وهب وكثر تدوين العلم وتبويبه ودونت كتب العربية واللغة والتاريخ وأيام الناس وقبل هذا العصر كان الأئمة يتكلمون من حفظهم أويروون العلم من صحف صحيحة غير مرتبة۔ (تاريخ الخلفاء:۱/۲۲۹، شاملہ، المؤلف:عبدالرحمن بن أبي بكرالسيوطي،تحقيق:محمد محي الدين عبد الحميد،الناشر:مطبعة السعادة،مصر۔ دیگرمطبوعہ:۱۰۱) ترجمہ: سنہ۱۴۳ھ سے عام طور پرعلمائے اسلام نے اس عہد میں حدیث، فقہ اور تفسیر ہرایک کی الگ الگ تدوین شروع کردی، مکہ میں ابن جریج نے (کتاب کے صفحہ۲۳۹ پرمزید تفصیل ملے گی)، مدینہ میں امام مالک نے، شام میں امام اوزاعی نے، بصرہ میں ابن عروبہ اور حماد بن سلمہ نے، یمن میں معمر نے اور کوفہ میں سفیان ثوری نے تصنیف وتالیف کا کام شروع کردیا، ابن اسحاق نے مغازی پراور امام ابوحنیفہ نے فقہ درائے پرتصنیف کی (یہ دونوں حضرات گویا تابعین ہی میں ہیں؛ لیکن ان کا عہد تبع تابعین ہی میں شروع ہوا اور انہی کے ذریعہ دنیا ان کی تصنیفات سے واقف ہوئی)؛ پھرکچھ ہی مدت بعد ہشیم بن لہیعہ نے؛ پھرابنِ مبارک، امام ابویوسف، ابن وہب وغیرہ نے اس مبارک کام کواپنے ہاتھ میں لیا؛ پھرکثرت سے ہرفن میں تصنیفات کا اور اس کے تدوین وترتیب کا سلسلہ شروع ہوا اور عربی ادب ولغت تاریخِ اسلام اور قدیم تاریخ پربے شمار کتابیں مدون ہوگئیں اور اس عہد سے پہلے عام طور پرائمہ فن یاتواپنے حفظ واستحضار سے کسی فن پرکلام کرتے تھے یاپھرغیرمرتب مجموعوں اور صحیفوں کے ذریعہ۔ سنہ۱۴۳ھ اور اس کے کچھ بعد کے سالوں میں تدوین وتالیف کا جواہم کام ہوا اس کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے؛ لیکن تدوین وتالیف کا سب سے زیادہ کام سنہ۱۵۰ھ سے تیسری صدی کے نصف اوّل تک ہوا، ہرہرفن پراس عہد میں جوکچھ کام ہوا اس کی تفصیل توطویل ہے؛ مگرہرفن کے چند ممتاز اور صاحب تصنیف علماء کے نام یہاں درج کیے جاتے ہیں۔ تفسیر قرآن کی تفسیر وتشریح میں توتقریباً تمام ہی تبع تابعین نے حصہ لیا، کسی نے حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی نے فقہ کے نقطہ نظر سے اور کسی نے نحو وصرف، لغت وادب کے نقطہ نظر سے؛ لیکن خاص طور پر جن لوگوں نے اس فن پراپنی یادگاریں چھوڑیں اور جن کو عام علماء طبقہ مفسرین میں شمار کرتے ہیں، ان کے نام یہ ہیں، اسحاق بن راہویہ، سفیان بن عیینہ، سفیان ثوری، وکیع بن جراح وغیرہ رحمہم اللہ۔ حدیث اس عہد میں حدیث کی نقل وروایت اور تدوین وترتیب کا جتنا کام ہوا اتنا دوسری صدیوں میں نہیں ہوا، اس طرح اس عہد میں جس کثرت سے ممتاز اور بلند مرتبت ائمہ حدیث پیدا ہوئے بعد میں اتنی کثرت سے نہیں پیدا ہوئے، اس عہد کے آئمہ حدیث کے تذکرے پڑھیے توایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہرمسجد اور ہرپڑھے لکھے گھر سے قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی آواز سنائی دے رہی ہے، اس عہد کے ممتاز اور صاحب تصنیف محدثین کے نام یہ ہیں: امام مالک، امام احمد بن حنبل، حماد بن سلمہ، ابن مبارک، یحییٰ بن معین، ابن مہدی، سفیان ابن ععینہ، سفیان ثوری، امام شعبہ، یحییٰ بن سعید، ابن المدینی، ابوعوانہ، یحییٰ بن آدم، جریر بن عبدالحمید، محمد بن جعفر غندر، ولید بن مسلم، وکیع بن جراح، ہشیم بن بشیر، یونس بن بکیر، مکی بن ابراہیم رحمہم اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ کی ثلاثیات زیادہ ترانہی کی روایت سے ہیں، ان کے علاوہ بعض ائمہ حدیث اور بھی ہیں، جن کا ذکر فقہ ومغازی کے ضمن میں آئے گا، ان میں بعض ائمہ نے ستر ستر کتابیں تصنیف کی ہیں۔ فقہ فن حدیث کی تدوین وترتیب اور اس کی تنقیح وتنقید میں تبع تابعین کے تلامذہ نے بہت کچھ اضافہ کیا اور ان کے بہت سے ادھورے کاموں کومکمل کیا؛ مگرفن فقہ کوان حضرات نے خود اتنا مکمل اور مرتب کردیا تھا کہ بعد کی صدیوں میں اس میں بہت کم اضافہ ہوسکا؛ اگراضافہ ہوا توضیح وتشریح کی حد تک اس عہد کے ممتاز فقہا کے نام یہ ہیں: ائمہ ثلاثہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام ابویوسف، امام محمد، امام سفیان ثوری، امام اوزاعی، ابن ابی لیلی، لیث بن سعد، امام زفر، ابن وہب، اسد بن فرات، داؤدِظاہری، اسحاق بن راہویہ وغیرہ رحمہم اللہ، ان میں بعض ائمہ کی اہم تصانیف کی تعداد سوسے متجاوز ہے، تفصیل کتاب میں ملے گی۔ تاریخ عہد تابعین میں دوسرے فنون کی طرح تاریخ کا فن بھی علیحدہ نہیں ہوا تھا؛ لیکن عہد تبع تابعین میں یہ فن مختلف شعبوں میں بٹ گیا اور ہرشعبہ پرعلیحدہ علیحدہ کام ہوا؛ لیکن یہ تمام شعبے اسلامی فتوح، مغازی، سیرت اور طبقات سے متعلق تھےکوئی عمومی تاریخ اس دور میں نہیں لکھی گئی؛ گوکہ اس کی نقل وروایت کا کام شروع ہوگیا تھا، جن لوگوں نے اس فن کی تدوین میں حصہ لیا، ان میں واقدی المتوفی سنہ۲۰۷ھ، ابن سعدالمتوفی سنہ۲۳۰ھ، ہشام الکلبی المتوفی سنہ۲۰۶ھ،عبدالملک بن ہشام المتوفی سنہ۲۱۴ھ، الشیخ محمداسماعیل زیادالبکائی المتوفی سنہ۱۸۳، ابومعشر نجیح المتوفی سنہ۱۷۰ھ رحمہم اللہ قابل ذکر ہیں، ان میں شیخ محمداسماعیل کی فتوح الشام اپنے موضوع پرغیرمسبوق ہے، ان میں ہشام الکلبی اور واقدی پرعلماء نے کم اعتماد کیاہے۔ نحوولغت فن نحو کی تدوین کا آغاز عہد صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہی میں ہوگیا تھا؛ کیونکہ جب اہلِ عجم نے اسلام قبول کیا اور انھوں نے قرآن کے پڑھنے میں بڑی فاش فاش غلطیاں شروع کردیں تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے مشورہ سے ابواسوددوئلی المتوفی سنہ۶۷ھ نے سب سے پہلے نحو کے کچھ قواعد مقرر کیے؛ پھراس کے بعد اس فن میں برابر ترقی ہوتی رہی؛ یہاں تک کہ عہد تبع تابعین میں اس فن نے آحری حد تک ترقی کرلی، اس میں سب سے زیادہ حصہ بصریوں نے لیا؛ گوبعد میں کسائی اور فراکی وجہ سے کوفی بھی ان کے سہیم وشریک ہوگئے؛ اسی طرح لغت کی تدوین بھی اسی عہد میں ہوئی، اس عہد کے ممتاز نحوی جنھوں نے اپنی تحریری یادگاریں بھی چھوڑی ہیں ان میں ابوبشیر سیبویہ المتوفی سنہ۱۸۳ھ، کسائی، معاذالہرا، ابوزکریا، الفراء خاص طور پرممتاز ہیں، سیبویہ کی کتاب اس عہد سے لے کرآج تک نحو کی سب سے معتبر تصنیف سمجھی جاتی ہے، لغت کی تدوین میں جن لوگوں نے حصہ لیا، ان میں سب سے ممتاز الخلیل ابن احمد ہیں، جن کی کتاب آج بھی قابل وثوق سمجھی جاتی ہے؛ اسی طرح عربی نثرونظم کا سارا ذخیرہ اسی عہد میں مرتب ہوا، جن لوگوں نے اس میں حصہ لیا، وہ ہماری فہرست سے خارج ہیں، اس لیے ہم ان کونظرانداز کرتے ہیں، اس دور کی شاعری گواسلامی نقطۂ نظر سے بہت کچھ ہٹ گئی تھی؛ لیکن پھربھی کچھ شعراء خاص طور پرتبع تابعین کے تربیت یافتہ ایسے موجود تھے، جن کے اشعار میں اسلام کے اخلاقی رحجانات کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ عملی کارنامے اوپرذکر آچکا ہے کہ اسلام کا سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا کوایک ایسی پاکیزہ عملی زندگی ملی جس کی نظیر تاریخ انبیا کے علاوہ کسی دوسری قومی، سیاسی اور مذہبی تاریخ میں نہیں ملتی اور جہاں کہیں بھی اس کا کچھ سراغ ملتا ہے، تواس کی عمر بہت زیادہ طویل نظر نہیں آتی؛ لیکن اسلامی تاریخ کے ہردور میں کچھ ایسے برگزیدہ افراد پیدا ہوتے رہے ہیں، جن کودیکھ کرایک نظر میں اسلام کا عملی نقشہ سامنے آجاتا ہے، دوسری صدی میں یہ عملی زندگی حضرات تبع تابعین کی وجہ سے زندہ رہی۔ عملی زندگی کا مطلب یہ ہے کہ اسلام نے عقائد سے لےکرمعاملات ومعاشرت تک جوتعلیم دی ہے افراد کے عمل سے اس کا مظاہرہ ہو؛ چنانچہ آپ بزرگانِ تبع تابعین میں سے جن صاحب کا بھی تذکرہ پڑھیں گے، اس حیثیت سے وہ ممتاز نظرآئیں گے؛ پھریہی نہیں کہ ان کے حالات پڑھنے کے بعد صرف ان کی عملی زندگی کی تصویر سامنے آجاتی ہے؛ بلکہ اس میں اتنی تاثیر ہے کہ اپنے اندر عمل کا جذبہ ابھرتا ہے، یقین وتوکل، آخرت کی کامیابی کی آرزو، خدا سے محبت کے واقعات پڑھ کرخدا کی محبت اور آخری کایقین پیدا ہوتا ہے، ان کی جرأت، حق گوئی اور احیائے سنت کے جذبۂ شوق سے مایوس کن حالات میں کچھ کرنے کا شوق اور ولولہ پیدا ہوتا ہے، ان کی عبادت وتقویٰ کے قصے پڑھ کردل میں عبادت وتقویٰ کا جوش پیدا ہوتا ہے، غرض یہ کہ ان کی عملی زندگی میں جذب وانجذاب دونوں ہیں۔ اللّٰہُمَّ أَحْسِنْ إِلَیْہِمْ وَأَجْزمہم أَحْسن الجزاءِ وَاحشرنامعہم۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ