انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اُم المومنینؓ کی مکہ سے بصرہ کی جانب روانگی عبداللہ بن عامر اوریعلی بن منبہ بصرہ اوریمن سے کافی روپیہ اور سامان لے کر مکہ میں پہنچے تھے،لہذا انہیں دونوں نے لشکر ام المومنینؓ کے سامان سفر کی تیاری وفراہمی میں حصہ لیا،ان دونوں نے روانگی سے پہلے تمام مکہ میں منادی کرادی کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ ،حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ بصرہ کی طرف جارہے ہیں،جو شخص اسلام کا ہمدرد اورخونِ عثمانؓ کا بدلہ لینا چاہتا ہو وہ آئے اور شریکِ لشکر ہوجائے،اس کو سواری وغیرہ دی جائے گی غرض اس طرح مکہ معظمہ سے ڈیڑھ ہزار آدمیوں کا لشکر روانہ ہوا،عین روانگی کے وقت مروان بن الحکم اور سعید بن العاص بھی مکہ میں آپہنچے شریک ہوئے،مکہ سے تھوڑی ہی دُور چلے تھے کہ اطراف جوانب سے جوق در جوق لوگ آ آ کر شریک ہونا شروع ہوئے اوربہت جلد اس لشکر کی تعدادتین ہزار ہوگئی،اُم فضل بنت الحرث اورعبداللہ بن عباسؓ بھی شریک لشکر تھے ،انہوں نے قبیلہ جہنیہ کے ایک شخص ظفر نامی کو اجرت دے کر حضرت علیؓ کی جانب روانہ کیا اور ایک خط دیا جس میں اس لشکر اوراس کی روانگی کے تمام حالات لکھ کر حضرت علیؓ کو آگاہ کیا گیا تھا،باقی امہات المومنین جو حضرت عائشہؓ کے ہمراہ آئی تھیں،مقام ذات عرق تک تو ہمراہ آئیں ،پھر حضرت عائشہ صدیقہؓ سے رو رو کر رخصت ہوئیں اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئیں۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے مروان بن الحکم بھی اس لشکر کے ہمراہ ہے،مروان بن الحکم ہی وہ شخص ہے جس نے حضرت عثمان غنیؓ کو موردِ اعتراضات بنایا، مروان بن الحکم ہی نے حضرت عثمان غنیؓ کو مسلمانوں کی عام خواہش کے موافق اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی پیدا کرنے سے باز رکھا،مروان بن الحکم ہی سے لوگوں کو نفرت تھی، اگر ایام محاصرہ میں بھی حضرت عثمان غنیؓ مروان بن الحکم کو بلوائیوں کے مطالبہ کے موافق بلوائیوں کے سپرد کردیتے تو حضرت عثمان غنیؓ کے ساتھ ہرگز اس سختی کا برتاؤ نہ کرسکتے اورنہ اُن کی شہادت تک نوبت پہنچتی ؛بلکہ تمام جھگڑوں کا خاتمہ ہوجاتا لیکن حضرت عثمان غنیؓ نے مناسب نہیں سمجھا کہ مروان بن الحکم کو بلوائیوں کے ہاتھ میں دے دیں جو اُس کو یقیناً قتل کردیتے،مروان بن الحکم ہی وہ شخص ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کسی جھوٹ بولنے پر مدینہ منورہ سے نکال دیا تھا،غرض مروان بن الحکم ایک نہایت چالاک اورخطرناک آدمی تھا،اس لشکرکے ہمراہ ہوکر بھی اُس نے اپنی فطرت کے تقاضے سے مجبور ہوکر فتنہ پیدا کردینے والی حرکت کی،مکہ سے نکلنے کے بعد اول نمازکا وقت آیا تو مروان نے اذان دی،پھر حضرت طلحہؓ وزبیرؓ کے پاس آکر کہا کہ آپ دونوں میں سے امامت کس کے سپرد کی جائے، یہ دونوں حضرات ابھی کچھ کہنے نہ پائے تھے کہ ابن زبیرؓ نے کہا: میرے باپ کو ابن طلحہؓ فوراً بول اُٹھے نہیں،میرے باپ کو،یہ حال حضرت ام المومنینؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے مروان کو پاس بُلا بھیجا اور کہا: کیا تم ہمارے کام کو درہم برہم کرنا چاہتے ہو، امامت میرا بھانجا عبداللہ بن زبیرؓ کرےگا۔ چند منزل اورچل کر ایک روز مروان بن الحکم نے طلحہؓ اورزبیرؓ سے پوچھا کہ اگر تم فتح مند ہوگئے تو خلیفہ کس کو بناؤ گے؟انہوں نے جواب دیا کہ ہم دونوں میں سے جس کو لوگ منتخب کرلیں گے وہی حاکم بن جائے گا،یہ سن کر سعید بن العاصؓ نے کہا کہ تم لوگ تو صرف عثمان غنی ؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے نکلے ہو، حکومت عثمانؓ کے لڑکے کو دینی چاہئے،ان دونوں بزرگوں نےجواب دیا کہ تم کسی اورکا نام لیتے تو خیر، لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ مہا جرین کے بوڑھے اوربزرگ لوگوں کو چھوڑ کر نو عمر لڑکوں کو حاکم بنادیا جائے،سعید بن العاصؓ نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو میں شریک نہیں رہ سکتا،یہ کہہ کر وہ واپس چل دئے،ان کے لوٹتے ہی عبداللہ بن خالد بن اسید اور مغیرہ بن شعبہ بھی واپس ہوگئے،ان لوگوں کے ساتھ قبیلہ ثقیف کے بہت سے آدمی واپس لوٹ گئے، حضرت طلحہؓ وزبیرؓ باقی تمام آدمیوں کو لئے ہوئے آگے روانہ ہوئے،اتفاقاً خواب کے چشمہ پر پہنچے تو کتوں نے بھونکنا شروع کردیا، اس چشمہ کا نام معلوم کیا تو بتایا گیا کہ یہ چشمۂ خواب ہے،یہ نام سنتے ہی حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ مجھ کو لوٹاؤ، لوٹاؤ، لوگوں نے دریافت کیا کہ کیوں؟ آپ ؓ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیویاں بیٹھی ہوئی تھیں،آپ نے ارشاد فرمایا کہ کاش! مجھے معلوم ہوجاتا کہ تم میں سے کس کو دیکھ کر خواب کے کتے بھونکیں گے،یہ کہہ کر حضرت عائشہؓ نے اونٹ کی گردن پر ہاتھ مارا اوراُس کو وہیں بٹھا دیا،ایک دن اورایک رات وہیں مقیم رہیں اورتمام لشکر آپ ؓ کے ساتھ خیمہ زن رہا، یہاں تک کہ لشکر میں یکایک شور مچا کہ جلدی کرو،جلدی کرو،علیؓ تم تک پہنچ گئے،یہ سُن کر عجلت کے ساتھ تمام لشکر بصرہ کی جانب چل کھڑا ہوا،حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی لشکر کے ساتھ روانہ ہوئیں کیونکہ ان سے پہلے ہی یہ کہہ دیا گیا تھا کہ غلطی سے کسی نے اس چشمہ کا نام خواب بتادیا تھادر حقیقت یہ وہ چشمہ نہیں ہے، نہ وہ اس راستہ میں آسکتا ہے،اسی طرح چشمہ خواب کے قیام کا خاتمہ ہوگیا۔