انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ابو حذیفہؓ نام ،نسب ہشیم نام، ابوحذیفہ کنیت،والد کانام عتبہ اوروالدہ کا نام ام صفوان تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبدمناف بن قصی القرشی۔ اسلام حضرت ابوحذیفہؓ کے والد عتبہ ان ذی اثر رؤسائے قریش میں تھے جنہوں نے اسلام کی مخالفت میں اپنی پوری طاقت صرف کردی تھی، لیکن ارادۂ خداوندی میں کون مانع ہوسکتا ہے، خود عتبہ کے لختِ جگر حضرت ابوحذیفہؓ نے اس وقت داعیِ اسلام کو لبیک کہا جب کہ بظاہر اس دعوت کے کامیاب ہونے کی کوئی صورت نہ تھی اور فرزندانِ توحید کی ایک نہایت مختصر جماعت کسم پرسی کے ساتھ اسیر پنجہ ظلم وجفاتھی، آنحضرت ﷺ اس وقت تک ارقم بن ابی الارقمؓ کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزءثالث :۵۹) ہجرت حضرت ابوحذیفہؓ سرزمین حبش کی دونوں ہجرتوں میں شریک تھے، ان کی بیوی حضرت سہلہ بنت سہیلؓ بھی رفیقِ سفر تھیں، چنانچہ محمد بن ابی حذیفہؓ حبش ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ (اسد الغابہ:۵/۱۷۰) حبش سے مکہ واپس آئے، یہاں ہجرت کی تیاریاں ہورہی تھیں، اس بنا پر اپنے غلام حضرت سالمؓ کو ساتھ لے کر مدینہ پہنچے اورحضرت عباد بن بشرؓ کے مہمان ہوئے، (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث:۵۹) آنحضرت ﷺ نے ان دونوں میں باہم مواخات کرادی۔ (استیعاب تذکرہ ابوحذیفہؓ) غزوات عہدِ نبوی ﷺ کے تمام اہم مشہور معرکوں میں جوش وپامردی کے ساتھ سرگرم کارزار تھے،خصوصاً غزوۂ بدر میں کیسا عبرت انگیز منظر تھا، جب کہ ایک طرف سے ان کے والد اور دوسری طرف سے یہ جوہر شجاعت دکھا رہے تھے، حقانیت کے جوش نے اپنے وبیگانے کی تمیز اٹھادی تھی انہوں نے اپنے والد کو مقابلہ کے لیے للکارا اس پر ان کی بہن ہند بت عتبہ نے اشعار ذیل میں ملامت کی۔ (طبقات بن سعد قسم اول جزثالث :۵۹) الاحول الاثغل المشؤم طائرہ ابوحذیفۃ شرالناس فی ادلدین احول بڑے دانت والا جس کا طائر بحث شوم ہے، یعنی ابو حذیفہ ؓ جو مذہہب میں نہایت بُرا ہے۔ اما شکرت ابا رباک من صنعر حتی شببت شبا باغیر محجوب کیا تو اپنے باپ کا مشکور نہیں ہے جس نے بچپن سے تیری پرورش کی یہاں تک کہ تونے بے داغ جوانی پائی۔ معرکہ بدر میں عتبہ بن ربیعہ اوراکثرروسائے قریش تہ تیغ ہوئے اورایک غار میں ڈال دیئے گئے تھے، آنحضرت ﷺ نے فرداً فرداً نام لے کر فرمایا،اے عتبہ! اے شیبہ! اے امیہ بن خلف! اے ابو جہل! کیا تم نے وعدۂ الہی کو حق پایا؟ مجھ سے تو جو کچھ وعدہ ہوا تھا وہ سچ ثابت ہوا(بخاری ۲/۵۶۶)ابن اسحاق کی روایت ہے کہ اس وقت حضرت ابو حذیفہؓ کا چہرہ نہایت اداس تھا ،آپ نے غمگین دیکھ کر پوچھا، ابوحذیفہؓ شاید تم کو اپنے باپ کا کچھ افسوس ہے، عرض کیا خدا کی قسم نہیں، مجھے اس کے مقتول ہونے کا صدمہ نہیں ہے ؛لیکن میرا خیال تھا کہ وہ ایک ذی عقل پختہ کاروصاحب رائے شخص تھا اس بنا پر امید تھی کہ وہ دولتِ ایمان سے فائدہ اٹھائےگا؛ لیکن جب کہ حضورﷺ نے حالت کفر پر اس کے مرنے کا یقین دلادیا تو مجھے اپنے غلط توقع پر افسوس ہوا۔ (سیرت ابن ہشام :۱/۳۶۹) شہادت آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد عہد صدیقیؓ میں مسیلمہ کذاب نے یمامہ میں اپنی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا،دارالخلافت سے جو فوج اس کی سرکوبی کے لیےروانہ ہوئی اس میں شریک ہوئے اور دادِ شجاعت دے کر ۵۴ برس کی عمر میں واصلِ بحق ہوئے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۶۰) انا للہ وانا الیہ راجعون اخلاق حضرت ابوحذیفہؓ اپنی اخلاقی بلندی کے لحاظ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی صف میں نہایت ممتاز نظر آتے ہیں، حق پسندی ،جفاکشی وجوشِ ایمان کا اندازہ گذشتہ واقعات سے ہوا ہوگا، غلاموں کے ساتھ نہایت شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے، حضرت سالم ؓ ان کی بیوی حضرت ثبیتہ انصاریہؓ کے غلام تھے،انہوں نے اُن کو آزاد کردیاتوحضرت ابوحذیفہؓ نےان کو اپنامتبنیٰ بنالیا، چنانچہ وہ عموماً سالم بن ابی حذیفہؓ کے نام سے مشہور تھے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۶۰) حلیہ قد بلند وبالا، چہرہ خوبصورت، چشم احول، سامنے کی طرف ایک دانت زیادہ۔ ازواج حضرت ابوحذیفہ ؓ نے متعدد شادیاں کیں، بیویوں کے نام یہ ہیں، سہلہ بنت سہیلؓ، آمنہ بنت عمرو، ثبیتہ بنت یعارانصاریہ۔ (طبقات ابن سعد :۵۹) اولاد محمد بن ابی حذیفہؓ حضرت سہلہؓ کے بطن سے حبش میں پیدا ہوئے، حضرت عثمان ؓ کی مخالفت میں پیش پیش تھے، طرفدارانِ امیر معاویہ ؓ کے ہاتھ سے مصر میں مقتول ہوئے، عاصم بن ابی حذیفہؓ حضرت آمنہ بنت عمروؓ سے پیدا ہوئے،چونکہ یہ دونوں لاولد فوت ہوئے، اس لیے حضرت ابوحذیفہؓ کا سلسلہ ونسل منقطع ہوگیا۔ (طبقات ابن سعد :۵۹)