انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ (م:۲۱اگست ۱۹۶۱ء) ۱۔مدارس دین کے قلعے ہیں،ان کی بقا سے دین کی بقا ہے۔ (بخاریؒ کی باتیں،ص:۱۱) ۲۔جس شخص کے پاس کوئی ہدیہ لائے اوروہ شخص ہدیہ رکھ کر پھر اس کی قیمت اسے ادا کرے وہ بھی بڑا کمینہ ہے اورجو شخص کسی سے کہہ کر اپنے لئے کوئی چیز منگوائے اورپھر اس کی قیمت ادا نہ کرے وہ بھی بڑا کمینہ ہے۔ (بخاریؒ کی باتیں،ص:۱۳) ۳۔اقبال(شاعر مشرق علامہ اقبالؒ)کونہ انگریزوں نے سمجھا نہ قوم نے،اگر انگریز سمجھتا تو اقبال بستر پر نہ مرتے ؛بلکہ پھانسی پر لٹکائے جاتے اور اگر قوم سمجھ لیتی تو آج تک غلام نہ رہتی۔ (بخاریؒ کی باتیں، ص:۲۶) ۴۔میں دنیا میں ایک چیز سے محبت کرتا ہوں وہ ہے قرآن اورایک چیز سے نفرت کرتا ہوں اوروہ ہے انگریز۔ (بخاریؒ کی باتیں ،ص:۴۶) ۵۔شریف کبھی بزدل نہیں ہوتا اورکمینہ کبھی بہادر نہیں ہوتا، کمینے پر جب کوئی ابتلاء آتی ہے تو دشمن کے سامنے ایڑیاں رگڑتا ہے اورشریف جب دشمن اس کے قابو میں آتا ہے تو اسے معاف کردیتا ہے اورنہ ماضی کے کسی واقعہ پر اسے مطعون کرتا ہے۔ (بخاریؒ کی باتیں،ص:۹۹) ۶۔ہندوستان کے آٹھ کروڑ اچھوت جو ہزاروں سال سے حیوانوں کی زندگی بسر کررہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں،اگر ان کو مسا وات انسانیت کا درجہ کسی مذہب میں حاصل ہوسکتا ہے تو وہ اسلام ہے،اسلام کے سوا دنیا میں کوئی مذہب اچھوت کو اپنے میں جذب نہیں کرسکتا،کائنات میں سب سے بڑا غلام اچھوت ہے،غلام کا جسم اوراس کی کمائی اپنی نہیں ہوتی ؛بلکہ مالک کی ہوتی ہے لیکن اسلام نے اکثر دنیا میں غلام کا درجہ بلند کردیا اور اچھوت پر سب سے بڑااحسان کرنے والےحضرت محمد ﷺ ہیں جنہوں نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زیدؓ سے منسوب کردی جو غلام تھے۔ ۷۔ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے عمل سے اوراپنے مذہب کی خوبیوں کے ذریعہ اچھوتوں کے ساتھ ایسا سلوک کریں کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور ہوجائیں اور سوائے مذہب اسلام قبول کرنے کے ان کے لئے کوئی چارہ نہ رہے۔ ۸۔اخلاق کی تلوار انسان کو ہمیشہ کے لئے رام کردیتی ہے،اس لئےاچھوتوں کو ساتھ ملانے کے لئے اور دائرہ اسلام میں لانے کے لئے تم وہ خلق عظیم اختیارکرو جو اسلام نے تم کو بخشا ہے۔ (بخاریؒ کی باتیں:۱۰۸) ۹۔مسلمان کا یہ شعار ہوگیا ہے کہ وہ برائیاں عقاب کی آنکھ سے چنتا ہے اورصباکی رفتار سے پکڑتا ہے ،کبھی کبھی نیکیوں پر بھی نگاہ کرلیا کرو،تمہاری فطرتیں اس سے خوب صورت ہوتی چلی جائیں گی۔ (بخاریؒ کی باتیں،ص:۱۱۳) ۱۰بہادر کمینہ نہیں ہوتا اورکمینہ بہادر نہیں ہوتا۔ (بخاریؒ کی باتیں، ص:۱۱۴) ۱۱۔ایک مرتبہ شاہ صاحبؒ نے پیر مہر علی شاہ صاحب ؒ کا یہ مصرع پڑھا: کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا اے گستاخ اکھیاں کتھے جااڑیاں پھر فرمایا"حضرت کا یہ شعر پڑھا تو دنوں تک تڑپتا پھڑکتا رہا"پھر عمر بھر لوگوں کو اس سے تڑپایا اورپھر بھڑکایا،کئی نعتیہ دیوانوں پر تنہا یہ شعر بھاری ہے،"گستاخ اکھیاں" یہاں اس طرح لگی ہوئی ہیں کہ کائنات کی حیاکا بوجھ ان پر پڑا ہواہے۔ (بخاریؒ کی باتیں،ص:۱۰۵) ۱۲۔تقسیم ہند سے پہلے ایک دفعہ سیاسی اختلافات کی بنا پر سید پور میں کچھ نادان نوجوانوں نے حضرت سید حسین احمد ؒ کے ساتھ نازیبا سلوک کیا، حتیٰ کہ حضرت کی دستارمبارک گرادی گئی،اخبارات میں یہ خبر جب شاہ صاحبؒ نے پڑھی تو انہیں بہت دکھ ہوا اور حضرت شیخ ؒ کی توہین کا صدمہ ہوا اور مسلمانوں کی اخلاقی پستی سے افسردہ ہوئے،اسی رات امرتسرچوک فریدی میں جلسہ گاہ میں تشریف لائے اورخلاف معمول اس روز سرپر نہ رومال باندھا نہ ٹوپی رکھی ننگے سرہی جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور تقررفرمائی: "میں مسلمان قوم سے مایوس ہوچکا ہوں، مجھے ایسامحسوس ہورہا ہے جیسے انہوں نے خدا کو ناراض کرنے کا فیصلہ کرلیا، تم دیکھتے ہو آج میں تمہارے مجمع میں ٹوپی اتار کر آیاہوں،جس قوم کی دست درازیوں سے شیخ العرب والعجم کی دستار مبارک نہ بچ سکی ہو بخاری کی ٹوپی کی کیا پروا کرے گا، میری ہستی کیا ہے تم نے اللہ کےولی کی توہین کرکے بڑی بے باکی سے اللہ کے عذاب کو للکارا ہے۔" یہ الفاظ سن کر مجمع تڑپ اٹھا اور بعض کی چیخیں نکل گئیں۔ ( بخاریؒ کی باتیں:۲۵) ۱۳۔۱۹۴۵ ء میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا: "چوالیس برس لوگوں کو قرآن سنایا،پہاڑوں کو سناتا تو عجب نہ تھا کہ ان کے سنگینوں کے دل چھوٹ جاتے،غاروں سے ہم کلام ہوتا تو جھوم اٹھتے،چٹانوں کو جھنجھوڑتا تو چلنے لگتیں،سمندروں سے مخاطب ہوتا تو ہمیشہ کے لئے طوفان بلند ہوجاتے،درختوں کو پکارتا تو وہ رونے لگتے،کنکریوں سے کہتا تو وہ لبیک کہہ اٹھتیں،صرصر سے گویا ہوتا تو وہ صبا بن جاتی،دھرتی کو سناتا تو اس میں بڑے بڑے شگاف پڑجاتے،جنگل لہرانے لگتے،صحرا سر سبز ہوجاتے،میں نے ان لوگوں کو خطاب کیا جن کی زمینیں بنجر ہوچکی ہیں، جن کے ہاں دل و دماغ کا قحط ہے،جن کے ضمیر عاجز آچکے ہیں، جو برف کی طرح ٹھنڈے ہیں، جن سے گزرجانا طرب ناک ہے،جن کے سب سے بڑے معبود کا نام طاقت ہے۔" (بخاریؒ کی باتیں،ص:۱۱۸) ۱۴۔ایک مرتبہ حضرت شاہ صاحب ؒ کی مجلس میں یہ ذکر آیا کہ احادیث میں یہ واقعات ملتے ہیں کہ حضورﷺ جب صحابہ کرام ؓ میں تشریف فرما ہوتے اور کوئی نووارد یا ناواقف آتا تو پوچھتا کہ آپ میں محمد ﷺ کون ہیں؟ اب سوال یہ زیر بحث آگیا کہ حضور ﷺجبکہ سراپا حسن وخوبی تھے، ظاہری وجاہت کے اعتبار سے بھی کوئی شخص آپ کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا تو کیا وجہ تھی کہ نووارد تمیز نہ کرسکتا تھا کہ اس مجلس میں حضورﷺ کون ہیں، اس پر حضرت شاہ صاحبؒ نے فرمایا: "میری سمجھ میں تو کچھ یوں آتاہے کہ حضورﷺ کا چہرہ مرکز انورا تجلیات تھا،صحا بہ کرام ں جب خدمت میں بیٹھتے تو حضور ﷺ کے چہرہ مبارک کا پرتو ان پر بھی پڑتا جس سے ان کے چہرے بھی پر انوار ہوجاتے،لہذا جب ناواقف آتا تو اپنے بے خبری کے باعث اسے دریافت کرنا پڑتا کہ محمد ﷺ کون ہیں"۔ ۱۵۔وہ بیٹیاں تم جس کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دے دو ،وہ اف کئے بغیر تمہاری پگڑیوں اور داڑھیوں کی لاج رکھنے کے لئے ان کے ساتھ ہولیتی ہیں،سسرال میں جب میکے کی یاد آتی ہے تو چھپ چھپ کر رولیتی ہیں، کبھی دھوئیں کے بہانے آنسو بہا کر جی ہلکا کرلیا،آٹا گوندھتے ہوئے آنسو بہتے ہیں وہ آٹے میں جذب ہوجاتے ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ ان روٹیوں میں اس بیٹی کے آنسو بھی شامل ہیں،غیرت مند !ان کی قدر کرو یہ آبگینے بڑے نازک ہیں۔ (بخاریؒ کی باتیں،ص:۱۳۰) ۱۶۔دہلی میں ایک مجذوب تھا جو آ ہ بھر کر بڑے سوزو گدازسے ہمیشہ ایک ہی مصرع بلند آواز سے پڑھتا اورچل دیتا: "اس لئے مجھ کو تڑپنے کی تمنا کم ہے" لوگ پوچھتے دوسرامصرع کیا ہے؟تو وہ کہہ دیتا جس دن میں نے دوسرا مصرع پڑھ دیا تڑپ کر جان دے دوں گا۔ ایک دفعہ چند نوجوانوں نے گھیر لیا اورکہا دوسرا مصرع سناؤ، اس مجذوب نے بہت لیت ولعل کی مگر وہ باز نہ آئے،آخر اس مجذوب نے تنگ آکر دوسرا مصرع پڑھ دیا اور تڑپ کر گرا اورجان دے دی: وسعت دل توبہت ہے وسعت صحرا کم ہے اس لئے مجھ کو تڑپنے کی تمنا کم ہے۔ اس مجذوب کی قبرشاہی مسجد کے قریب چتلی قبرکے نام سے مشہور ہے۔ (بخاریؒ کی باتیں،صؒ۱۸۳)