انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حفاظت حدیث کا قرآنی عنوان اللہ تعالی کی آخری کتاب کے کئی نام ہیں، جب اس کے الفاظ اوران کی قرأت پر نظر ہو تو قرآن کا نام زیادہ ممتاز ہے،جس کی اصل قرأت اورپڑھنا ہے، جب اسے باطل کے مقابلہ میں دیکھا جائے تو یہ فرقان ہے، جس کا کام حق و باطل میں فرق کرنا ہے، جب اس کی معنوی حیثیت پر نظر کی جائے تو اس کا نام ذکر ہے جس سے فہم پیدا ہوتا ہے اورحقیقت کھلتی ہے، اللہ تعالی نے قرآن کی حفاظت کے قرآنی عنوان میں اس کا نام قرآن یا فرقان کے بجائے الذکر ذکر فرمایا ہے جو بجائے خود اس کتاب کی معنوی حفاظت کی ایک دلیل ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: "إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ"۔ (الحجر:۹) ترجمہ:بیشک ہم نے ہی یہ سمجھی جانے والی بات اتاری ہے اوربے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ پس! اللہ تعالی نے الذکر کی حفاظت کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ حفاظت قرآن تک محدود نہیں،الفاظ قرآن کے ساتھ ساتھ اس بیان قرآن کو بھی شامل ہے، جس کے لیے آنحضرتﷺ خدا کی طرف سے مامور تھے، قرآن کریم واضح کرتا ہے ؛کہ الذکر قرآن کریم کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس تبین و توضیح کو بھی شامل ہے جو آنحضرتﷺ نے قرآن کریم کی تفصیل و تشریح کے لیے بالعمل اختیار فرمائی: "وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ"۔ (النحل:۴۴) ترجمہ: اوراتاراہم نے آپ کی طرف الذکرکو کہ آپ لوگوں کے سامنے بیان کرسکیں جو ان کی طرف اتاراگیاہے۔ یہاس "مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ" سے مرادتو قرآن پاک ہے اوربیان پیغمبرسے مراد قرآن پاک کی وہ تفصیل ہے جو حضورﷺ نے بیانا اور عملا اختیار فرمائی تھی اوراسے ہی حدیث کہتے ہیں، اس آیت سے پتہ چلا؛الذکر قرآن پاک کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کی تبیین کوبھی شامل ہے اوراس کی وہ تفصیل وتشریح جو حضورﷺ کے ذریعہ ہوئی وہ بھی ایک عطیہ ربانی اورنزول آسمانی ہے اوراللہ رب العزت نے ہی اسے آنحضرتﷺ پر اتارا ہے،حافظ ابن حزم (۴۵۷ھ) لکھتے ہیں: تمام اہل ولغت اہل شرائع کا اس پر اتفاق ہے کہ جو وحی بھی (خواہ متلو ہو یا غیر متلو جیسا کہ "وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ" (النساء:۱۱۳) میں دونوں کو ذکر فرمایا) اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئی وہ اللہ کی طرف سے اتارا ہوا ذکر ہے اوریہ پوری وحی الہٰی اللہ کی حفاظت میں ہے،جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آیت حفاظت میں الذکر کا مصداق صرف قرآن کریم ہے اور وہ بھی الفاظ کی حد تک ان کا دعویٰ یہ بالکل غلط ہے،جس پر کوئی دلیل نہیں، لفظ الذکر کا مصداق ہر وہ چیز ہے جو اللہ تعالی نے حضور اکرمﷺ پر نازل فرمائی،الفاظ ہوں یا معنی، قرآن ہو یا سنت دونوں وحی الہٰی میں قرآن کی مراد سنت ہی سے تو واضح ہوتی ہے۔ قرآن و سنت کا علم رکھنے والے ہی اہل ذکر ہیں اور وہی اس آیت میں مراد لیے گئے ہیں اورانہی کا حق ہے؛کہ امت قرآن پر عمل پیرا ہونے میں ان سے ہدایت پائے،قرآن حکیم میں ہے: "فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ"۔ (النحل:۴۳) ترجمہ: تم اہل ذکر سے پوچھ لیا کرو،اگر تم (کسی بات کو) نہیں جانتے۔ کیا یہاں ہدایت کا سبب اہل ذکر کو نہیں ٹھہرایا گیا؟ کیا اہل ذکر سے مراد صرف الفاظ قرآن کے حافظ ہیں؟ اورکیا صرف حافظ دین میں پیدا ہونے والے ہر سوال کا جواب بن سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو یقین کیجئے کہ ذکر سے مراد یہاں صرف سطح الفاظ نہیں،الفاظ اپنی تمام گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مراد ہیں اوراس پورے قرآن کو خدائی حفاظت شامل ہے،الحمد للہ حفاظت ذکر کا یہ وعدہ حفاظت قرآن کے پہلو سے حفاظ و قراء، مفسرین اور اہل حق کے ذریعہ پورا ہوا اور حفاظت حدیث کے پہلو سے ائمہ حدیث اورفن حدیث کے ناقدین کے ہاتھوں تاریخ کے ہر دور میں پورا ہوتا رہا،فجزاہم اللہ عنا احسن الجزاء ؎ گروہ ایک جو یا تھا علم نبی کا لگایا پتہ اس نے ہر مفتری کا نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا کئے جرح وتعدیل کے وضع قانوں نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوں (حالی)