انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نام،نسب عبداللہ نام ،ابوالعباس کنیت، والد کا نام عباس ؓ اوروالدہ کا نام ام الفضل لبابہ تھا، شجرہ نسب یہ ہے: عبداللہ بن العباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف القرشی الہاشمی۔ آنحضرت ﷺ کے ابن عم اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ کے خواہرزادہ تھے،کیونکہ ان کی والدہ حضرت ام الفضل حضرت میمونہ ؓ کی حقیقی بہن تھیں۔ ولادت حضرت عبداللہ ؓ ہجرت سے تین سال قبل مکہ کی اس گھاٹی میں تولد پذیر ہوئے جہاں مشرکین قریش نے تمام خاندان ہاشم کو محصور کردیا تھا، حضرت عباس ؓ ان کو بارگاہِ نبوت میں لے کر آئے تو آپ نے منہ میں لعاب دہن ڈال کر دعا فرمائی۔ (اسدالغابہ تذکرہ عبداللہ بن عباس ؓ) اسلام حضرت عباس ؓ نے بظاہر فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا، لیکن حضرت عبداللہ ؓ کی والدہ حضرت ام الفضل ؓ نے ابتداہی میں داعیِ توحید کو لبیک کہا تھا، ابن سعد کی روایت ہے کہ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ کے بعد عورتوں میں ان کا ایمان سب پر مقدم تھا، اس بنا پر حضرت عبداللہ ؓ نے یومِ ولادت ہی سے توحید کی لوریوں میں پرورش پائی اورہوش سنبھالنے کے ساتھ وہ قدرۃ ایک پرجوش مسلم ثابت ہوئے،امام بخاری ترجمۃ الباب میں فرماتے ہیں: کان ابن عباس مع امہ من المستضعفین ولم یکن مع ابیہ علی دین قومہ وقال الاسلام یعلوولایعلی۔ (بخاری جلد ۱ صفحہ ۱۸۰) ابن عباس رضی اللہ اپنی ماں کے ساتھ ضعفائے اسلام میں تھے جو اپنی مجبوریوں کے باعث مکہ میں رہ گئے تھے، وہ اپنے والد کے ساتھ اپنی قوم کے مذہب پر نہ تھے وہ کہا کرتے تھے کہ اسلام سربلند رہے گا، مغلوب نہ ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ جب یہ آیت تلاوت فرماتے: " اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ" (النساء:۹۸) تو فرماتے کہ میں بھی اپنہ والدہ کے ساتھ ان لوگوں میں شامل تھا جن کو خدا نے معذور قرار دیا ہے۔ (بخاری:۲/۶۶۰) ہجرت حضرت عباس ؓ۸ھ میں فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے،اوراپنے اہل وعیال کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے،(اسد الغابہ تذکرہ عباس بن عبدالمطلب ؓ)حضرت عبداللہ ؓ کی عمر اس وقت گیارہ برس سے زیادہ نہ تھی،لیکن وہ اپنے والد کے حکم سے اکثر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے، ایک روز انہوں نے واپس آکر بیان کیا،میں نے رسول اللہ کے پاس ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کو میں نہیں جانتا ہوں ،کاش مجھے معلوم ہوتا کہ وہ کون تھے؟، حضرت عباس ؓ نے آنحضرت ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا، آپ نے ان کو بلاکر فرطِ محبت سے اپنے آغوش عاطفت میں بٹھایا،اورسرپر ہاتھ پھیر کر دعا فرمائی،اے خدا اس میں برکت نازل فرما اوراس سے علم کو روشنی پھیلا۔ (اصابہ تذکرہ عبداللہ بن عباس ؓ) عہد طفولیت ومصاحبت رسول حضرت عبداللہ بن عباس ؓ گوفطرۃ ذہین،سلیم الطبع،متین اور سنجیدہ تھے، تاہم انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی مصاحبت کا جو زمانہ پایا وہ درحقیقت ان کا عہد طفولیت تھا، جس میں انسان کو کھیل کود سے دل آویزی ہوتی ہے،فرماتے ہیں کہ میں لڑکوں کے ساتھ گلیوں میں کھیلتا پھرتا تھا، ایک روز رسول اللہ ﷺ کو پیچھے آتے ہوئے دیکھا تو جلدی سے ایک گھر کے دروازہ میں چھپ گیا، لیکن آپ ﷺ نے آکر مجھے پکڑلیا اورسرپر ہاتھ پھیر کرفرمایا، جامعاویہ ؓ کو بلالا وہ آنحضرت ﷺ کے کاتب تھے، میں دوڑ کر ان کے پاس گیا اور کہا چلیے رسول اللہ ﷺ آپ کو یاد فرماتے ہیں، کوئی خاص ضرورت ہے۔ (مسند:۱/۲۹۱) ام المومنین حضرت میمونہ ؓ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی خالہ تھیں اوران کو نہایت عزیز رکھتی تھیں،اس لیے وہ اکثر ان کی خدمت میں حاضر رہتے ،کبھی کبھی رات کے وقت بھی ان ہی کے گھر سورہتے تھے،اس طرح ان کو رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے مستفیض ہونے کا بہترین موقع میسر تھا،فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کے وقت اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے پاس سو رہا تھا،آنحضرت ﷺ تشریف لائے اورچاررکعت نماز پڑھ کر استراحت فرماہوئے،پھر کچھ رات باقی تھی کہ بیدار ہوئے اورمشکیزہ کے پانی سے وضو کرکے نماز پڑھنے لگے میں بھی اُٹھ کر بائیں طرف کھڑا ہوگیا، آپ ﷺ نے میرا سرپکڑ کر مجھے داہنی طرف کرلیا۔ (بخاری:۱/ ۹۸) اسی سلسہ میں بارہا خدمت گذاری کا شرف بھی حاصل ہوا، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے بیدار ہوئے،انہوں نے وضو کے لیے پانی لاکر رکھ دیا، آپ ﷺ نے وضو فرماکر پوچھا، پانی کون لایا تھا؟ حضرت میمونہ ؓ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا نام لیا، آنحضرت ﷺ نے خوش ہوکر دعائیں دیں اورفرمایا اللھم فقھہ فی الدین وعلمہ التاویل"" یعنی اے خدا! اس کو مذہب کا فقیہ بنا اورتاویل کا طریقہ سکھا۔ (مسند احمد:۱/ ۳۲۸) ایک دفعہ وہ نماز میں آنحضرت ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے،آپ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اوراپنے برابر کھڑا کرلیا،لیکن وہ کھڑے کےکھڑے رہ گئے، آنحضرت ﷺ نے نماز سے فارغ ہوکر پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ عرض کیا یارسول اللہ کیا آپ کے برابر کھڑا ہونا کسی کے لیے مناسب ہے،حالانکہ آپ رسول خدا ہیں ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ازدیادعلم و فہم کی دعا فرمائی۔ (مسند احمد :۱/۲۳۰،ومستدرک :۳/۳۵) خلفائے راشدین کا عہد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ صرف تیرہ برس کے تھے کہ حضرت سرورِ کائنات ﷺ نے اس دارِ فانی سے رحلت فرمائی،سوادوبرس کے بعد خلیفہ اول نے بھی داغِ مفارقت دیا، خلیفہ دوم یعنی حضرت عمر فاروق ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے تو وہ سنِ شباب کو پہنچ چکے تھے،حضرت عمرؓ نے ان کو جوہر قابل پاکر خاص طور سے اپنے دامن تربیت میں لے لیا اوراکابرصحابہ ؓ کی علمی صحبتوں میں شریک کیا،یہاں تک کہ لوگوں کو اس پر رشک ہوتا تھا، صحیح بخاری میں خود حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ مجھ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے، اس پر بعض بزرگوں نے کہا کہ آپ اس نوعمر کو ہمارے ساتھ کیوں شریک کرتے ہیں اورہمارے لڑکوں کو جوان کے ہمسر ہیں کیوں یہ موقع نہیں دیتے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا، یہ وہ شخص ہے جس کی قابلیت تم کو بھی معلوم ہے۔ (بخاری :۲/۶۱۵) محدث ابن عبدالبر استیعاب میں تحریر فرماتے ہیں "کان عمر یحب ابن عباس ویقربہ" یعنی حضرت عمرؓ ابن عباس ؓ کو محبوب رکھتے تھے اور ان کو تقرب دیتے تھے، بسااوقات حضرت عمرؓ کی مجلس میں کوئی مسئلہ پیش ہوتا،عبداللہ بن عباس ؓ اس کا جواب دیناچاہتے؛ لیکن کم سنی کی وجہ سے جھجکتے، حضرت عمر ؓ ان کی ہمت بندھاتے اورفرماتے علم سن کی کمی اورزیادتی پر موقو نہیں ہے تم اپنے نفس کو حقیر نہ بناؤ،(ایضاً:۶۵۱) حضرت عمرؓ اکثر پیچیدہ اورمشکل مسائل ان سے حل کراتے تھے اوران کی فطری ذہانت وطباعی سے خوش ہوکر داد دیتے تھے،انشا اللہ علم وفضل کے بیان میں اس کی تفصیل آئے گی۔ خلیفہ ثالث کے عہد میں عبداللہ بن ابی سرح والیٔ مصر کے زیر اہتمام ۲۷ھ میں افریقہ پر فوج کشی ہوئی، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ایک جماعت کے ساتھ مدینہ منورہ سے چل کر اس مہم میں شریک ہوئے اورایک سفارت کے موقع میں جرجیر شاہِ افریقہ سے مکالمہ ہوا،اس کو ان کی ذہانت وطباعی سے نہایت حیرت ہوئی اور بولا میں خیال کرتا ہوں کہ آپ "حبرعرب" (عرب کے کوئی عالم متبحر) ہیں۔ (اصابۃ تذکرہ عبداللہ بن عباس ؓ) امارت حج چونکہ ۳۵ھ میں حضرت عثمان ؓ محصور تھے اس لیے اس سال وہ خود امارتِ حج کا قرض انجام نہ دے سکے،انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو بلاکر فرمایا، خالدبن عاس کو میں نے مکہ کا والی مقرر کیا ہے،میں ڈرتا ہوں کہ امارتِ حج کے فرائض انجام دینے پر شاید ان کی مزاحمت کی جائے اوراس طرح خانۂ خدا میں فتنہ و فساد اٹھ کھڑا ہو اس لیے میں تم کو اپنا قائم مقام بنا کر بھیجتا ہوں۔ (طبری واقعات ۳۵ھ) حضرت عبداللہ ؓ اس خدمت کو سرانجام دے کر واپس آئے تو مدینہ نہایت پر آشوب ہورہا تھا، خلیفہ ثالث شہید ہوچکے تھے اور حضرت علی ؓ کو بارِ خلافت اٹھانے پر لوگ مجبور کررہے تھے انہوں نے ان سے مشورہ طلب کیا۔ حضرت علیؓ نے کہا:خلافت کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ میں خیال کرتا ہوں کہ اس حادثہ عظیم کے بعد کوئی شخص اس بار کو اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے کہا یہ ضرور ہے کہ اب جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی اس پر خونِ ناحق کا اتہام لگایا جائے گا،تاہم لوگوں کو اس وقت آپ کی ضرورت ہے۔ غرض اہل مدینہ کے اتفاقِ عام سے حضرت علی ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے اورنئے سرے سے ملکی نظم ونسق کا اہتمام شروع ہوا، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے مشورہ دیا کہ سردست موجودہ عمال وحکام برقراررکھے جائیں؛ لیکن جب حضرت علی ؓ نے سختی کے ساتھ اس سے انکار کیا تو انہوں نے دوسرے روز اپنی رائے واپس لے لی اورکہا امیر المومنین میں نے رائے دینے کے بعد غور کیا تو آپ ہی کا خیال انسب نظر آیا، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فوراً اصل حقیقت کوتاڑ گئے اوربولے میرے خیال میں مغیرہ کی پہلی رائے خیر خواہی پر مبنی تھی،لیکن دوسری دفعہ انہوں نے آپ کو دھوکہ دیا۔ حضرت علی نے پوچھاؓ خیر خواہی کیاتھی؟حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے جواب دیا: آپ جانتے ہیں کہ معاویہ اوران کے احباب دنیا دار ہیں،اگر آپ ان کو برطرف کردیں گے تو وہ تمام ملک میں شورش و فتنہ پردازی کی آگ بھڑکادیں گے اوراہل شام وعراق کو خلیفہ ثالث کے انتقام پر اُبھارکر آپ کے خلاف کھڑاکردیں گے۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ تمہاری رائے مصالح دنیاوی کے لحاظ سے نہایت صائب ہے؛ تاہم میرا ضمیر اس کو پسند نہیں کرتا کہ میں جن لوگوں کی بداعمالیوں سے واقف ہوں ان کو اپنے عہدوں پر برقرار رہنے دوں،خدا کی قسم میں کسی کو نہ رہنے دوں گا،اگر سرکشی کریں گے تو تلوار سے فیصلہ کروں گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا:میری بات مانیے گھر کا دروازہ بند کرکے بیٹھ جایے یا اپنی جاگیر پرمنبع چلے جائیے، لوگ تمام دنیا کی خاک چھان ماریں گے،لیکن آپ کے سوا کسی کو خلافت کے لائق نہ پائیں گے،خدا کی قسم اگر آپ ان مصریوں کا ساتھ دیں گے تو کل ضرور آپ پر عثمان ؓ کے خون کا اتہام لگایا جائے گا۔ حضر ت علی ؓ نے کہااب کنارہ کش ہونا میرے امکان سے باہر ہے۔ حضرت علی ؓ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو امیر معاویہ ؓ کے بجائے شام کا والی مقرر کرنا چاہا،لیکن انہوں نے انکار کیا،اوربار بار یہی مشورہ دیا کہ آپ معاویہ ؓ کو برقرار رکھ کر اپنا طرفدار بنالیجئے،یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے برہم ہو کر نہایت سختی سے انکار کردیا اورفرمایا خدا کی قسم یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ (طبری صفحہ ۳۰۸۵) غرض اس تشدد آمیز طرزِ عمل پر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے جو اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ واقعہ بن کر سامنے آیا، تمام ملک میں جناب امیر ؓ کے خلاف مخالفت کی آگ بھڑک اٹھی، ایک طرف حضرت طلحہ ؓ، حضرت زبیر ؓ اورحضرت عائشہ ؓ نے مطالبہ اصلاح وانتقام کا علم بلند کرکے بصرہ پر قبضہ کرلیا اور دوسری طرف امیر معاویہ ؓ نے شام میں ایک عظیم الشان جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔ جنگ جمل حضرت علی ؓ بصرہ کو محفوظ رکھنے کے خیال سے ایک فوجِ گراں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے،لیکن وہ پہلے داعیانِ اصلاح کے قبضہ میں آچکا تھا، اس لیے طرفین نے میدان ذی قار میں صف آرائی کی،حضرت عبداللہ بن عباس ؓ جناب امیر ؓ کی طرف سے اہل حجاز کی افسری پر مامور ہوئے اورجنگ شروع ہونے پر نہایت شجاعت وجانبازی کے ساتھی نبرد آزما ہوئے ،یہاں تک کہ حامیانِ عرشِ خلافت کی فتح پر اس افسوس ناک خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔ ولایت بصرہ بصرہ پر دوبارہ قبضہ ہونے کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ یہاں کے گورنر بنائے گئے اورزیاد ان کے مشیر اوربیت المال کے مہتمم مقرر ہوئے۔ معرکۂ صفین جنگ جمل کے بعد امیر معاویہ ؓ سے معرکہ صفین پیش آیا، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بصرہ سے ایک جماعت فراہم کرکے جناب امیر ؓ کی حمایت میں میدانِ جنگ میں پہنچے اور نہایت جانبازی وپامردی کے ساتھ سرگرمِ کارزار ہوئے، حضرت علی ؓ نے ان کو میسرہ کا افسر مقرر فرمایا تھا۔ چونکہ دنوں طرف سے روزانہ تھوڑی تھوڑی فوجیں نکل کر معرکہ آرا ہوتی تھیں، اس لیے اس جنگ کا سلسلہ طویل عرصہ تک قائم رہا، لیکن رفتہ رفتہ حامیانِ خلافت کا پلہ بھاری ہونے لگا یہاں تک کہ ایک روز شامی فوجوں نے شکست کے خوف سے اپنے نیزوں پر قرآن مجید بلند کر کے صلح کی دعوت دی،گوجناب مرتضیٰ ؓ اوران کے چاہنے والوں نے اپنی فوج کو اس دامِ تزویز سے محفوظ رکھنے کی بے پناہ کوشش کی تاہم مخالف کا جادو چل چکا تھا، ایک بڑی جماعت نے دعوتِ قرآن کو تسلیم کرنے پر اصرار کیا۔ ثالثی اوراس کا حشر غرض جنگ ملتوی ہوگئی اور مسئلہ خلافت کا فیصلہ دوحکم پر محمول ہوا،شامیوں نے حضرت عمروبن العاص ؓ کو حکم مقرر کیا اوراہلِ عراق کی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کا انتخاب ہوا، حضرت علی ؓ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو ثالث بنانا چاہتے تھے؛ لیکن لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اورکہا آپ اورعبداللہ بن عباس ؓ ایک ہی ہیں حکم کو غیر جانبدار ہونا چاہئے۔ دونوں فریق کے اتفاق سے دومۃ الجندل حکمین کے لیے مقامِ اجلاس قرارپایا اورہر ایک نے اپنے حکم کے ساتھ چارہزار آدمیوں کی جمعیت ساتھ کردی، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے ساتھ جو فوج گئی تھی اس کے افسر شریح بن ہانی اورمذہبی نگران حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نہایت نیک طینت وسادہ مزاج تھے وہ جب تخلیہ میں حضرت عمروبن العاص ؓ سے کسی فیصلہ پر متفق ہوکر باہر تشریف لائے تو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے ان سے کہا،خدا کی قسم! مجھے یقین ہے کہ عمرو نے آپ کو دھوکہ دیا ہوگا اگر کسی رائے پر اتفاق ہوا ہو توآپ ہرگز اعلان میں سبقت نہ کیجئے گا وہ نہایت چالاک ہیں،کیا عجب ہے کہ آپ کے بیان کی مخالفت کربیٹھیں، بولے،ہم دونوں ایک ایسی رائے پر متحد ہوئے ہیں کہ اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں، غرض دوسرے روز مسجد میں مسلمانوں کا مجمع ہوا، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے حضرت عمرو بن العاص ؓ کے اصرار پر کھڑے ہوکر یہ متفق علیہ فیصلہ سنایا۔ صاحبو!ہم نے علی ؓ اورمعاویہ ؓ دونوں کو معزول کرکے پھر نئے سرے سے مسلمانوں کو مجلسِ شوریٰ کے انتخاب کا حق دیا وہ جس کو چاہے اپنا امیر بنائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے جو اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ نہایت صحیح ثابت ہوا ،عمروبن العاص ؓ نے قرار داد سے منحرف ہوکر کہا، صاحبو! بیشک علی ؓ کو جیسا کہ ابوموسیٰ نے معزول کیا، میں بھی معزول کرتا ہوں؛ لیکن معاویہ ؓ کو اس منصب پر قائم رکھتا ہوں؛ کیونکہ وہ امیر المومنین عثمان ؓ کے ولی اورخلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ ؓ اس خلاف بیانی پر ششدرہ گئے،چلاکرکہنے لگے یہ کیا غداری ہے؟ یہ کیا بے ایمانی ہے؟افسوس !ابن عباس ؓ نے مجھے عمروکی غداری سے ڈرایاتھا؛لیکن میں نے اس پر اطمینان رکھا،مجھے کبھی یہ گمان نہ تھا کہ وہ مسلمانوں کی خیر خواہی پر کسی چیز کو ترجیح دیں گے، غرض اسی ثالثی نے گتھی کو سلجھانے کے بجائے اورزیادہ الجھادیا،جناب امیر ؓ کے اعوان وانصار میں تفریق واختلاف کی ہوا چل گئی اورایک بڑی جماعت نے لشکر حیدری سے کنارہ کش ہوکر خارجی فرقہ کی بنیاد ڈالی،اس کا عقیدہ تھا کہ معاملاتِ دین میں حکم مقرر کرنا کفر ہے،اس بنا پر دونوں حکم اوران کے انتخاب کرنے والے کافر ہیں۔ (یہ تمام واقعات طبری سے ماخوذ ہیں) حضرت علی ؓ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو خارجیوں کے پاس بھیجا کہ بحث ومباحثہ سے ان کی ضلالت دورکردیں، لیکن قلوب تاریک ہوچکے تھے،آنکھوں پر ضلالت وگمراہی کا پردہ پڑچکا تھا،اس لیے ارشادوہدایت کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔ معرکہ نہروان خارجیوں نے نہروان میں مجمتع ہوکر عملاً سرکشی اختیار کی اورتمام ملک میں قتل و غارتگری کا بازار گرم کردیا، حضرت علی ؓ دوبارہ شام پر فوج کشی کے خیال سے روانہ ہوچکے تھے،ان سرکشوں کا حال سن کر نہروان کی طرف پلٹ پڑے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ گورنری کے عہد پر بصرہ پہنچ گئے تھے، وہ وہاں سے تقریبا ًسات ہزار کی جمعیت فراہم کرکے مقام نخیلہ میں افواجِ خلافت سے مل گئے اورنہروان پہنچ کر نہایت بہادری وپامردی کے ساتھ سرگرم پیکار ہوئے۔ (تاریخ الطوال) ایران کی حکومت جنگِ نہروان نے گوخارجیوں کا زورتوڑدیا تھا تاہم ان کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے فارس،کرمان اورایران کے دوسرے اضلاع میں پھیل کر ایک عام شورش برپا کردی اورذمیوں کو بھڑکا کر آمادہ بغاوت کردیا،چنانچہ ایران کے اکثر صوبوں میں عمال نکال دیئے گئے، اورعجمیوں نے خراج اداکرنے سے قطعاً انکار کردیا،حضرت علی ؓ نے اپنے تمام عمال کو بلا کر اس شورش کے متعلق مشورہ طلب کیا،حضرت عبداللہ ؓ نے کہا میں ایران میں تسلط قائم کرنے کا ذمہ لیتا ہوں؛ چونکہ بصرہ ایران کے باغی اضلاع سے بلکل متصل تھا اوروہ ایک عرصہ سے وہاں کامیابی کے ساتھ گورنری کے فرائض انجام دے رہے تھے،اس لیے حضرت علی ؓ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اوران کو تمام ایران کا حاکم اعلی بنادیا۔ (تاریخ طبری: ۳۴۴۹) بغاوت کا استیصال حضرت عبداللہ ؓ نے بصرہ پہنچ کر زیاد بن ابیہ کو ایک زبردست جمعیت کے ساتھ ایران کی بغاوت فروکرنے پر مامور فرمایا، چنانچہ انہوں نے بہت جلد کرمان، فارس اورتمام ایران میں امن وسکون پیدا کردیا۔ (ایضاً) مکہ میں عزلت نشینی ایک روایت کے مطابق۴۰ھ یعنی حضرت علی ؓ کی زندگی ہی میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بصرہ کے عہد امارت سے مستعفی ہوکر مکہ میں عزلت نشینی اختیار کرلی،وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور ابواسوددئلی قاضیِ بصرہ میں باہم مخالفت تھی، ابو الاسود نے بارگاہ خلافت میں ان کی شکایت لکھی کہ انہوں نے بیت المال میں تصرف بے جا کیا ہے، حضرت علی ؓ نے ان سے جواب طلب کیا تو انہوں نے لکھا: ان الذی بلغک وباطل وانی لماتحت یدی ضابط قائم لدولد حافظ فلا تصدق الظنون آپ کو جو خبر ملی ہے وہ قطعا غلط ہے،میرے قبضہ میں جو کچھ ہے میں اس کا محافظ ونگہبان ہوں، آپ ان بدگمانیوں کو باورنہ فرمائیں۔ حضرت علی ؓ نے اس کے جواب میں ان سے بیت المال کا تمام وکمال حساب طلب کیا،عبداللہ بن عباس ؓ کو یہ ناگوار گذار،انہوں نے برداشتہ خاطر ہوکر لکھا۔ فهمت تعظيمك مرزأة ما بلغك أني رزأته من مال أهل هذا البلد فابعث إلى عملك من أحببت فإني ظاعن عنه والسلام (تاریخ طبری:ذکر ماکان فیھامن الاحداث) میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس شکایت کو کہ میں نے اس شہروالوں کے مال میں کچھ خورد برد کیا ہے،زیادہ اہمیت دینا چاہتے ہیں، اس لیے آپ اپنے کام پر جس کو چاہے بھیج دیجئے میں اس سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔ ایک دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے جب زیادہ باز پرس کی تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ ابھی میں نے اپنا پورا حق نہیں لیا ہے اور بیت المال سے ایک بڑی رقم لے کر مکہ چلے گئے۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ حضرت علی ؓ کی شہادت تک بصرہ کی گورنری پر مامور تھے،البتہ جب حضرت امام حسین ؓ اورامیر معاویہ ؓ میں مصالحت کی سلسلہ جنبانی شروع ہوئی تو انہوں نے بطور حفظ ما تقدم پہلے ہی امیر معاویہ ؓ کو خط لکھ کر جان و مال کی امان حاصل کی اورمکہ جاکر گوشہ نشین ہوگئے۔ (طبری ذکر بیعت حسن بن علی ؓ) حضرت امام حسین ؓکو کوفہ جانے سے منع کرنا ۶۰ھ میں امیر معاویہ ؓ کے بعد جب یزید مسند نشین حکومت ہوا تو شیعانِ علی مرتضیٰ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو اس انقلاب سے فائدہ اٹھانے پر ابھارا اورکوفہ آنے کی دعوت دی، چنانچہ وہ مدینہ سے مکہ آئے اوریہاں سے عازم کوفہ ہوئے۔ چونکہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کوفیوں کی غداری کا دیرینہ تجربہ رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو بہ اصرار کوفہ جانے سے منع کیا اورکہا: عبداللہ بن عباسؓ: اے ابن عم میں اپنے دل کو مطمئن کرنا چاہتا ہوں؛لیکن وہ نہیں ہوتا، اس طریقہ سے جانے میں مجھ کو تمہاری ہلاکت وتباہی کا خوف ہے، اہل عراق نہایت غدار ہیں،تم ان کے قول وقرار پر اعتبار نہ کرو،تم اہل حجاز کے سردار ہو،اس لیے کوفہ جانے سے یہاں مقیم رہنا زیادہ مناسب ہے ،ہاں اگر اہل کوفہ درحقیقت تمہارے عقیدت کیش ہیں تو ان کو لکھو کہ وہ پہلے اپنے ملک سے دشمن کو نکال باہرکریں، پھران کے پاس جاؤ، اگر یہ منظور نہ ہوتو یمن کی راہ لو، وہاں بہت سے قلعے اورگھاٹیاں ہیں ،ملک نہایت وسیع وفراخ ہے اورتمہارے والد کا اثر بھی خاصہ ہے،علاوہ ازیں دشمن کے دورہونے کے باعث لوگوں سےمراسلت ومکاتبت کرسکتے ہو اورتمام ملک میں اپنے داعی پھیلا سکتے ہو،مجھے امید ہے کہ اس طرح زیادہ آسانی واطمینان کے ساتھ تمہارا مقصد حاصل ہوجائے گا۔ حضرت امام حسین ؓ: اے ابن عم! خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ آپ میرے سچے خیر خواہ مہربان ہیں؛لیکن اب سفر کوفہ کی تیاریاں ہوچکی ہیں اور میں نے وہاں جانے کا عزم مصمم کرلیا ہے۔ عبداللہ بن عباس ؓ اگر تم جاتے ہو تو خدارا بیوی،بچوں کو ساتھ نہ لے جاؤ، خدا کی قسم مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تم بھی اس طرح نہ شہید کیے جاؤ جس طرح حضرت عثمان ؓ اپنی عورتوں اوربچوں کے سامنے ذبح کئے گئے۔ لیکن مشیتِ الہی میں کس کو دخل تھا، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے ضدواصرار کے باوجود حضرت امام حسین ؓ اپنے تمام خاندان کے ساتھ راہی کوفہ ہوئے اورمیدان کربلانے وہ خونیں منظر پیش کیا جس سے جگرپاش پاش ہوتا ہے،حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو اپنے خاندان کی تباہی کا جو روح فرسا صدمہ ہوا ہوگا اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے؟ وہ بیس سال سے گوشہ نشین تھے؛ لیکن اس واقعہ کے بعد تمام دنیا ان کے سامنے تیرہ و تار تھی ،بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اخیر عمر میں نابینا ہوگئے تھے۔(اسد الغابہ:۳/۱۹۵)شاید اسی جگر خراش سانحہ کا اثر ہو۔ عبداللہ بن زبیر ؓ کی بیعت سے انکار اسی سال حضرتِ عبداللہ بن زبیر ؓ نے مکہ میں خلافت کا دعویٰ کیا،چونکہ حجازوعراق میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے معتقدین کی ایک بڑی جماعت تھی، اس لیے انہوں نے ان سے بیعت کے لیے بے حد اصرار کیا اوربصورتِ انکار آگ میں جلادینے کی دھمکی دی،لیکن وہ تمام جھگڑوں سے کنارہ کش ہوچکے تھے،اس بناپر انہوں نے نہایت سختی سے انکار کیااور ابوطفیل کو کوفہ بھیج کر اپنے معتقدین سے مدد طلب کی۔ ابو طفیل کا بیان ہے کہ ہم کوفہ سے چارہزار جان نثاروں کی ایک جماعت لےکر نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے تو عبداللہ بن زبیر ؓ نے غلافِ کعبہ تھام کر پناہ حاصل کی، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے مکان کے ارد گرد لکڑیوں کا انبار لگایا جاچکا تھا،ہم نے ان سے کہا اگر آپ اجازت دیجئے تو اس شخص سے مخلوقِ الہی کو نجات دیں، بولے نہیں یہ حرم ہے ،یہاں کشت وخون جائز نہیں ،تم صرف میری حفاظت کرو اورمجھے پناہ دو۔ (اسد الغابہ:۳/۱۹۵) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ درحقیقت بنوامیہ کی بہ نسبت حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتے تھے،ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا،کیا آپ ابن زبیر ؓ سے لڑکر حرم الہی کو حلال کرنا چاہتے ہیں؟ بولے معاذ اللہ!حرم میں خونریزی کرناتو صرف بنوامیہ اورابن زبیر ؓ کی قسمت میں لکھا ہے، میں خدا کی قسم کبھی ایسی جرأت نہ کروں گا،میں نے کہا لوگ ابن زبیر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں،معلوم نہیں ان کو خلافت کا دعویٰ کس بنا پر ہے؟ فرمایا،کیوں نہیں ان کے والد زبیر ؓ حواری رسول ﷺ تھے، ان کے نانا ابوبکر ؓ آنحضرت ﷺ کے رفیق غار تھے، ان کی ماں اسماء ؓ ذات النطاق تھیں، ان کی خالہ عائشہ ؓ ام المومنین تھیں، ان کے والد کی پھوپھی خدیجہ ؓ آنحضرت ﷺ کی حرم محتر تھیں،اوران کی دادی صفیہ ؓ آنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں، پھر وہ ایک خود بھی پاک باز مومن اوقاریِ قرآن ہیں،خدا کی قسم! اگر وہ میرے ساتھ کوئی احسان کریں گے تو ایک رشتہ دار کا احسان ہوگا اوراگر وہ میری پرورش کریں گے تو یہ اپنے ایک ہمسر محترم کی پرورش ہوگی۔ (بخاری :۲/۶۷۲) طائف منتقل ہونا لیکن اس دلی ہمدردی وجانبداری کے باوجود انکار بیعت سے جو مخالفت پیدا ہوگئی تھی، اس کی بنا پر مکہ میں ان کا رہنا خطرہ سے خالی نہ تھا،اس لیے کوفی معاونین کی حفاظت میں مکہ سے طائف منتقل ہوگئے اور بقیہ زندگی کے دن وہیں پورے کئے۔ وفات ۶۸ھ میں پیمانہ ٔحیات لبریز ہوگیا،ایک روز سخت بیمار ہوئے،بسترِ علالت کے ارد گرد احباب ومعتقدین کا ہجوم تھا،بولے میں ایک ایسی جماعت میں دم توڑوں گا جو روئے زمین پر خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب،مشرف ومقرب ہے،اس لیے اگر میں تم لوگوں میں مروں تو یقیناً تم ہی وہ بہتر جماعت ہو، غرض ہفت روزہ علالت کے بعد طائر روح نے قفسِ عنصری چھوڑا، محمد بن حنیفہ نے جنازہ کی نماز پڑھائی اورسپرد خاک کرکے کہا، خدا کی قسم! آج دنیا سے حبرامت اُٹھ گیا، غیب سے ندآئی۔ يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (فجر:۲۸) یعنی اے نفسِ مطمئن اپنے خدا کی طرف خوشی خوشی لوٹ آ (بخاری :۲/۶۷۲) علم وفضل فضل وکمال کے اعتبار سے ابن عباس ؓ اس عہدِ مبارک کے ممتاز ترین علماء میں تھے ان کی ذات ایسی زندہ کتاب خانہ تھی، جس میں تمام علوم ومعارف بہ ترتیب جمع تھے،قرآن،تفسیر،حدیث، فقہ، ادب، شاعری،وغیرہ کوئی ایسا علم نہ تھا جس میں ان کو یدِطولیٰ حاصل نہ رہا ہو۔ تفسیر باالخصوص قرآن پاک کی تفسیر وتاویل میں جو مہارت اورآیات قرآنی کے شانِ نزول اورناسخ و منسوخ کے علم میں جو وسعت ان کو حاصل تھی وہ کم کسی کے حصہ میں آئی، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جو علم و فضل میں ان کے ہمسر تھے،فرماتے تھے کہ عبداللہ بن عباس ؓ قرآن کے کیا اچھے ترجمان ہیں،شقیق تابعی راوی ہیں کہ ایک مرتبہ حج کے موسم میں عبداللہ بن عباس ؓ نے خطبہ دیا اوراس میں سورۂ نور کی تفسیر بیان کی میں کیا بتاؤں وہ کیا تفسیر تھی،اس سے پہلے نہ میرے کانوں نے سنی تھی،نہ آنکھوں نے دیکھی تھی،اگر اس تفسیر کو فارس اورروم والے سن لیتے تو پھر اسلام سے ان کو کوئی چیز نہ روک سکتی ۔ (مستدرک حاکم :۳/۵۳۷) حضرت عمرؓ کی علمی مجلسوں میں یہ برابر شریک ہوتے تھے اور قرآن پاک کے فہم میں وہ اکثر بڑے بڑے صحابہ سے بازی لے جاتے تھے،ایک دن فاروق اعظم کے حلقۂ مجلس میں اکابر صحابہ کا مجمع تھا، ابن عباسؓ بھی موجود تھے،حضرت عمرؓ نے اس آیت کا مطلب پوچھا: "أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ" (البقرۃ:۲۶۶) کیا تم میں سے کوئی اس کو پسند کرےگا کہ اس کا کھجور اورانگور کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں رواں ہوں، اس کے لیے ہر قسم کے پھل اس میں موجود ہوں، اوراس شخص پر بڑھاپا آگیا ہو اوراس کے ناتواں بچے ہوں، اس حالت میں اس باغ میں ایسا بگولہ آیا، جس میں آگ بھری تھی،اس نے باغ کو جلادیا، اسی طریقہ سے اللہ تمہارے لیے کھول کھول کر نشانیاں بیان کرتا ہے، شاید تم بچو۔ لوگوں نے کہا واللہ اعلم!حضرت عمرؓ کو اس بے معنی جواب پر غصہ آگیا، بولے اگر نہیں معلوم تو صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ نہیں معلوم، ابن عباس ؓ جھجکتے ہوئے بولے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، فرمایا تم اپنے کو چھوٹا نہ سمجھو جو دل میں ہو بیان کرو، کہا اس میں عمل کی مثال دی گئی ہے،جواب گو صحیح تھا، تاہم ناکافی تھا، حضرت عمرؓ نے پوچھا کیسا عمل؟ ابن عباس ؓ نے اس سے زیادہ نہ بتاسکے،تب خود حضرت عمرؓ نے بتایا کہ اس میں اس دولت مند کی تمثیل ہے جو خدا کی اطاعت بھی کرتا ہے،لیکن اس کو شیطانی وسوسہ گناہوں میں مبتلاکردیتا ہے،اوراس کے تمام اچھے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ (بخاری جلد،کتاب الفسیر باب قولہ ایود احدکم ان تکون لہ جنۃ الخ) حضرت عمرؓ ان کی ذہانت اورذکاوت کی وجہ سے ان کو شیوخ بدر کے ساتھ مجلسوں میں شریک کرتے تھے،بعض صحابہؓ کو اس سے شکایت پیدا ہوئی، انہوں نے کہا کہ ان کو ہمارے ساتھ مجلسوں میں کیوں شریک کرتے ہو، ان کے برابر تو ہمارے لڑکے ہیں ،فرمایا تم لوگ ان کا مرتبہ جانتے ہو، اس کے بعد ان کی ذہانت کا مشاہدہ کرانے کے لئے ایک دن ان کو بلا بھیجا اورلوگوں سے پوچھا کہ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (جب خدا کی نصرت اورفتح آگئی تو اے پیغمبر تو بہ اور استغفار کرنا) کے بارہ میں تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں؟ کسی نے جواب دیا کہ نصرت و فتح پر ہم کو خدا کی حمد وثناء کا حکم دیا گیا ہے، کوئی خاموش رہا، پھر ابن عباسؓ سے پوچھا کہ ابن عباسؓ! تمہارا بھی یہی خیال ہے ،انہوں نے کہا نہیں پوچھا پھر کیا ہے؟ عرض کیا اس میں آنحضرتﷺ کی وفات کا اشارہ ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا جو تم کہتے ہو یہی میرا بھی خیال ہے۔ (بخاری:۱/۷۴۳،کتاب التفسیر ،باب قولہ فسبح بحمد ربک الخ) درحقیقت حضرت ابن عباسؓ کی فہم تفسیر قرآن میں ایسی دقیقہ رس تھی کہ وہاں تک مشکل سے دوسروں کا خیال پہنچ سکتا تھا؛چنانچہ اس سورہ کا مقصد خاص محرمان اسرار کے علاوہ عام لوگ کم سمجھ سکتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی تو اکثر صحابہؓ میں مسرت وشادمانی کی لہر دوڑ گئی کہ اس میں خدانے فتح و نصرت اور اسلام کی مقبولیت کے ایفائے عہد پر حمدو ثناء کا حکم دیا ہے،لیکن مقرب بارگاہ رسالت، محرمِ اسرار نبوت ،ثانی اثنین فی الغار حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آنکھوں سے جوئے اشک رواں ہوگئی کہ اس کی صبح وصل کا نور چھنتا ہو اورشام فراق کی تاریکی چھاتی ہوئی نظر آگئی تھی۔ (بخاری) بظاہر اس سورہ کو آنحضرتﷺ کی وفات سے کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا ؛لیکن اگر انسان کے مقصدِ حیات کو پیش نظر رکھ کر اس کی ترتیب اوراس کے معنی پر غور کیا جائے تو مطلب واضح ہوجاتا ہے،دنیا میں انسان ایک نہ ایک مقصد لے کر آتا ہے، اور اس کے حصول کے بعد اس کے آنے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے،پھر قیام کی ضرورت باقی نہیں رہتی ،آنحضرتﷺ دین الہیٰ کی تبلیغ کے لئے دنیا میں تشریف لائے تھے وہ پوری ہوچکی تو خدانے فرمایا کہ جب خدا کی مدد اوراس کی فتح آچکی اورتم نے دیکھ لیا لوگ جوق درجوق خدا کے دین میں داخل ہورہے ہیں تو اب تم خدا کی تحمید و تقدیس کرو، اس سے مغفرت چاہو وہ بڑاتوبہ قبول کرنے والا ہے، یعنی خدا کو کچھ کام تمہارے ذریعہ لینا تھا وہ لے چکا اب تم کو اس سے ملنے کی تیار کرنی چاہیے۔ حضرت ابن عباس ؓ تفسیر میں ہمیشہ عام، جامع اورقرینِ عقل شق کو اختیار کرتے تھے،سورۂ کوثر کی تفسیر خود آنحضرت ﷺ سے حضرت عائشہ ؓ اورمتعدد اکابر صحابہ ؓ کے ذریعہ سے منقول ہے،حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے سورۂ کوثر کے نزول کے وقت پوچھا جانتے ہو کوثر کیا چیز ہے، لوگوں نے عرض کیا خدا اوراس کا رسول خوب جانتا ہے، فرمایا خدانے مجھ سے ایک نہر کا وعدہ کیا ہے جس میں بیشمار بھلائیاں ہیں،قیامت کے دن اس حوض پر میری امت آئے گی(مسلم) حضرت عائشہ ؓ اور حضرت انس ؓ کوثر سے مراد نہر لیتے ہیں اورحضرت ابن عباس ؓ "خیر کثیر"مراد لیتے ہیں(بخاری کتاب التفسیر انا اعطینک الکوثر)حضرت ابن عباس ؓ کی اس تفسیر سے عطیہ الہی کی وسعت اورعظمت بہت بڑھ جاتی ہے، اوردوسری تفسیریں بھی اس کے تحت میں آجاتی ہیں، اورقرآن پاک کے سلسلہ کلام کا بھی یہی اقتضا ہے کہ کوثر سے مراد"خیر کثیر" لیا جائے،تاکہ اس کے بعد کفار سے برأت (قل یاایھا الکافرون) اورفتح ونصرت(فتح مکہ) کی بشارت اسی سلسلہ میں داخل ہوجائے۔ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى (شوریٰ:۲۳) کہدواے محمد :تبلیغ رسالت کے عوض میں تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا،صرف یہ کہ قرابت داری کی محبت ملحوظ رکھو۔ عام مفسرین"قربیٰ"سے مراد خاص آنحضرت ﷺ کے اہل بیت لیتے ہیں،لیکن ابن عباس ؓ قریش کے تمام قبائل کو اس میں شامل کرتے ہیں، ایک مرتبہ کسی نے ان سے "مودۃ فی القربی" کی تفسیر پوچھی،سعید بن جبیر بولے اس سے مراد آنحضرت ﷺ کی قرابت ہے،یعنی آپ کے اہل بیت کی قرابت، ابن عباس ؓ نے کہا تم نے جلد بازی سے کام لیا، قریش کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس سے آنحضرت ﷺ کی قرابت نہ رہی ہو، اس آیت میں یہ سب شامل ہیں۔ (ایضاً باب قولہ تعالی قل لا الخ) تفسیر قرآن اورفہم قرآن کے فطری ملکہ کے علاوہ شانِ نزول اورناسخ ومنسوخ کے بارہ میں اس قدر حاضر المعلومات تھے کہ بمشکل کوئی ایسی آیت نکل سکے گی جس کے تمام جزئیات اورمَالَہ وماعلیہ سے پوری ان کو واقفیت نہ ہو۔ لَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا (نساء:۹۴) اے مسلمانو!(اظہار اسلام کے لیے)جو تم کو سلام کرے،اس کو تم خواہ مخواہ نہ کہو تو مسلمان نہیں ہے۔ بظاہر یہ ایک عام حکم ہے اس کی تفسیر بھی ابن عباس ؓ کی ممنونِ احسان ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ کسی غزوہ میں ایک شخص کچھ مالِ غنیمت لیے ہوئے تھا، مسلمانوں کا سامنا ہوا تو اس نے سلام کیا، ان لوگوں نے (شبہ میں) مارڈالا، اورمالِ غنیمت چھین لیا، اس پر یہ حکم نازل ہوا۔ (بخاری باب قولہ تعالی،لاتقولوا،مسنداحمد بن حنبل:۱/۲۲۹) اسی طریقہ سے اس آیت: وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ (حجر:۲۴) ہم نے تم میں سے بعض ان لوگوں کو جو آگے بڑھ کر کھڑے ہوتے ہیں جان لیا ہے اوران کو بھی جو پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ایک خوبصورت عورت جماعت کی نماز میں شریک ہوتی تھی،بعض محتاط اشخاص اگلی صف میں چلے جاتے تھے کہ اس پر نظر نہ پڑے اوربعض دیکھنے کی نیت سے پیچھے رہتے تھے اوررکوع میں بغل کے راستہ سے نظر ڈال لیتے تھے،ان کی اس خیانت پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد بن حنبل :۱/۳۰۵) قرآن مجید کا یہ حکم : "لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ" (آل عمران:۱۸۸) اورجو لوگ اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں اورجو نہیں کیا ہے اس پر تعریف چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کی نسبت ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے،بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ بظاہر انسانی فطرت کے کس قدر خلاف ہے،کیونکہ ہرشخص اپنے کیے پر خوش ہوتا ہے اورجو نہیں کرتا ہے اس پر بھی تعریف کاخواہاں رہتا ہے، اگر بہت بلند اخلاق کا شخص ہے تو زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہ دوسرا جذبہ اس میں نہ ہوگا، اس تہدیدی حکم کے استفسار کے لیے مروان نے اپنے دربان کو عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس بھیجا کہ ان سے جاکر پوچھو کہ ہم میں سے کون ایسا ہے،جس کے دل میں یہ جذبہ نہ ہو، اس حکم کے مطابق تو ہم سب عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرت ابن عباس ؓ نے جواب دیا کہ اس کو ہم لوگوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک خاص موقعہ پراہل کتاب کے بارہ میں نازل ہوئی تھی،پھر یہ آیت۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ (آل عمران:۱۸۷) جب خدانے ان لوگوں سے جن کو کتاب دی ہے یہ وعدہ لیا کہ وہ اسے لوگوں کو کھول کھول کے سنائیں گے۔ تلاوت کرکے کہا کہ ان کو یہ حکم ملاتھا، مگر انہوں نے بالکل اس کے برعکس عمل کیا، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ان سے کسی بات کے متعلق استفسار فرمایا، انہوں نے اصل جواب جوان کی کتاب میں تھا چھپا ڈالا اوراپنے حسب منشاء دوسرافرضی جواب دے کر آنحضرت ﷺ پر ظاہر کیا کہ انہوں نے اصل جواب دیا ہے اور پھراس فعل پر آنحضرت ﷺ سے خوشنودی کے طالب ہوئے اوراپنی اس چالاکی پر شاداں وفرحاں ہوئے،اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جو لوگ اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں(جیسا کہ اہل کتاب اپنی چالاکی پر خوش ہوئے تھے) اورجو نہیں کیا ہے اس پر تعریف کے خواہاں ہوتے ہیں (جیسا کہ یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی خوشنودی کے خواہاں ہوئے تھے) تو ایسے لوگوں کے لیے عذاب سے چھٹکارا نہیں ہے اوران کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (مسند احمد بن حنبل :۱/۲۹۸) ذیل کے واقعہ سے ان کی فراست ،طباعی،دقیقہ سنجی،اور قوتِ استنباط کا اندازہ ہوگا، ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے صحابہ ؓ کے مجمع میں سوال کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے اخیر عشرہ کی ایک طاق رات ہے،تم لوگ اس سے کون سی طاق رات سمجھتے ہو؟ کسی نے ساتویں کسی نے پانچویں،کسی نے تیسری بتائی،ابن عباس ؓ سے فرمایا تم کیوں نہیں بولتے،عرض کیا اگر آپ فرماتے ہیں تو مجھ کو کیا عذر ہوسکتا ہے،حضرت عمرؓ نے فرمایا میں نے بولنے ہی کے لیے تمہیں بلایا ہے،کہا میں اپنی ذاتی رائے دوں گا،فرمایا ذاتی رائے تو پوچھتا ہی ہوں،کہا میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات کے عدد کو بہت اہمیت دی ہے ،چنانچہ فرمایا ہے کہ سات آسمان، سات زمین، ایک دوسرے موقعہ پر فرمایا ہے کہ ہم نے زمین کو پھاڑا اوراس میں غلہ،انگور،شاخ، زیتون ،کھجور،کے درخت،گنجان باغ، اورمیوے اُگائے،یہ بھی سات باتیں ہیں، حضرت عمرؓ نے یہ جواب سن کر فرمایا کہ تم لوگ اس بچہ سے بھی گئے گذرے ہوئے،جس کے سرکے گوشہ بھی ابھی درست نہیں ہوئے،یہ جواب کیوں نہ دیا،(مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۵۳۹)گو بعض دوسرے صحابہ ؓ نے بھی سات کی تعیین کی تھی،لیکن کسی استدلال کے ساتھ نہیں، سبھوں نے ایک ایک طاق رات اپنے اپنے قیاس و فہم کے مطابق لی، کسی نے سات کی شب بھی لی، لیکن ابن عباس نے قرآن سے اس کی تائید پیش کی،حضرت ابن عباس ؓ تفسیر میں نہایت دلیری سے کام لیتے تھے، بعض محتاط صحابہ ؓ اس دلیری کو ناپسند کرتے تھے، لیکن بالآخر ان کو بھی ان کی مہارتِ تفسیر کا اعتراف کرناپڑا۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عمر ؓ کے پاس ایک شخص آیا، اوراس نے آیت "کانتا رتقا ففتقنا" کا مطلب پوچھا، انہوں نے امتحان کی غرض سے ابن عباس ؓ کے پاس بھیج دیا کہ ان سے پوچھ کر بتاؤ، اس نے جاکر پوچھا،انہوں نے بتایا کہ آسمان کا فتق یہ ہے کہ پانی نہ برسائے زمین کا فتق یہ ہے کہ نباتات نہ اگائے،سائل نے واپس آکر یہ جواب حضرت ابن عمرؓ کو سنایا انہوں نے کہا ابن عباس ؓ کو نہایت سچا علم مرحمت ہوا ہے، مجھ کو تفسیر قرآن میں ان کی دلیری پر حیرت ہوتی تھی ؛لیکن اب معلوم ہوا کہ درحقیقت علم ان ہی کا حصہ ہے،(اصابہ :۴/ ۹۶) حضرت ابن عمرؓ اس کے بعد قرآن کے سائلین کو خود جواب نہ دیتے تھے،بلکہ ابن عباس ؓ کے پاس بھیج دیتے تھے،ایک مرتبہ عمروبن حبشی نے ایک آیت کے متعلق ان سے استفسار کیا، انہوں نے کہا ابن عباس ؓ سے پوچھو، قرآن کے جاننے والے جو لوگ باقی رہ گئے ہیں،ان میں سب سے زیادہ معلومات وہی رکھتے ہیں۔ (کتاب الناسخ والمنسوخ ابو جعفر نحاس) علومِ قرآنی میں علم النسخ کی اہمیت بالکل عیاں ہے، حضرت ابن عباس ؓ اس بحرزخار کے بھی شناور تھے، اورتمام ناسخ اورمنسوخ احکام ان کے ذہن میں مستحضر تھے، یہ اس علم کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بغیر اس پر حاوی ہوئے وعظ کی لب کشائی کی اجازت نہ دیتے تھے، ایک مرتبہ کسی راستہ سے گذر رہےتھے، ایک اور واعظ وعظ کہہ رہا تھا، اس سے پوچھا ناسخ منسوخ جانتے ہو کسے کہتے ہیں، اس نے کہا نہیں ،فرمایا: تو تم خود بھی ہلاک ہوئے اور دوسروں کو بھی ہلاک کیا۔ (کتاب النساسخ والمنسوخ ابو جعفر نحاس) گو حضرت ابن عباس ؓ قرآن کی تعلیم میں بخل نہ کرتے تھے، اوران کا دروازہ ہر طالب قرآن کے لیے کھلا ہوا تھا، تاہم وہ اس نکتہ سے بھی بے خبر نہ تھے کہ جب کثرت سے قرآن کی اشاعت ہوگی اورہر کس وناکس فہم قرآن کا مدعی ہوجائے گا توامت میں اختلاف کا دروازہ کھل جائے گا، ان کی اس نکتہ رسی کا اعتراف حضرت عمرؓ کو بھی کرنا پڑا،حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں سارے ممالک محروسہ میں حافظِ قرآن مقرر کردیئے تھے کہ وہ مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم دیں، ایک دن ابن عباس ؓ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، حاکم کوفہ کا خط آیا کہ کوفہ والوں نے اتنا اتنا قرآن پڑھ لیا، حضرت عمرؓ نے یہ مژدہ سنکر تکبیر کا نعرہ لگایا،لیکن ابن عباس ؓ بولے کہ اب ان میں اختلاف کا تخم پڑگیا، حضرت عمرؓ نے غصہ سے پوچھا تم کو کیسے معلوم ہوا، اس واقعہ کے بعد یہ گھر چلے آئے،لیکن حضرت عمرؓ کے دل میں ان کا کہنا کھٹکتا رہا،چنانچہ آدمی بھیج کر ان کو بلا بھیجا، انہوں نے عذر کردیا،دوبارہ پھر آدمی بھیجا کہ تم کو آنا ہوگا،اس تاکید پر یہ چلے آئے،حضرت عمرؓ نے پوچھا تم نے کوئی رائے ظاہر کی تھی، انہوں نے کہا پناہ بخدا اب میں کبھی دوبارہ کوئی خیال نہ ظاہر کروں گا، حضرت عمرؓ نے کہا میں طے کرچکا ہوں کہ جو تم نے کہا تھا اس کو کہلوا کر رہوں گا، اس اصرار پر انہوں نے کہا کہ آپ نے جب کہا کہ میرے پاس خط آیا ہے کہ کوفہ والوں نے اتنا اتنا قرآن یاد کرلیا، اس پر میں نے کہا کہ ان لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگیا، حضرت عمرؓ نے کہا یہ تم نے کیسے جانا، انہوں نے سورۂ بقرہ کی یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ، وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ، وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (بقرہ:۲۰۴تا ۲۰۶) اے محمد لوگوں میں سے بعض ایسے آدمی بھی ہیں جن کی باتیں تم کو دنیاوی زندگی میں بھلی معلوم ہوتی ہیں اوروہ اپنی دلی باتوں پر خداکو گواہ بناتا ہے،حالانکہ وہ دشمنوں میں بڑا جھگڑالو ہے اورجب وہ تمہارے پاس لوٹ کر جائے تو ملک میں پھرے تاکہ اس میں فساد پھیلائے اورکھیتی اورنسل کو تباہ کرے اوراللہ فساد کو پسند نہیں کرتا اورجب اس سے کہا جائے کہ خداسے ڈرو تو اس کو عزت نفس گناہ پر آمادہ کرے،ایسے شخص کے لیے جہنم کافی ہے اوروہ بہت بُراٹھکاناہے اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی رضاجوئی کے لیے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اوراللہ بندوں پر شفقت کرنے والا ہے۔ یہ آیتیں سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم نے سچ کہا۔ (مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۵۴۰ شرط شیخین) حدیث حضرت ابن عباس ؓ مخصوص صحابہ ؓ میں ہیں جو علم حدیث کے اساطین سمجھے جاتے ہیں،اگر حدیث کی کتابوں سے ان کی روایتیں علیحدہ کرلی جائیں تو اس کے بہت سے اوراق سادہ رہ جائیں گے، ان کی مرویات کی مجموعی تعداد ۲۶۶۰ ہے، ان میں ۷۵ متفق علیہ ہیں،یعنی بخاری اورمسلم دونوں میں ہیں، ان کے علاوہ ۱۸ روایتوں میں بخاری منفرد ہیں اور۴۹ میں مسلم۔ (تہذیب الکمال :۲۰۲) ان کی روایات کی کثرت اور معلومات کی وسعت خود ان کی ذاتی کاوش وجستجو کا نتیجہ ہیں، گوبہت سی روایتیں براہِ راست خود زبانِ وحی والہام سے لی ہیں، لیکن آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر۱۴، ۱۵ سال سے زائد نہ تھی، ظاہر ہے کہ اس عمر میں علم کا اتنا سرمایہ کہاں سے حاصل کرسکتے تھے، ان کے ذوقِ علم اور تلاش وجستجو کا اندازہ ذیل کے واقعات سے ہوگا۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ایک انصاری سے کہا کہ آنحضرت ﷺ وفات پاگئے، مگر آپ ﷺ کے اصحاب زندہ ہیں چلو ان سے تحصیل علم کریں، انہوں نے کہا ابن عباس ؓ! مجھو کو تم پر حیرت ہوتی ہے،تم دیکھتے ہو کہ لوگ علم میں خود تمہارے محتاج ہیں، پھر تم دوسروں کے پاس جاتے ہو،یہ جواب سن کر ان کو چھوڑدیا اورتنہا جہاں کہیں سراغ ملتا کہ فلاں شخص نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے،فوراً مشقت اٹھا کر اس کے پاس پہنچتے اوراطلاع دیتے وہ گھر سے نکل آتا اورکہتا کہ تم نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے، وہ کہتا: اے ابن عم رسول ﷺ !آپ نے کیوں زحمت گوارا کی،کسی دوسرے کو بھیج دیا ہوتا، کہتے نہیں یہ میرا فرض تھا، اس طریقہ سے عرب کے گوشہ گوشہ سے ایک ایک دانہ چن چن کر خرمنِ علم کا انبار لگایا، جب ان کے فضل وکمال کا چرچا زیادہ ہوا،اس وقت ان انصاری نے جنہوں نے ساتھ چلنے سے انکار کردیا تھا،ندامت کے ساتھ اقرار کیا،ابن عباس ؓ ہم سے زیادہ عقل مند تھے۔ (مستدرک حاکم جلد ۳ فضائل ابن عباس ؓ سعی ابن عباس ؓ فی طالب العلم) ابوسلمہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓ کہتے تھے کہ جس شخص کے متعلق مجھ کو پتہ چلتا کہ اس نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے تو میں خود اس کے مکان پر جاکر حاصل کرتا ؛حالانکہ اگر میں چاہتا تو راوی کو اپنے یہاں بلواسکتا تھا۔ (تذکرہ الحفاظ :۱/۵) ابو رافع ؓ آنحضرت ﷺ کے غلام تھے،اس لیے ان کو آنحضرت ﷺ کے افعال دیکھنے اوراقوال سننے کا زیادہ موقع ملتا تھا،ابن عباس ؓ ان کے پاس کاتب لے کر آتے اور پوچھتے کہ آنحضرت ﷺ نے فلاں فلاں دن کیا کیا کیا،ابو رافع ؓ بیان کرتے اورکاتب قلمبند کرتا جاتا۔ (اصابہ:۴/۹۶) اسی تلاش وجستجو نے ان کو اقوال وافعال نبوی کا سب سے بڑا حافظ بنادیا تھا،اکثراکابر صحابہ ؓ کو جوعمر اورمرتبہ میں ان سے کہیں زیادہ تھے،ان کے مقابلہ میں اپنے قصورِعلم کا اعتراف کرنا پڑتا تھا،یہ فتویٰ دیتے تھے کہ حائضہ طواف رخصت کیے بغیر لوٹ جائے،حضرت زید بن ثابت ؓ انصاری کاتب وحی کو معلوم ہوا تو انہوں نے پوچھا تم حائضہ عورت کو یہ فتویٰ دیتے ہو، انہوں نے کہا ہاں، زید بن ثابت ؓ نے کہا یہ فتویٰ نہ دیا کرو، انہوں نے کہا میں تو یہی دوں گا، اگر آپ کو شک ہے تو فلاں انصاریہ سے جاکر پوچھ لیجئے کہ اس کو یہ حکم دیا تھا یا نہیں،زید بن ثابت ؓ نے جاکر پوچھا تو ابن عباس ؓ کا فتویٰ صحیح نکلا، چنانچہ ہنستے ہوئے واپس آئے اور بولے تم نے سچ کہا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل :۱/ ۲۲۶) اسی طریقہ سے ایک مرتبہ ان میں اور مسوربن مخرمہ میں محرم کے سردھونے کے بارہ میں اختلاف ہوا، یہ کہتے تھے محرم سردھوسکتا ہے،مخرمہ اس کے خلاف تھے، اس پر عبداللہ بن عباس ؓ نے عبداللہ بن حنین کو حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے پاس تحقیق کے لیے بھیجا، یہ اس وقت کپڑا آڑ کیے ہوئے کنوئیں پر نہارہے تھے، عبداللہ نے سلام کیا،انہوں نے پوچھا کون؟ کہامیں ہوں عبداللہ بن حنین،ابن عباس ؓ نے پوچھا ہے کہ آنحضرت ﷺ احرام کی حالت میں کسی طرح سردھوتے تھے، ابوایوب ؓ نے عملا ًنقشہ کھینچ کر بتادیا۔ (ابوداؤد کتاب المناسک باب الحرم یضل راسہ) جب صحابہ کرام ؓ میں آنحضرت ﷺ کے کسی قول وفعل کے بارہ میں اختلاف ہوتا تو وہ ابن عباس ؓ کی طرف رجوع کرتے، اس بارہ میں کہ آنحضرت ﷺ نے کہاں سے احرام باندھا؟ صحابہ ؓ میں بہت اختلاف ہے،سعید بن جبیر نے ابن عباس ؓ سے کہا کہ ابو العباس مجھ کو حیرت ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اصحاب ؓ میں آپ کے احرام باندھنے کی جگہ کی تعیین میں بہت زیادہ اختلاف ہے،انہوں نے کہا میرے معلومات اس بارہ میں سب سے زیادہ ہیں،چونکہ آنحضرت ﷺ نے ایک ہی حج کیا ہے،اس لیے لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگیا، اس کا سبب یہ ہے کہ جب آپﷺ نے ذو الحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد احرام باندھا اورلبیک کہنا شروع کیا،جولوگ اس وقت موجود تھے انہوں نے اسی کو یادرکھا،پھر جب آپ ﷺ اونٹنی پر سوار ہوئے اور وہ چلی تو پھر آپ نے لبیک کہا،اس وقت جو لوگ موجود تھے وہ یہ سمجھے کہ آپ نے یہیں ابتدا کی ہے،چنانچہ وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب آپﷺ اونٹنی پر سوار ہوکر چلے اسی وقت سے لبیک کہنا شروع کیا، اس کے بعد جب آپ ﷺ بلندی پر چڑھے اس وقت سے کہنا شروع کیا،لیکن میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ نے مسجد میں احرام باندھا،اس کے بعد جب اونٹنی چلی تب، اورجب بلند مقام پر چڑھے تب دونوں مرتبہ لبیک کہا۔ (ابو داؤد کتاب المناسک باب وقت الاحرام) روایتوں میں احتیاط عموماًکثیر الروایت راویوں کے متعلق یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ روایت کرنے میں محتاط نہیں ہوتے اوررطب ویابس کا امتیاز نہیں رکھتے،لیکن ابن عباس ؓ کی ذات اس سے مستثنی اوراس قسم کے شکوک وشبہات سے ارفع واعلی تھی، وہ حدیث بیان کرتے وقت اس کا پورا پورا لحاظ رکھتے تھے کہ کوئی غلط روایت آنحضرت ﷺ کی جانب نہ منسوب ہونے پائے،جہاں اس قسم کا کوئی خفیف سا بھی خطرہ ہوتا، وہ بیان نہ کرتے تھے، چنانچہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہم اس وقت تک آنحضرت صلی اللہ علی وسلم کی حدیث بیان کرتے تھے،جب تک جھوٹ کا خطرہ نہ تھا، لیکن جب سے لوگوں نے ہر قسم کی رطب ویابس حدیثیں بیان کرنا شروع کردیں، اس وقت سے ہم نے روایت ہی کرنا چھوڑدیا،(مسند دارمی باب فی الحدیث عن الثقات)لوگوں سے کہتے کہ تم کو قال رسول اللہ کہتے وقت یہ خوف نہیں معلوم ہوتا کہ تم پر عذاب نازل ہوجائے،یا زمین شق ہوجائے اورتم اس میں سما جاؤ،(ایضاباب ماتیقی من تفسیر حدیث النبی ﷺ )اسی احتیاط کی بناپر فتویٰ دیتے تو آنحضرت ﷺ کا نام نہ لیتے تھے،(مسند احمد ابن حنبل جلد۱ صفحہ ۳۵۰) کہ آپ کی طرف نسبت کرنے کا بار نہ اٹھانا پڑے۔ حلقہ درس حضرت ابن عباس ؓ کاحلقہ درس بہت وسیع تھا، سینکڑوں طلب گار روزانہ ان کے خرمنِ کمال سے خوشہ چینی کرتے تھے، ان کی زندگی کا ہر لمحہ درس و تدریس کے لیے وقف تھا کبھی کوئی شخص ان کے چشمہ فیض سے ناکام واپس نہ ہوا، اس عام فیض کے علاوہ بعض مجلسیں خصوصیت کے ساتھ درس وتدریس اورعلمی مذاکروں کے لیے مخصوص تھیں اوران میں باقاعدہ ہر علم وفن کی جدا جدا تعلیم ہوتی تھی، ابوصالح تابعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ کی طرف ایک ایسی علمی مجلس دیکھی کہ اگر سارا قریش اس پر فخر کرے تو بھی بجا ہوگا،اس مجلس کا یہ حال تھا کہ عبداللہ بن عباس ؓ کے مکان کے سامنے آدمیوں کا اتنا اژدحام تھا کہ ان کی کثرت سے آمدورفت مشکل تھی، میں نے جاکر اس اژدحام کی اطلاع دی تو مجھ سے پانی مانگا،میں پانی لایا، انہوں نے وضو کیا، وضو کرکے بیٹھ گئے، پھر مجھ سے کہا جاؤ قرآن کے جس شعبہ کے متعلق جو سائل ہوں ان کو اطلاع دو، میں نے اطلاع دی،دیکھتے دیکھتے سائلوں سے سارا گھر اورتمام حجرے بھرگئے،جس نے جو سوال کیا اس کے سوال سے زیادہ اس کو جواب دے کر رخصت کیا، پھر مجھ سے کہا جاؤ حرام وحلال اورفقہ کے سائلوں کو بلاؤ میں نے ان لوگوں کو اطلاع دی،چنانچہ ان کا جم غفیر آیا اور جن کو جو سوالات کرنا تھے پیش کیے،فرداً فرداً سب کو نہایت تشفی بخش اوران کے سوالات سے زیادہ جواب دے کر رخصت کیا، پھر فرمایا کہ اب تمہارے دوسرے بھائیوں کی باری ہے،اس کے بعد فرائض وغیرہ کے سائلوں کو بلایا، ان کی تعداد بھی اتنی بڑی تھی کہ پورا گھر بھر گیا،ان کے پیشرؤوں کی طرح ان کے سوالات سے زیادہ جوابات دے کر فارغ ہوئے تو مجھے سے کہا عربی زبان، شعر وشاعری اورادب وانشاء کے سائلوں کو بلا لاؤ، چنانچہ میں نے اطلاع دی ،یہ لوگ آئے،ان کے ہجوم کا بھی وہی حال تھا، ان لوگوں نے جو سوالات کیے،ان کے سوالات سے زیادہ جوابات دیئے،ابوصالح یہ واقعہ بیان کرکے کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کی اتنی بڑی مجلس نہیں دیکھی تھی۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۳۸) درس کے ان مستقل حلقوں کے علاوہ کبھی کسی نماز کے بعد تقریر اورخطبہ کے ذریعہ سے تعلیم دیتے ،عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ابن عباس ؓ نے عصر کے بعد ہم لوگوں کے سامنے تقریر کی اوراتنی دیر تک کرتے رہے کہ آفتاب غروب ہوگیا اورتارے نکل آئے، لوگوں نے نماز نماز کی آوازیں بلند کرنا شروع کیں، ایک تمیمی نے مسلسل نماز کہنا شروع کیا،ابن عباس ؓ جھنجھلا کر بولے "لاام لک" تو مجھ کو سنت کی تعلیم دیتا ہے میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا ہے، آپﷺ ظہر، عصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھتے تھے، عبداللہ بن شقیق کے دل میں یہ بات کھٹکتی رہی، انہوں نے جاکر حضرت ابوہریرہ ؓ سے پوچھا حضرت ابوہریرہؓ نے کہا ہاں صحیح ہے۔ (مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصر ہا،باب الجمع بین الصلوٰتین فی الحضر) حضر کے علاوہ سفر میں بھی ان کا یہ چشمہ فیض جاری رہتا تھا، چنانچہ جب چند دنوں کے لیے حج کی غرض سے مکہ معظمہ تشریف لے جاتے تھے،اس وقت بھی ان کی قیامگاہ طالبانِ علم کی درسگاہ بن جاتی۔ (استعاب :۱/ ۳۵۳) ترجمان کا تقرر اسلامی فتوحات کے بعد جب اسلام عرب کے حدود سے نکل کر ایران ومصروغیرہ میں پھیلاتو وہ قومیں اسلام کے حلقہ اثر میں آئیں جن کی زبان عربوں سے جدا تھی،ابن عباس ؓ نے ان کی آسانی کے لیے مخصوص ترجمان رکھے کہ ان کو سوال میں زحمت نہ ہو۔ (مسلم:۱ ) تلامذہ ان کی اس فیض رسانی و علم وعرفان کی بارش نے ان کے تلامذہ کا دائرہ بہت وسیع کردیا تھا، جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے،مشہور تلامذہ اورشاگردوں کی مختصر فہرست یہ ہے۔ بیٹوں میں محمد اور علی،پوتوں میں محمد بن علی، بھائیوں میں کثیر، بھتیجوں میں عبداللہ بن عبیداللہ، اورعبداللہ بن معبد، عام لوگوں میں عبداللہ بن عمر، ثعلبہ بن حکم، مسور بن مخرمہ، ابو الطفیل، ابوامامہ بن سہل،سعید بن مسیب، عبداللہ بن حارث، عبداللہ بن عبداللہ، عبداللہ بن شداد، یزید بن اصم، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابو حمزہ ضبعی، ابومجلز لاحق بن حمید، ابورجاء عطاردی، قاسم بن محمد، عبید بن اسباق، علقمہ بن وقاص، علی بن حسین، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، عکرمہ،عطاء،طاؤس،کریب،سعید بن جبیر، مجاہد ،عمروبن دینار، ابوالجوزاء، اوس بن عبداللہ ربعی، ابوالشعثا، جابر بن زید، بکر بن عبداللہ مزنی، حصین بن جندب، حکم بن اعرج، ابوالجویرہ، حطان بن خفاف، حمید بن عبدالرحمن بن عوف، رفیع ابوالعالیہ،مقسم ،ابوصالح السمان ،سعد بن ہشام، سعید بن ابوالحسن بصری، سعید بن حویرث، سعید بن ابی ہند، ابوالحباب سعید بن یسار، سلیمان بن یسار، ابوزمیل سماک بن ولید، سنان بن سلمہ، صہیب ،طلحہ بن عبداللہ بن عوف، عامر الشعبی ،عبداللہ بن ابی ملیکہ، عبداللہ بن کعب بن مالک، عبداللہ بن عبید، عبید بن حنین، عبدالرحمن بن مطعم، عبدالرحمن بن وعلہ، عبدالعزیز بن رفیع، عبدالرحمن بن عاص نخعی، عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور، عبیداللہ بن یزید الملکی، علی بن ابو طلحہ، عمرو بن مرہ، عمرو بن میمون،عمران بن حطان ،عماربن ابی عمار، محمد بن عبادبن جعفر، مسلم بن صبیح، سلم القریر، موسیٰ بن سلمہ، میمون بن مہران جزری، نافع بن جبیر بن مطعم، ناعم،نضر بن انس، یحییٰ بن یعمر، ابوالبختری الطائی، ابوالحسن الاعرج،یزید بن ہرمز، ابوحمزہ قصاب، ابوالزبیرمکی، ابوعمر البہرانی، ابو المتوکل الناجی،ابولنضرہ العبدی، فاطمہ بنت حسین، محمد بن سیرین وغیرہم۔(تہذیب التہذیب) فقہ وفرائض حضرت ابن عباس ؓ کے فتاویٰ فقہ کی سنگ بنیاد ہیں، اس کی تشریح کے لیے ایک دفتر چاہئے،اس لیے ہم ان کو قلم انداز کرتے ہیں، تاہم ان کی فقہ دانی کا سرسری اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ابوبکر محمد بن موسیٰ خلیفہ مامون الرشید کے پر پوتے نے جو اپنے زمانہ کے امام تھے،ان کے فتاویٰ ۲۰ جلدوں میں جمع کیے تھے۔ (اعلام الموقعین:۱/ ۱۳) مکہ میں فقہ کی بنیادان ہی نے رکھی،وہ تمام فقہاء جن کا سلسلہ مکہ کے شیوخ تک پہنچتا ہے،وہ سب بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کے خوشہ چین تھے، ایک فقیہ ومجتہد کے لیے قیاس ناگزیر ہے،کیونکہ وقتاً فوقتاً بہت سے ایسے نئے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں جو حضرت حامل شریعت علیہ السلام کے عہد میں نہ تھے اوران کے متعلق کوئی صریح حکم موجود نہیں ہے، ایسے وقت میں مجتہد کا یہ فرض ہے کہ وہ منصوصہ احکام اوران میں علت مشترک نکال کر ان پر قیاس کرکے حکم صادر کرے، ورنہ فقہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا، حضرت ابن عباس ؓ کے سامنے جب کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو وہ پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتے، اگر اس سے جواب مل جاتا تو فبہا، ورنہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی طرف رجوع کرتے، اگر اس سے بھی مقصد برآری نہ ہوتی،توحضرت ابوبکر ؓ وعمرؓ کا فیصلہ دیکھتے، اگر اس سے بھی عقدہ حل نہ ہوتا تو،پھر اجتہاد کرتے،(اعلام الموقعین:۱/۱۳) مگر اسی کے ساتھ قیاس بالرائے کو برا سمجھتے تھے،چنانچہ وہ اس کی مذمت میں کہتے ہیں کہ جو شخص کسی مسئلہ میں ایسی رائے دیتا ہے جو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ میں نہیں ہے، تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب وہ خدا سے ملے گا تو اس کے ساتھ کیا معاملہ پیش آئے گا۔ (اعلام الموقعین:۱/۳) حضرت علی ؓ کے عہدِ خلافت میں کچھ لوگ مرتد ہوگئے، حضرت علی ؓ نے ان کو زندہ جلادیا، ابن عباس ؓ کو معلوم ہواتو کہا اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو جلانے کی بجائے قتل کی سزا دیتا؛کیونکہ میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہےکہ جو شخص مذہب تبدیل کرے اس کو قتل کردو، پھر فرمایا کہ :جو عذاب خدا کا مخصوص ہے اس کو تم لوگ نہ دو، یعنی آگ میں کسی کو نہ جلاؤ،حضرت علی ؓ کو معلوم ہوا تو فرمایا ابن عباس ؓ پر افسوس ہے۔ (مستدرک حاکم:۳ /۵۳۹) فقہ کے ساتھ ساتھ فرائض میں بھی درک تھا، اگرچہ وہ اس فن میں حضرت معاذ بن جبل ؓ ،زید بن ثابت ؓ اورعبداللہ بن مسعود ؓ کے برابر نہ تھے، تاہم عام صحابہ ؓ میں حضرت ابن عباس ؓ بھی اس فن میں ممتاز درجہ رکھتے تھے، عبید اللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ حساب اورفرائض میں ابن عباس ؓ ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ (اسد الغابہ:۲/۱۹۳) دیگر علوم ان مذہبی علوم کے علاوہ ان تمام علوم میں جو اس زمانہ میں لازمہ شرافت سمجھے جاتے تھے کافی دستگاہ اورناقدانہ نظر رکھتے تھے، اوپر گذرچکا ہے کہ مذہبی علوم کے علاوہ ان کے حلقۂ درس میں عربی شعروشاعری اورادب وانشاء کے طالبین بھی آتے تھے،عربوں میں شاعری لازمہ شرافت تھی،بالخصوص قریش کی آتش بیانی مشہورتھی، ابن عباس ؓ نہ صرف سخن سنج تھے، بلکہ خود بھی اشعار کہتے تھے، ابن رشیق نے ان کے یہ چند اشعار کتاب العمدہ میں نمونہ کے طورپر نقل کیے ہیں۔ اذاطارقات الھم ضاجعت الفتی واعمل فکر اللیل واللیل عاکر جب رات کے آنے والے غم کسی جواں مرد کے ساتھ ہم خواب ہوتے ہیں اورشب کے آخر حصہ میں تفکرات اپنا عمل کرتے ہیں۔ وباکرنی فی صاحبۃ لم یجد بھا سوای ولا من نکبۃ الدھر ناصر اوروہ صبح کو میرے پاس اسی حالت میں اپنی حاجت لے کر آتا ہے کہ اس میں اوراس کی زمانہ کی بدبختیوں میں اس کا کوئی مدد گار نہیں ہوتا۔ فرجت بمالی ھمہ من مقامہ ونائلہ ھمّ طروق مسام تو میں اپنے مال کے ذریعہ اس کا غم دور کرتا ہوں اوراس کے رات کی آنے والی تفکرات دور ہو جاتے ہیں۔ وکان لہ فضل علی بظنّہ بی الخیرانی للذی ظن شاکر اورمیں اسی کا ممنون ہوں کیونکہ وہ میرے ساتھ حسن ظن رکھتا ہے اور جو شخص میرے ساتھ حسن ظن رکھتا ہے اس کا میں مشکور ہوتا ہوں۔ شعر گوئی کے ساتھ فصیح و بلیغ بھی تھے، اگرچہ خطیب کی حیثیت سے انہوں نے کوئی شہرت نہیں حاصل کی ؛تاہم ان کی روزانہ کی گفتگو بھی ادب کی چاشنی سے خالی نہ ہوتی تھی، مسروق کا بیان ہے کہ جب ابن عباس ؓ گفتگو کرتے تھے تو فصیح ترین آدمی معلوم ہوتے تھے۔ (کتاب العمدہ :۵) حضرت حسن ؓ کی وفات کے بعد ان میں اور امیر معاویہ ؓ میں جو گفتگو ہوئی ہے،وہ حسن بیان کا ایک دل آویز نمونہ ہے۔ (استیعاب :۱/۳۸۴) معاویہ ؓ: اجرک اللہ ابا العباس فی ابی محمد الحسن بن علی معاویہ ؓ: ابوالعباس خدا تمہیں ابی محمد الحسن بن علی کی موت پر اجر دے۔ فقال ابن عباس ؓ: اناللہ وانا الیہ راجعون وغلبہ البکاء فردہ ثم قال لایسد داللہ مکانہ حفرتک ولایزید موتہ فی اجلک واللہ لقد اصبنا بمن ہواعظم منہ فقد فما صنیعاواللہ بعدہ ابن عباس ؓ: ابن عباس ؓ نے انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور آنسو ضبط کرکے بولے،خداکی قسم ان کی موت سے تمہاری قبر پرنہ ہوجائے گی اورنہ ان کی موت سے تمہاری زندگی میں کچھ اضافہ ہوگا،خدا کی قسم ہم کو ان سے بڑے کی موت کا صدمہ اٹھانا پڑا، خدا کی قسم اس کے بعد ہمارا کیا چارہ تھا۔ معاویہ ؓ: کم کانت سنہ معاویہ ؓ:کتنی عمر تھی۔ ابن عباس ؓ: مولدہ اشھرمن ان تتعرف سنہ ابن عباس ؓ:ان کی ولادت اتنی مشہور ہے کہ تم کو ان کی عمر معلوم کرنے کی ضرورت نہیں۔ معاویہ ؓ: احسبہ ترک اولادا صفارا معاویہ ؓ: میرا خیال ہے کہ انہوں نے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے۔ ابن عباس ؓ: کان کائنا صغیرافکسر ولئن اختاراللہ لا بی محمد ما عندہ وقبضہ الی رحمتہ لقد ابقی اللہ اباعبداللہ وفی مثلہ الخلف الصالح ابن عباس ؓ: ہم سب چھوٹے تھے،پھر بڑے ہوئے ،اگر خدانے ابو محمد حسن ؓ کو اپنی رحمت کی طرف بلالیا اورابھی اس نے ابو عبداللہ (حسین ؓ) کو زندہ رکھا ہے اور ان کے ایسے لوگ خلف صالح ہوتے ہیں۔ تقریر اس قدر شیریں ہوتی تھی کہ بے ساختہ سننے والوں کی زبانوں سے مرحبا نکل جاتا،ہم نے مستدرک حاکم کے حوالہ سے اوپر کہیں نقل کیا ہے کہ شقیق بیان کرتے تھے کہ ابن عباس ؓ نے ایک مرتبہ حج کے موسم میں سورۂ نور کی تفسیر اس اچھوتے انداز سے بیان کی تھی کہ اس سے بہتر نہ میرے کانوں نے سنی تھی،نہ آنکھوں نےد یکھی تھی اگر اس کو فارس وروم سن لیتے تو پھر ان کو اسلام سے کوئی چیز نہ روک سکتی، ابن ابی شیبہ کی روایت میں اتنا اوراضافہ ہے کہ ایک شخص بولا کہ ابن عباس ؓ کی شیریں بیانی اورحلاوت پر میرابے اختیار دل چاہتا تھا کہ ان کا سرچوم لوں۔ (اصابہ بحوالہ ابن ابی شیبہ تذکرہ عبداللہ بن عباس ؓ) ابن عباس ؓ کی جامعیت اوپر کی تفصیل سے ان کی جامعیت کا اندازہ ہوا ہوگا،عبداللہ بن عبداللہ کے اس تبصرہ سے اس کا پورا اندازہ ہوگا وہ کہا کرتے تھے کہ اس زمانہ کے علوم میں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا، معاملہ فہمی اوراصابت رائے میں وہ سب پر فائق تھے، نسب دانی اور تاویلِ قرآن کے بڑے ماہر تھے،احادیث نبوی اورابوبکر ؓ عمر ؓ اورعثمان ؓ کے فیصلوں کا ان سے زیادہ کوئی واقف کار نہ تھا،شعرو شاعری ،ادب ،تفسیر،حساب اورفرائض میں ممتاز درجہ رکھتے تھے اوران سب میں ان کی رائے بے نظیر ہوتی تھی، ان کے علمی مذاکرے کے دن مقرر تھے ،کسی دن فقہ کا درس دیتے تھے، کسی دن تاویل قرآن پر روشنی ڈالتے، کسی دن مغازی کے واقعات کا تذکرہ کرتے ،کسی دن ایامِ عرب کی داستان سناتے ،کسی دن شعر وشاعری کا چرچا ہوتا، غرض ان کا چشمہ معرفت فیض ہر دن نئے رنگ سے اُبلتا تھا، میں نے کسی بڑے سے بڑے عالم کو نہیں دیکھا جو تھوڑی دیر کے لیے ان کی صحبت میں بیٹھا ہو اوران کے کمالِ علم کے سامنے اس کی گردن نہ جھک گئی ہو، کسی علم کے متعلق کوئی سوال بھی کرتا اس کو اس کا جواب ضرور ملتا ۔ (اسد الغابہ:۳/۱۹۳،۱۹۴) معاصرین کا اعتراف حضرت ابن عباس ؓ صحابہ ؓ کی جماعت میں گو عمر میں بہت چھوٹے تھے مگر ان کا علم سب سے بڑا تھا، ان کے تمام معاصرین جن میں سے بڑے بڑے صحابہ ؓ تک تھے ان کے فضل وکمال کے معترف تھے۔ حضرت عمرؓ فرماتے تھے :ابن عباس ؓ ادھیڑ عمر والوں میں نوجوان ہیں، ان کی زبان سائل اوران کا ذہن رسا ہے، مجاہد تابعی کہتے تھے کہ میں نے ابن عباس ؓ کے فتاویٰ سے بہتر کسی شخص کا فتویٰ نہیں دیکھا، علاوہ اس شخص کے جو قال رسول اللہ کہتا ہے ،طاؤس کہتے تھے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کے پانچ سو اصحاب ؓ کو دیکھا ہے کہ جب وہ کسی مسئلہ میں ابن عباس ؓ سے مباحثہ کرتے اوردونوں میں اختلافِ رائے ہوتا توآخر میں ابن عباس ؓ ہی کی رائےپر فیصلہ ہوتا۔ عبید اللہ بن عباس ؓ کہتے تھے کہ میں نے عبداللہ بن عباس ؓ سے زیادہ سنت کا عالم، ان سے زیادہ صائب الرائے ،ان سے بڑادقیق النظر کسی کو نہیں دیکھا، حضرت عمرؓ باوجود اپنے ملکہ اجتہاد اورمسلمانوں کی خیر خواہی کے ابن عباس ؓ کو مشکلات کے لیے تیار کرتے تھے، قاسم بن محمد کا بیان ہے کہ ہم نے ابن عباس ؓ کی مجلس میں کبھی کوئی باطل تذکرہ نہیں سنا اوران سے زیادہ کسی کا فتویٰ سنتِ نبوی ﷺ کے مشابہ نہیں دیکھا۔ (یہ تمام اقوال استیعاب سے منقول ہیں:۱/۳۸۴) طاؤس تابعی حضرت ابن عباس ؓ کے ساتھ بہت رہا کرتے تھے،ابوسلیم نے ان پر اعتراض کیا کہ آنحضرت ﷺ کے اکابر صحابہ ؓ کو چھوڑ کر تم اس چھوکرے سے کیوں چمٹے رہتے ہو؟ انہوں نے کہا میں نے آنحضرت ﷺ کے ستر اصحاب ؓ کو دیکھا ہے جب وہ کسی مسئلہ میں گفتگو کرتے تھے تو آخر میں ان کو ابن عباس ؓ ہی کے قول کی طرف رجوع کرنا پڑتاتھا،(اسد الغابہ : ۳/۱۹۴) حضرت زید بن ثابت ؓ کا انتقال ہوا تو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا آج اس امت کا عالم اُٹھ گیا،امید ہے کہ خدا ابن عباس ؓ کو ان کا قائم مقام بنائے گا،(اصابہ:۴/۹۲) مشہور عالم صحابی ابی بن کعب ؓ کے بیٹے محمد روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓ ایک دن میرے والد کے پا س بیٹھے ہوئے تھے، جب وہ اُٹھ کر چلے تو میرے باپ نے کہا کہ ایک دن یہ شخص اس امت کا حبر (زبردست عالم ) ہوگا، (اصابہ :۴/ ۹۸) حضرت ابی بن کعب ؓ کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اورابن عباس ؓ اپنے کثرت علم کی وجہ سے حبرالامہ کہلانے لگے۔ معاصرین کی عزت اس ذاتی علم وفضل کے باوجود دوسرے علماء کی بڑی عزت کرتے تھے،اوران سے نہایت تواضع اورانکسارسے پیش آتے تھے،ایک مرتبہ حضرت زید بن ثابت ؓ سوارہوئے،تو ابن عباس ؓ نے احتراماً ان کی رکاب تھام لی،زید بن ثابت ؓ نے کہا اے ابن عمِ رسول ایسا نہ کیجئے، فرمایا ہم کو اپنے علماء کا ایسا ہی احترام کرنا چاہئے،زید بن ثابت ؓ نے ان کا ہاتھ چوم کر کہا ہم کو اپنے نبی کے اہل بیت کا ایسا ہی احترام کرناچا ہئے۔ (مستدرک حاکم فضائل ابن عباس ؓ) بدعت سے نفرت عقیدہ کی صحت مذہب کی روح ہے،اس میں جہاں رخنہ پیدا ہوا،مذہب کی بنیادیں ہل جاتی ہیں،تقدیرکا مسئلہ مذہب میں ایسا نازک اورپیچیدہ ہے کہ اس میں ادنے افراط و تفریط سے عظیم الشان فتنوں کا دروازہ کھل جاتا ہے،صحابہ ؓ کے آخرزمانہ میں نو مسلم عجمیوں کے ذریعہ سے خیر و شر اورقضاء وقدر کی بحث عراق میں پیدا ہو چلی تھی، ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ کو معلوم ہوا کہ ایک شخص تقدیر کا منکر ہے، اس وقت ان کی آنکھوں کی بصارت زائل ہوچکی تھی پھر بھی لوگوں سے کہا کہ مجھ کو اس شخص تک پہنچادو، لوگوں نے پوچھا آپ اس کے ساتھ کیا طرزِ عمل اختیار کریں گے؟ بولے اگر ہوسکا تو اس کی ناک کاٹ ڈالوں گا اور اگر گردن ہاتھ میں آگئی تو اس کو توڑدوں گا ،میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ میں بنو فہر کی عورتوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ خزرج کا طواف کررہی ہیں اورسب کی سب اعمالِ شرک میں مبتلا ہیں، تقدیر کا انکار اس امت کا پہلا شرک ہے، میں اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ایسے لوگوں کی بُری رائے یہیں تک نہ محدودرہے گی،بلکہ جس طرح انہوں نے خدا کو شر کی تقدیر سے معطل کردیا ہے، اسی طرح اس کی خیر کی تقدیر سے منکر ہوجائیں گے۔ (مسند احمد بن حنبل :۱/۳۳۰) رسول کی محبت حضرت ابن عباس ؓ کو ذات نبوی ﷺ کے ساتھ غیر معمولی شیفتگی اورگرویدگی تھی،آپ کی وفات کے موقع کے ایک واقعہ کویاد کرتے تو روتے روتے بیقرار ہوجاتے ہیں، سعید بن جبیر تابعی روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا،پنجشنبہ کا دن کون پنجشنبہ اتنا کہنے پائے تھے ،ابھی مبتدا کی خبر نہ نکلی تھی کہ زار وقطار رونے لگے اور اس قدر روئے کہ سامنے پڑے ہوئے سنگ ریزے ان کے آنسوؤں سے تر ہوگئے، ہم لوگوں نے کہا ابوالعباس ؓ پنجشنبہ کے دن میں کیاخاص بات تھی،بولے اس دن آنحضرت ﷺ کی بیماری نے شدت پکڑی تھی،آپ نے فرمایا،لاؤ میں تم لوگوں کو ایک پرچہ پر لکھ دوں کہ گمراہی سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاؤ،اس پر لوگ جھگڑنے لگے،حالانکہ نبی ﷺ کے پاس جھگڑا مناسب نہیں ہے اور کہنے لگے کہ (بیماری کی تکلیف سے) ہذیان ہوگیا ہے اور آپ سے بار بار پوچھتے تھے کہ یہ حکم آپ حواس کی حالت میں دے رہے ہیں ،یا ہذیان ہے، آپ نے فرمایا میرے پاس سے ہٹ جاؤ میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف مجھے لے جانا چاہتے ہو۔ (مسند احمد بن حنبل :۱/۳۳۰) رسول کی خدمت ام المومنین حضرت میمونہ ؓ ان کی خالہ تھیں، یہ ان کے پاس بہت رہا کرتے تھےٍ،اکثر راتوں کو بھی رہ جاتے تھے، اس لیے آنحضرت ﷺ کی خدمت گذاری کا بھی انہیں موقع ملتا رہتا تھا، ایک دن آنحضرت ﷺ حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں تشریف فرما تھے،ابن عباس ؓ نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھا،حضرت میمونہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ ابن عباس ؓ نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھا ہے،آپ نے دعادی خدایاان کو دین میں سمجھ اورقرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ جائے ضرور ت سے فارغ ہوکر تشریف لائے،تو ایک طشت پانی ڈھکا ہوارکھا دیکھا پوچھا کس نے رکھا ہے،ابن عباس ؓ نے عرض کیا میں نے، فرمایا: خدایا ان کو قرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما،(مستدرک حاکم :۳/۵۳۴،۵۳۵) کبھی کبھی آپ ﷺ خود بھی ان سے کام لیا کرتے تھے،ایک دفعہ یہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا، سمجھ گئے کہ میرے پاس آرہے ہیں، بچپن کا زمانہ تھا بھاگ کے ایک مکان کے دروازے کی آڑ میں چھپ رہے، آنحضرت ﷺ نے پشت سے آکر پکڑلیا اورفرمایا جاؤ معاویہ ؓ کو بلالاؤ، معاویہ ؓ اس وقت آپ کے کاتب تھے ابن عباس ؓ نے جاکر کہا کہ نبی ﷺ کو تمہاری ضرورت ہے،فوراً چلو۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۳۴،۵۳۷بشرط شیخین) رسول کا احترام آنحضرت ﷺ کا اتنا احترام کرتے تھے کہ نماز میں بھی آپ کے برابر گھڑا ہونا گستاخی سمجھتے تھے، ایک مرتبہ آخر شب میں نماز کے لیے کھڑے ہوئے،ابن عباس ؓ آکر پیچھے کھڑے ہوگئے، آنحضرت ﷺ نے ان کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے برابر کرلیا ،اس وقت تو یہ ساتھ کھڑے ہوگئے،مگر جیسے ہی آپ نے نماز شروع کی ابن عباس ؓ ہٹ کر اپنی جگہ پر آگئے، نمازختم کرنے کے بعد آپ ﷺ نے پوچھا کہ میں نے تم کو اپنے ساتھ کھڑا کیا تھا تم پیچھے کیوں ہٹ گئے، عرض کیا کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے شانہ بشانہ کھڑا ہوکر نماز پڑھے ،آنحضرت ﷺ اس معقول عذر پر خوش ہوئے اوران کے لیے فہم و فراست کی دعا فرمائی۔ (ایضاً) امہات المومنین کا احترام آنحضرت ﷺ کے ساتھ اس غیر معمولی عقیدت کا فطری اقتضا یہ تھا کہ وہ امہات المومنین کے ساتھ بھی اس عزت وتکریم سے پیش آتے تھے، جب حضرت میمونہ ؓ کا انتقال ہوا اورلوگ مقام شرف میں جنازہ کی شرکت کے لیے جمع ہوئے تو انہوں نے کہا کہ :لوگو یہ آنحضرت ﷺ کی حرم محترم کا جنازہ ہے،نعش آہستہ اٹھاؤ ہلنے نہ پائے۔ (مسلم کتاب الرضاع باب جواز ہبتہا الفرتہا) یہ احترام حضرت میمونہ ؓ کی ذات کے ساتھ مخصوص نہ تھا، بلکہ تمام امہات المومنین ؓ کے ساتھ وہ اسی تعظیم سے پیش آتے تھے، البتہ خاندانی مناقشوں کی وجہ سے حضرت عائشہ ؓ سے کچھ بد مزگی ہوگئی تھی،مگر ان کی وفات سے پہلے خود ان کے درِ دولت پر حاضر ہوکر صفائی کرلی۔ ذکوان حضرت عائشہ ؓ کے حاجب بیان کرتے تھے کہ حضرت عائشہ ؓ کے مرض الموت میں ابن عباس ؓ آئے اورحضوری کی اجازت چاہی میں نے حضرت عائشہ ؓ سے جاکر عرض کیا، اس وقت حضرت عائشہ ؓ کے بھتیجے عبداللہ بن عبدالرحمن ان کے سرہانے بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے بھی کہا کہ ابن عباس ؓ آنے کی اجازت چاہتے ہیں، بولیں ان کو آنے کی ضرورت نہیں عبداللہ بن عبدالرحمن نے کہا،اماں :ابن عباس ؓ آپ کے سعادت مند بیٹے ہیں،وہ سلام کرتے ہیں اوررخصت کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں ان کو اجازت دیجئے، فرمایا خیر اگر تم چاہتے ہو تو بلالو، چنانچہ ان کو باریابی کی اجازت مل گئی، بیٹھنے کے بعد عرض کیا،آپ کو بشارت ہو(یعنی آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچاچاہتی ہیں) حضرت عائشہ ؓ نے جواب میں فرمایا،تم کو بھی بشارت ہو، اس خوش آیند سلسلہ کلام کے بعد ابن عباس ؓ نے عرض کیا کہ اب آپ کے اورآنحضرت ﷺ اورآپ کے اعزہ واحباب سے ملنے میں صرف روح کو جسم کا ساتھ چھوڑنے کی دیر ہے،آپ آنحضرت ﷺ کی محبوب ترین بیوی تھیں اورآنحضرت ﷺ ہمیشہ طیب ہی چیز کو محبوب رکھتے تھے،پھر حضرت عائشہ ؓ کے فضائل بیان کیے۔ (مسند احمد بن حنبل :۱ / ۲۷۶)