انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** وفاتِ منصور سنہ۱۵۸ھ میں منصور نے عامل مکہ کولکھا کہ سفیان ثوری اور عباد بن کثیر کوقید کرکے بھیج دو، لووگوں کوسخت اندیشہ تھا کہ کہیں ان کوقتل نہ کردے، حج کے دن قریب آگئے تھے، منصور نے خود حج کا ارادہ کیا اس سے اہلِ مکہ کواور بھی تشویش ہوئی کہ یہاں آکرخدا جانے کس کس کوگرفتار وقید اور قتل کرے؛ مگراہلِ مکہ کی دعائیں قبول ہوئیں او رمنصور مکہ تک پہنچنے سے پہلےہی فوت ہوا، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ منصور نے ماہ ذیقعدہ سنہ۱۵۸ھ میں بغداد سے بعزم حج کوچ کیا، بغداد سے رخصت ہوتے وقت اپنے بیٹے مہدی کوبغداد میں اپنا نائب بناکرچھوڑا اور وصیت کی کہ: میری بیاضٰں کے صندوقچہ کی حفاظت کرنا اور ضرورتوں کے وقت اپنی مشکلات کے حل کی تدبیریں ان بیاضوں میں تلاش کرنا، شہر بغداد کی خوب حفاظت کرنا اور میرے بعد کبھی دارالخلافہ کسی دوسری جگہ تبدیل نہ کرنا میں نے اس قدر خزانہ جمع کردیا ہے کہ دس برس تک خراج کی ایک پائی بھی خزانہ میں داخل نہ ہوتوفوج کی تنخواہیں اور دوسرے تمام مصارف سلطنت کے لیے یہ خزانہ کفایت کرے گا، اپنے خاندان والوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، اُن کی عزت بڑھانا اور اُن کوبڑے بڑے عہدے دینا میں تم کوخراسانیوں کے ساتھ بہ حسنِ سلوک پیش آنے کی تاکید کرتا ہوں؛ کیونکہ وہ تمہارے قوتِ بازو اور ایسے مددگار ہیں کہ انہوں نے تمہارے خاندان میں حکومت وسلطنت قائم کرنے کے لیے اپنا جان ومال صرف کردیا ہے، میرا خیال ہے کہ خراسانیوں کے دلوں سے تمہاری محبت کبھی نہ نکلے گی، اُن کی لغزشوں سے درگذر کرنا، اُن کے نمایاں کاموں پراُن کوانعام واکرام سے خوش کرنا، خبردار! قبیلہ بنوسلیم کے کسی شخص سے کبھی مدد طلب نہ کرنا، عورتوں کواپنے کاموں میں دخیل نہ بنانا، اُزتِ رسول اللہ کی حفاظت کرنا، ناحق خوں ریزی نہ کرنا، حدودِ الہٰی کی پابندی کرنا، ملحدین پر حملہ آور بدعتوں کومٹانا، عدل کوقائم کرنا، اعتدال سے آگے قدم نہ بڑھانا، مالِ غنیمت لشکریوں کے لیے چھوڑ دینا؛ کیونکہ تمہارے لیے کافی خزانہ چھوڑے جاتا ہوں، سرحدوں کی پورے طور پرحفاظت کرنا، راستوں میں امن قائم کرنا، رعیت کے مال پرنظر رکھنا، جماعت کا ساتھ نہ چھوڑنا، سواروپیادے جس قدر ممکن ہوتیار رکھنا، آج کا کام کل پر نہ اُٹھارکھنا، نزولِ حوداث کے وقت مستقل مزاج رہنا، سستی وکاہلی کومزاج میں دخیل نہ ہونے دینا، لوگوں پرحاضری دربار کوآسانی کرنا، دربانوں سے خبردار رہنا کہ وہ لوگوں پرسختی نہ کرنے پائیں۔ بغداد سے روانہ ہوکر منصور کوفہ میں آیا، حج وعمرے کا احرام باندھا قربانی کے جانوروں کوآگے روانہ کیا، کوفہ سے دوتین منزل سفر کرنے پایا تھا کہ بیمار ہوگیا، اس بیماری کی حالت میں اپنے آزاد کردہ غلام ربیع کوجواس کا حاجب اور افسر باڈی گارڈ تھا اکثراپنی مصاحبت میں رکھتا تھا۔ ۶/ذی الحجہ سنہ۱۵۸ھ بمقام بطن کہ یہاں سے مکہ تین چار میل رہ گیا تھا فوت ہوگیا، وفات کے وقت اس کے خاص خدام اور ربیع کے اور کوئی اُس کے پاس موجود نہ تھا؛ انھوں نے اُس روز منصور کی وفات کوچھپایا، اگلے دن عیسیٰ بن علی، عیسیٰ بن موسیٰ بن محمدولی عہد دوم، عباس بن محمد، محمد بن سلیمان، ابراہیم بن یحییٰ، قاسم بن منصور، حسن بن زید علوی، موسیٰ بن مہدی بن منصور، علی بن عیسیٰ بن ہامان، وغیرہ جواس سفر میں ساتھ تھے، دربار میں بلائے گئے، ربیع نے خلیفہ کی وفات کی خبر سنائی ایک کاغذ جومنصور کا لکھا ہوا تھا پڑھ کر لوگوں کوسنایا، اس میں لکھا تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم، عبداللہ منصور کی طرف سے پس ماندگانِ بنی ہاشم واہلِ خراسان وعامۃ المسلمین کے نام، امابعد، میں اس عہد نامہ کواپنی زندگی یعنی دنیا کے دنوں میں سے آخری دن میں اور آخرت کے دنوں میں سے پہلے دن میں لکھ رہا ہوں، میں تم کوسالام کہتا ہوں اور خدائے تعالیٰ سے التجا کرتا ہوں کہ وہ تم کوفتنہ میں نہ ڈالے اور نہ میرے بعد تم کوکوئی فرقوں میں متفرق کرے اور نہ تم کوخانہ جنگی کا مزہ چکھائے، میرے بیٹے مہدی کی اطاعت کا تم اقرار کرچکے ہو اُس پرقائم رہو اور بدعہدی وبے وفائی سے بچو۔ ربیع نے یہ کاغذ سناکرموسیٰ بن مہدی بن منصور کو اپنے باپ مہدی کی طرف سے نیابۃً بیعت لین کا اشارہ کیا اور سب سے پہلے حسن بن زید کا ہاتھ پکڑ کرکہا کہ اُٹھو بیعت کرو، حسن بن زید نے بیعت کی اس کے بعد یکے بعد دیگرے سب نے بیعت کی، عیسیٰ بن موسیٰ نے بیعت کرنے سے انکار کیا، یہ سن کرعلی بن عیسیٰ بن ہامان نےکہا کہ اگرتم بیعت نہ کروگے تومیں تمہاری گردن تلوار سے اُڑادوں گا، چنانچہ مجبوراً عیسیٰ نے بھی بیعت کرلی، اس کے بعد سردارانِ لشکراور عوام الناس نے بیعت کی؛ پھرعباس بن محمد اور محمد بن سلیمان مکہ معظمہ گئے اور انہوں نے رکن ومقام کے درمیان لوگوں سے خلافتِ مہدی کی بیعت لی، اس کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور حجون وبیرمیمون کے درمیان مقبرۂ معلاۃ میں منصور کودفن کردیاگیا؛ پھرربیع نے منصور کی خبرِوفات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر وعصا اور خاتمِ خلافت مہدی کی خدمت میں روانہ کی۔ یہ خبر ۱۵/ماہِ ذی الحجہ سنہ۱۵۸ھ کوبغداد میں مہدی کے پاس پہنچی، اہلِ بغداد نے بھی حاضر ہوکر مہدی کے ہاتھ پربیعت کی، منصور نے ایک ہفتہ کم بائیس سال خلافت کی، سات بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی، بیٹیوں کے نام یہ ہیں: محمدمہدی، جعفراکبر، جعفر اصغر، سلیمان، عیسی، یعقوب، سالم، بیٹی کا نام عالیہ تھا، جس کی شادی اسحاق بن سلیمان بن علی کے ساتھ ہوئی تھی۔ خلیفۂ منصور سے کسی نے پوچھا کہ کوئی ایسی تمنا بھی ہے جوآپ کی اب تک پوری نہ ہوئی ہو، منصور نے کہا: صرف ایک تمنا باقی ہے، وہ یہ ہے کہ میں ایک چبوترے پربیٹھا ہوں اور اصحاب حدیث میرے گرد بیٹھے ہوں، دوسرے روز جب وزراء کاغذات اور معاملات کی مثلیں اور قلمدان لے کراس کے پاس پہنچے تواُس وقت وہ دریافت کرنے والا مصاحب بھی موجود تھا، اُس نے کہا: لیجئے اب آپ کی یہ تمنا پوری ہوگئی، منصور نے کہا: یہ وہ لوگ نہیں ہیں، جن کی تمنا مجھے ہے، اُن لوگوں کے توکپڑے پھٹے ہوئے پاؤں برہنہ اور بال بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور روایتِ حدیث ان کا کام ہوتا ہے۔ منصور نے امام مالک رحمہ اللہ کومؤطا کی تالیف پرآمادہ کیا تواُن سے اس طرح مخاطب ہوا کہ اے ابوعبداللہ! تم جانتے ہو کہ اب اسلام میں تم سے اور مجھ سے زیادہ شریعت کا جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا، میں توان خلافت وسلطنت کے جھگڑوں میں مبتلا ہوں تم کوفرصت حاصل ہے؛ لہٰذا تم لوگوں کے لیے ایک ایسی کتاب لکھو جس سے وہ فائدہ اُٹھائیں اُس کتاب میں ابنِ عباس کے جواز اور ابنِ عمر کے تشدد واحتیاط کونہ بھرو اور لوگوں کے لیے تصنیف وتالیف کا ایک نمونہ قائم کرو، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، اللہ کی قسم! منصور نے یہ باتیں کیا کہیں، تصنیف ہی سکھادی۔ عبدالصمد بن محمد نے منصور سے کہا کہ آپ نے سزادینے پرایسی کمرباندھی ہے کہ کسی کوگمان بھی نہیں ہو؛ تاکہ آپ معاف کرنا بھی جانتے ہیں، منصور نے جواب دیا کہ ابھی تک آلِ مروان کا خون خشک نہیں ہوا اور آلِ ابی طالب کی تلواریں بھی ابھی تک برہنہ ہیں، یہ زمانہ ایسا ہے کہ ابھی تک خلفاء کا رُعب ان کے دلوں میں نہیں قائم ہوا اور یہ رعب اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، جب تک وہ عفو کے معنی نہ بھول جائیں اور سزا کے لیے ہر وقت تیار نہ رہیں، زیاد بن عبداللہ حارثی نے منصور کولکھا کہ میری تنحواہ اور جاگیر میں کچھ اضافہ کردیا جائے اور اس عرض داشت میں اپنی تمام بلاغت ختم کردی، منصور نے جواب دیا کہ جب تونگری اور بلاغت کسی شخص میں جمع ہوجاتی ہے تواس کوخود پسند بنادیتی ہے، مجھ کوتمہارے متعلق یہی خطرہ پیدا ہوگیا ہے، مناسب یہ ہے کہ تم بلاغت چھوڑدو، عبدالرحمن زیاد افریقی منصور کا طالب علمی کے زمانہ کا دوست تھا، وہ ایک مرتبہ منصور کی خلافت کے زمانہ میں اُس سے ملنے آیا، منصور نے پوچھا کہ تم بنواُمیہ کے مقابلہ میں میری خلافت کوکیسا پاتے ہو؟ عبدالرحمن نے کہا جس قدر ظلم وجور تمہارے زمانہ میں ہوتا ہے، اتنا بنواُمیہ کے زمانے میں نہ تھا، منصور نے کہا کیا کروں مجھ کومددگار نہیں ملتے، عبدالرحمن نے کہا کہ عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے کہ اگربادشاہ نیک ہوگا تواس کونیک لوگ ملیں گے اور فاجر ہوگا تواس کے پاس فاجر ہوں گے، ایک مرتبہ منصور کومکھیوں نے بہت تنگ کیا، اس نے مقاتل بن سلیمان کوبلایا اور کہا کہ ان مکھیوں کوخدائے تعالیٰ نے کیوں پیدا کیا ہے؟ مقاتل نے کہا: کہ ظالموں کوان کے ذریعہ ذلیل کرنے کے لیے، منصور کے زمانے میں سریانی اور عجمی زبانوں سے کتابوں کا ترجمہ عربی زمان میں ہونے لگا، چنانچہ اقلیدس اور کلیلہ ودمنہ کا ترجمہ اسی کے عہد میں ہوا، سب سے پہلے منصور نے منجموں کواپنا جلیس ومقرب بنایا؛ اسی کے عہد میں عباسیوں اور علویوں میں تلوار چلی؛ ورنہ اس سے پہلے علوی وعباسی متحد ومتفق تھے۔ اپنے اخلاق وعادات اور اپنے اعمال وکارہائے نمایاں کے اعتبار سے منصور عباسی عبدالملک اموی سے بہت ہی مشابہ ہے، وہ بھی خاندان مروان میں دوسرا خلیفہ تھا اور منصور بھی خاندانِ عباسی کا دوسرا خلیفہ تھا، عبدالملک نے بھی خلافت امویہ کوبرباد وفنا ہوتے ہوتے بچالیا؛ اسی طرح منصور نے بھی محمد وابراہیم کے مقابلہ میں خلافتِ عباسیہ کوبرباد ہوتے ہوتے بچالیا، عبدالملک بھی عالم وفقیہ اور محدث تھا؛ اسی طرح منصور بھی کفایت شعاری اور بخل کے ساتھ بدنام تھا، حکومت بھی دونوں نے قریباً مساوی مدت تک کی، دونوں میں فرق صرف اس قدر تھا کہ منصو رنے لوگوں کوامان دینے کے بعد بھی قتل کیا اور بدعہدی کے ساتھ متہم ہوا؛ لیکن عبدالملک اس معاملہ میں بدنام نہیں ہوا۔