انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت امیر حمزہؓ کا اسلام لانا قریش مکہ عداوتِ نبوی میں دیوانے ہورہے تھے،ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر یا اُس کے دامن میں بیٹھے تھے کہ ابو جہل اُس طرف کو آنکلا،اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اول تو بہت سخت وسُست اورناپسندیدہ الفاظ کہے،آپ نے جب اُس کی بیہودہ سرائی کا کوئی جواب نہ دیا تو اس نے ایک پتھر اٹھا کر مارا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے اورخون بہنے لگا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش اپنے گھر چلے آئے، ابو جہل صحنِ کعبہ میں جہاں لوگ بیٹھے ہوئے باتیں کرہے تھے آبیٹھا،حضرت امیر حمزہؓ بن عبدالمطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے، ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی مگر وہ ابھی تک شرک پر قائم اور مشرکوں کے شریک حال تھے، اُن کی عادت تھی کہ تیر کمان لے کر صبح جنگل کی طرف نکل جاتے،دن بھر شکار مارتے اورشکار کی تلاش میں مصروف رہتے،شام کو واپس آکر اول خانہ کعبہ کا طواف کرتے پھر اپنے گھر جاتے،وہ حسب معمول جب شکار سے واپس آئے تو اول راستے ہی میں ابو جہل کی لونڈی ملی، اُس نے ابو جہل کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا اورپتھر مارنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر وشکر کے ساتھ خاموش رہنا سب بیان کردیا۔ حضرت حمزہؓ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہونے کے علاوہ رضائی بھائی بھی تھے،خون اوردودھ کے جوش نے اُن کو از خود رفتہ کردیا،وہ اول خانہ کعبہ میں گئے،وہاں طواف سے فارغ ہوکر سیدھے اُس مجمع کی طرف متوجہ ہوئے جہاں ابو جہل بیٹھا ہوا باتیں کررہا تھا،حضرت حمزہؓ بہت بڑے پہلوان،جنگ جو اورعرب کے مشہور بہادروں میں شمار ہوتے تھے،انہوں نے جاتے ہی ابو جہل کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اُس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا،پھر کہا کہ میں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ہوں اوروہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے، اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو اب میرے سامنے بول ابو جہل کے ساتھیوں کو غصہ آیا اور وہ اُس کی حمایت میں اٹھے،مگر ابوجہل حضرت حمزہؓ کی بہادری سے اس قدر متاثر ومرعوب تھا کہ اس نے خود ہی اپنے حمایتیوں کو بھی یہ کہہ کر روک دیا کہ واقعی مجھ ہی سے زیادتی ہوگئی تھی،اگر حمزہؓ مجھ سے اپنے بھتیجے کا انتقام نہ لیتے تو بے حمیت شمار ہوتے،غالباً ابو جہل کو حضرت امیر حمزہؓ کا کلام سُن کر یہ اندیشہ بھی پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں یہ اس طیش و غضب کی وجہ سے ضد میں آکر مسلمان ہی نہ ہوجائیں اوراسی لئے اس نے ایسی بات حضرت حمزہؓ کو سنانے کے لئے کہی کہ بات یہیں ختم ہوکر رہ جائے اورحمزہؓ اسلام کی طرف متوجہ نہ ہوسکیں۔ اس کے بعدحضرت حمزہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہا کہ ‘‘بھتیجے!تم یہ سُن کر خوش ہوگے کہ میں نے ابوجہل سے تمہارا بدلہ لے لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ‘‘چچا میں ایسی باتوں سے خوش نہیں ہوا کرتا،ہاں اگر آپ مسلمان ہوجائیں تو مجھ کو بڑی خوشی حاصل ہو،یہ سن کر حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اُسی وقت اسلام قبول کرلیا،حضرت امیر حمزہؓ کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں کی آفت رسیدہ جمعیت کو بڑی قوت اورامداد حاصل ہوئی، یہ نبوت کے چھٹے سال کا واقعہ ہے،اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دارِ ارقم میں تھے،قریشِ مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بہت ہی گستاخ اوربے باک ہوگئے تھے،اب حضرت حمزہؓ کے مسلمان ہونے نے ان کو کسی قدر محتاط اورمودب بنادیا اور لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے میں کچھ تامل کرنے لگے۔