انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۲۹ھ کا حج حضرت عثمان غنیؓ مدینہ منورہ سے مہاجرین وانصار کی جماعت کے ایک ساتھ حج بیت اللہ کے ارادے سے روانہ ہوئے،منی میں پہنچ کر حکم دیا، کہ خیمہ نصب کریں،اورحاجیوں کو جمع کرکے اس میں ضیافت کریں،لوگوں نے اس بات کو بدعت سمجھ کرنا پسند کیا؛کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصدیق ؓ اورفاروقؓ کے زمانے میں ایسا نہیں ہوا تھا، اسی سفر میں قبیلہ جہنیہ کی ایک عورت آپ کی خدمت میں پیش کی گئی ،یہ عورت پہلے بیوہ تھی پھر اس نے عقد ثانی کیا اور بعد نکاح صرف چھ مہینے گذرنے پر اس کے لڑکا پیدا ہوا، حضرت عثمانؓ نے اس عورت پر رجم کرنے کا حکم دیا،جب اس حکم کی خبر حضرت علیؓ کو پہنچی، تو وہ حضرت عثمان غنیؓ کی خدمت میں پہنچے اورکہا کہ قرآن مجید میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے "وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا" جس سے معلوم ہوا کہ حمل اور دودھ پلانے کی مدت تیس مہینے ہے اور مدتِ رضاعت قرآن مجید میں دوسری جگہ بیان کی گئی ہے ؛کہ "وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ" پس دودھ پلانے کی مدت دو سال یعنی چوبیس مہینے تیس مہینے میں سے خارج کریں،تو باقی حمل کی اقل مدت چھ مہینے رہتی ہے،لہذا اس عورت پر زنا یقین طور پر ثابت نہیں، حضرت عثمان غنیؓ نے حضرت علیؓ کا یہ کلام سُن کر فوراً آدمی دوڑادیا کہ اس کو رجم نہ کیا جائے،لیکن اس آدمی کے پہنچنے سے پہلے اس کو رجم کیا جاچکا تھا،حضرت عثمان غنیؓ کو اس کا سخت ملال وافسوس رہا،اسی سال حضرت عثمان غنیؓ نے مسجد نبوی کی توسیع کی،مسجد کا طول ایک سو ساٹھ گز اور عرض ایک سو پچاس گزر رکھا اور پتھر کے ستون لگائے درودیواریں تمام پختہ بنوائیں۔