انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۵۰۔علی بن حسینؓ نام ونسب علی نام،ابوا لحسن کنیت، زین العابدین لقب، حضرت امام حسین ؓ کے فرزند اصغر اورریاض نبوت کے گلِ تر تھے،کربلا کے میدان میں اہل بیت نبوی کا چمن اجڑنے کے بعد یہی ایک پھول باقی رہ گیا تھا، جس سے دنیا میں شمیم سیادت پھیلی اور حسین ؓ کا نام باقی رہا۔ داد ہالی شجرہ آفتاب سے زیادہ روشن اورماہتاب سے زیادہ منور ہے ،نانہالی شجرہ بہت مختلف فیہ ہے،مشہور عام روایت یہ ہے کہ آپ ایران کے آخری تاجدار یزد گرد کے نواسہ تھے۔ اس کی تفصیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں یزد گرد کوشکست ہوئی تو اورقیدیوں کے ساتھ اس کی تین لڑکیاں بھی گرفتار ہوئیں،حضرت عمرؓ نے دوسرے قیدیوں کی طرح انہیں بھی بیچنے کا حکم دیا، لیکن حضرت علیؓ نے اختلاف کیا کہ شاہزادیوں کے ساتھ عام لڑکیوں کا سا سلوک نہ کرنا چاہئے اور یہ تجویز پیش کی کہ ان کی قیمت لگوائی جائے،جو قیمت لگے گی جو شخص لے گا اسے اتنی قیمت ادا کرنا ہوگی؛چنانچہ قیمت لگوا کر تینوں لڑکیوں کو خود خرید لیا اورایک حضرت ابوبکرؓ کے صاحبزادے محمد کو دے دی، دوسری حضرت عمرؓ کے فرزند حضرت عبداللہ کو عطا فرمائی اور تیسری اپنے صاحبزادے حضرت حسینؓ کو ان تینوں کے بطن سے حضرت قاسم بن محمد،حضرت سالم بن عبداللہ اورحضرت علی بن حسینؓ پیدا ہوئے۔ قدیم مورخ ابن قیتبہ المتوفی ۲۷۶ھ نے معارف میں (معارف ابن قیتبہ:۹۴) لکھا ہے کہ زین العابدین کی ماں سندھ کی تھیں اوران کانام سلافہ یا غزالہ تھا،ابن سعد نے غزالہ اختیار کیا ہے، لیکن سلسلۂ نسب نہیں دیا ہے اورنہ یزدگرد کے شاہی نسب کی طرف اشارہ کیا ہے، پہلی روایت مختلف حیثیتوں سے غیر معتبر ہے،علامہ شبلیؒ نے الفاروق میں اس پر تفصیلی تنقید کی ہے جس سے اس کی بے اعتباری واضح ہوجاتی ہے مگر ان روایات سے اتنا بہر حال ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی غیر قوم کی خاتون تھیں۔ ولادت حضرت زین العابدینؓ ۴۸ ھ میں پیدا ہوئے واقعہ کربلا اپنے جد امجد حضرت علیؓ کے عہد میں بچہ تھے، اس لیے اس عہد کا کوئی واقعہ لائق ذکر نہیں ہے، سن رشدکو پہنچنےکے بعد کربلاکا واقعہ پیش آیا،اس سفر میں آپ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ تھے، مگر علالت کی وجہ سےشریک جنگ نہ ہوسکے، حضرت حسینؓ کی شہادت کے بعد ثمری ذی الجوشن نے آپ کو قتل کرادینا چاہا،لیکن خود اس کےساتھی کے دل میں خدا نے رحم ڈال دیا، اس نے کہا سبحان اللہ ہم اس نوخیز اوربیمارنوجوان کو جس نے جنگ میں بھی کوئی حصہ نہیں لیا قتل نہیں کرسکتے، عمرو بن سعد بھی پہنچ گیا،اس نے شامیوں کو روک دیا کہ اس بیمار اور عورتوں سے کوئی شخص تعرض نہ کرے۔ (ابن سعد:۵/۱۵۷) قید اہل بیتؓ کا ایک عقیدت مند شامی آپ پر بہت مہربان ہوگیا تھا، اس نے آپ کو چھپا لیا، وہ آپ کی بڑی خدمت کرتا تھا، اس درجہ آپ کے ساتھ تعلق خاطر تھا کہ آپ کے پاس روتا ہوا آتا تھا اور روتا ہوا واپس جاتا تھا،اس کے اس شریفانہ برتاؤ سے آپ بہت متاثر ہوئے،لیکن عام شامیوں کی طرح دولت کے مقابلہ میں اس کی عقیدت بھی شقاوت سے بدل گئی،ابن زیاد نے آپ کی گرفتاری کے لیے تین سو اشرفی کا انعام مقرر کیا تھا، اس کی طمع میں شامی نے آپ کو باندھ کر ابن زیاد کے آدمیوں کے حوالہ کردیا۔ (ابن سعد:۵/۱۵۷) ابن زیاد سے مکالمہ گرفتاری کے بعد دوسرے حسینی قیدیوں کے ساتھ آپ بھی ابن زیاد کے سامنے پیش کیے گئے،اس نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے،آپ نے فرمایا علی، نام سن کر اس نے کہا کیا خدا نے علی کو قتل نہیں کردیا،آپ خاموش رہے،ابن زیاد نے کہا جواب کیوں نہیں دیتے،فرمایا میرے دوسرے بھائی کا نام علی تھا، ان کو لوگوں نے قتل کردیا،ابن زیاد بولا لوگوں نے نہیں ؛بلکہ خدانے قتل کیا، حضرت امامؓ خاموش رہے،ابن زیاد نے پھر پوچھا آپ نے جواب میں یہ دو آیتیں تلاوت فرمائیں: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا (الزمر:۴۲) اللہ ہی نفوس کو ان کی موت کے وقت وفات دیتا ہے وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ (آل عمران:۱۴۵) کسی نفس کو بغیر خدا کے اذن کے مرنے کا اختیار نہیں ہے یہ جواب سن کر ابن زیاد نے کہا تم بھی انہی لوگوں میں ہواور آپ کے قتل کا حکم دے دیا، حکم سن کر حضرت زین العابدینؓ نے فرمایا،ان عورتوں کو کس کے سپرد کروگے، آپ کی پھوپھی حضرت زینب یہ ظالمانہ حکم سن کر تڑپ گئیں اور حضرت زین العابدینؓ سے چمٹ گئیں اورابن زیاد سے کہا اگر تو انہیں بھی قتل کرنے پر آمادہ ہے،تو ان کے ساتھ مجھے بھی قتل کردے، مگر حضرت امام زین العابدین پر مطلق کوئی خوف وہراس طاری نہ ہوا آپ نے نہایت سکون واطمینان کے ساتھ فرمایا کہ اگر مجھے قتل کرنا ہے تو کم از کم کسی آدمی کو ان عورتوں کے ساتھ کردو جو انہیں حفاظت کے ساتھ وطن پہنچادے، ان کا یہ استقلال دیکھ کر ابن زیاد ان کا منہ تکنے لگا اور اس کے دل میں خدا نے رحم ڈال دیا؛چنانچہ اس نے عورتوں کے ساتھ رہنے کے لیے آپ کو چھوڑدیا۔ (ابن سعد:۵/۱۵۷،ابن اثیر:۴/۱۷۰) شام کا سفر اوریزید سے مکالمہ اس کے بعد ابن زیاد نے اہل بیت کرام ؓ کو یزید کے پاس شام بھجوادیا، شام پہنچنے کے بعد یہ لوگ یزید کے سامنے پیش کیے گئے، اس نے حضرت امام حسین ؓ کا سردیکھ کر حضرت زین العابدینؓ سے کہا: علی جو کچھ تم دیکھ رہے ہو یہ اس کا نتیجہ ہے کہ تمہارے باپ نے مجھ سے قطع رحم کیا، میرے حق سے غفلت کی اورحکومت میں جھگڑا کیا،امام ممدوح نے اس کے جواب میں یہ آیت پڑھی۔ مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا (الحدید:۲۲) یزید نے اپنے لڑکے خالد سے جو پاس بیٹھا تھا کہا کہ تم اس کا جواب دو،مگر وہ نہ دے سکا تو یزید نے کہا تم یہ آیت پڑھو۔ (طبری:۷/۳۷۶) وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ (الشوری:۳۰) اور تم کو جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی ہوئی ہے اوراللہ تعالیٰ بہتوں سے معاف کردیتا ہے۔ اس مجلس میں ایک شامی نے کہا کہ یہ قیدی ہمارے لیے حلال ہیں،حضرت علی بن حسینؓ نے فرمایا توجھوٹ بکتا ہے،اگر تو مربھی جائے تب بھی تیرے لیے یہ جائز نہیں،جب تک کہ تو ہمارے مذہب سے نکل نہ جائے۔(یعنی اسلام پر قائم رہتے ہوئے کسی مسلمان کے لیے مسلمان قیدی عورت جائز نہیں ہے) یزید نے شامی کو خاموش کرکے بٹھادیا۔ (ابن سعد:۵/۱۵۷) اہل بیت کا معائنہ کرنے کے بعد یزید نے ان کو شاہی حرم سرا میں ٹھہرادیا یہ سب عورتیں عزیز ہی تھیں، اس لیے تین دن تک یزید کے محل میں ماتم بپا رہا، جب تک یہ لوگ مقیم رہے یزید ان کے ساتھ نہایت شریفانہ سلوک کرتا رہا، زین العابدین کو اپنے ساتھ دسترخوان پر کھلاتا تھا۔ (طبری:۷/۳۷۸) مدینہ کی واپسی اوریزید کے وعدے چند دنوں تک قیام کے بعد جب اہل بیت کو کسی قدر سکون ہوا تو یزید نے زین العابدین سے کہا اگر تم ہمارے ساتھ رہنا چاہو تو یہیں رہو،میں صلہ رحمی سے پیش آؤں گا اور تمہارا پورا حق ادا کروں گا اور اگر واپس جانا چاہو تو واپس جاسکتے ہو، میں تمہارے ساتھ سلوک کرتا رہوں گا ،زین العابدین نے واپس جانے کی خواہش کی۔ (ابن سعد:۵/۱۵۷) ان کی خواہش پر یزید نے سرکاری فوج کی نگرانی میں انہیں بحفاظت واپس کردیا اوررخصت کرتے وقت زین العابدین سے کہا ابن مرجانہ پر خدا کی لعنت ہو اگر میں ہوتا تو حسین جوکہتے اسے مان لیتا اوران کی جان نہ جانے دیتا، خواہ اس میں میری اولاد ہی کیوں نہ کام آجاتی، بہر حال اب تو قضائے الہیٰ پوری ہوچکی آئندہ جب بھی تم کو کسی قسم کی ضرورت پیش آئے مجھے فوراً لکھنا۔ (طبری:۳/۳۷۹) مدینہ کا قیام اورعزلت گزینی اعزہ کی شہادت، گھر کی بربادی اوراپنی بے کسی پر زین العابدین کا دل ایسا ٹوٹ گیا تھا کہ مدینہ آنے کے بعد انہوں نے عزلت نشینی اختیار کرلی اورآئندہ کسی تحریک میں کوئی حصہ نہ لیا اور ہر فتنہ انگیز تحریک سے اپنا دامن بچاتے رہے،یزید نے بھی ہر موقع پر ان کا بڑا لحاظ رکھا۔ ابن زبیر کا ہنگامہ اورزین العابدین کی کنارہ کشی حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد ہی عبداللہ بن زبیرؓ یزید کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، اہل حجاز نے ان کے ہاتھوں پر بیعت کرلی مکہ اور مدینہ کے باشندوں نے اپنے یہاں سے اموی عمال کو نکال دیا، یزید نے ان کی تنبیہ کے لیے مسلم بن عقبہ کو ایک لشکر جرار کے ساتھ روانہ کیا اورامیر عسکر کو ہدایت کردی کہ زین العابدین کو کوئی گزند نہ پہنچنے پائے، اہل مدینہ مقابلہ میں آئے، لیکن فاش شکست کھائی،ہزاروں آدمی مارے گئے اور یزیدی فوج کئی دن تک مدینۃ الررسول کو لوٹتی رہی، اس جنگ میں زین العابدین اوران کے اعزہ نے کوئی حصہ نہیں لیا اور مدینہ چھوڑ کر عقیق چلے گئے،مدینہ کو ویران کرنے کے بعد مسلم عقیق گیا اورزین العابدین کو پوچھا، معلوم ہوا موجود ہیں،زین العابدین کو خبر ہوئی تو وہ خود اس سے ملنے آئے، اوراپنے ساتھ اپنے چچازاد بھائیوں ابو ہاشم، عبداللہ اورحسن بن محمد بن حنفیہ کو بھی لیتے آئے، مسلم بڑی عزت وتکریم کے ساتھ ان سے ملا، انہیں اپنے تخت پر بٹھا کر اور مزاج پرسی کے بعد کہا امیر المومنین نے مجھے آپ کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت فرمائی تھی، آپ نے فرمایا خدا ان کو اس کا صلہ دے، مسلم نے دونوں لڑکوں کے متعلق پوچھا زین العابدین نے کہا میرے چچیرے بھائی ہیں، یہ سُن کر مسلم نے ان سے ملنے پر بھی مسرت ظاہر کی،اس خوش آیندہ ملاقات کے بعد زین العابدین واپس گئے۔ (اخبار الطوال:۲۷۵،۲۷۶ وابن سعد:۵/۱۵۹)