انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** توجہ الی اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بتیس یا تینتیس سال کی ہوگی کہ آپ کو توجہ الی اللہ اورخلوت گزینی کا شوق بڑھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک روشنی اورچمک سی نظر آیا کرتی تھی اورآپ اس روشنی کو دیکھ کر مسرور ہوا کرتے تھے،اس روشنی میں کوئی صورت یا آواز نہیں ہوتی تھی،عرب کی مشرکانہ مراسم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ سے نفرت تھی،ایک دفعہ مکہ کے بعض مشرکوں نے کسی جلسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ کھانا رکھا جو بتوں کے چڑھاوے کا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھانا زید بن عمرو کی طرف سرکادیا،انہوں نے بھی وہ کھانا نہیں کھایا،اوران مشرکوں کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ ہم بتوں کے چڑھاوے کا کھانا نہیں کھایا کرتے یہ وہی زید بن عمرو بن نفیل ہیں جن کاذکر اوپر مذکور ہوچکا ہے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے چچا تھے،آپ خلوت اورتنہائی کی ساعات میں قدرتِ الہیہ پر غور وفکر کیا کرتے تھے اورتحمید وتقدیس خداوندی میں اکثر مصروف رہتے،شرک اورمشرکانہ کاموں سے آپ بکلی محفوظ ومجتنب رہے، جوں جوں آپ کی عمر چالیس سال کے قریب ہوتی گئی تنہائی اورخلوت نشینی بڑھتی گئی،اکثر آپ ستو اورپانی اپنے ہمراہ لے کر غارِ حرا میں چلے جاتے اورکئی دن تک وہاں مصروفِ عبادت اورذکرِ الہی میں مشغول رہتے، جب ستو اورپانی ختم ہوجاتا تو گھر سے آکر یہی سامان اورلے جاتے اورپھر جاکر عبادت الہی میں مصروف ہوجاتے، غار حرا ،کو ہ حرا (جس کو آج کل جبل نور کہتے ہیں) میں ایک غار تھا،مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر منیٰ کو جاتے ہوئے بائیں سمت واقع ہے،اس غار کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز تھا، اس حالت میں آپ کو سچے خواب نظر آجاتے تھے، سات برس کا زمانہ اسی شوقِ عبادت اور توجہ الی اللہ میں گزرا،مگر آخری چھ مہینے میں گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ تن عبادت الہی اور غارِ حرا کی خلوت نشینی ہی میں مصروف رہے اور اسی چھ مہینے میں رویائے صادقہ کا سلسلہ بلا انقطاع جاری رہا۔