انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۳)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) خلفائے راشدینؓ کے بعد افضل ترین صحابی سمجھے جاتے ہیں، سابقینِ اوّلین اور کبارِ بدرین سے ہیں، جنگِ بدر میں ابوجہل آپؓ کی تلوار سے ہی واصلِ جہنم ہوا، حضرت عمرؓ نے جب کوفہ کی چھاؤنی قائم کی اور وہاں بڑے بڑے رؤسائے عرب آباد کئے تواُن کی دینی تعلیم کے لیئے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کووہاں مبعوث فرمایا اور اُنہیں لکھا: اے اہلِ کوفہ! میں نے تمھیں اپنے اُوپرترجیح دی ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ کوتمہارے پاس بھیج دیا ہے؛ ورنہ میں اُنہیں اپنے لیئے رکھتا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمرؓ جیسے بزرگ بھی اپنے آپ کو عبداللہ بن مسعودؓ کے علم سے مستغنی نہ سمجھتے تھے، حضرت عمار بن یاسرؓ جب کوفہ کے امیر بنائے گئے توحضرت عمرؓ نے کوفہ والوں کو لکھا: "قد بعثت اليكم عمار بن ياسر اميرا وعبد الله بن مسعود معلما ووزيرا، وهما من النجباء من اصحاب محمد صلى الله عليه وآله من اهل بدر، فاقتدوا بهما واسمعوا، وقد آثرتكم بعبد الله بن مسعود على نفسي"۔ (تذکرہ:۱/۱۴) ترجمہ:میں نے تمہاری طرف عمار بن یاسرؓ کوامیر اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو معلم اوروزیر بناکر بھیجا ہے اور دونوں حضورؐ کے اعلیٰ درجہ کے صحابہؓ میں سے ہیں اور اہلِ بدر میں سے ہیں تم ان دونوں کی پیروی کرنا اور بات ماننا اور عبداللہ بن مسعودؓ کوبھیج کر میں نے تمھیں اپنے آپ پرترجیح دی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اُن دنوں بھی مجتہد صحابہؓ کی پیروی جاری تھی، جوصحابہؓ اس اجتہادی شان پر نہ سمجھے جاتے تھے انہیں ان مجتہدین صحابہؓ کی پیروی کا حکم تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی علمی شہرت تواِس قدر اُونچی تھی کہ آپؓ کے شاگرد کسی صحابی کوبھی علم میں ان سے آگے نہ سمجھتے تھے؛ بلکہ بڑے بڑے صحابہؓ مشکلات مسائل میں آپؓ کے تلامذہ کی طرف رجوع کرتے تھے، آپ حدیث کم روایت کرتے تھے، حضورﷺ کی طرف الفاظ کی نسبت کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیتے، امام ابوحنیفہؒ کوفہ میں آپؓ کی ہی مسندِ علمی کے وارث ہوئے اور آپؒ نے آپؓ کی مسند کو اپنے فیضِ علم سے اور شہرت بخشی، امام ابوحنیفہؒ کے مشہور فقہی مختارات مثلاً نماز میں رکوع کرتے وقت رَفع یدین نہ کرنا، امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھنا، نماز میں آمین آہستہ آواز سے کہنا وغیرہ یہ سب سنن حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ہی مختارات ہیں اور حق یہ ہے کہ آپؓ کی ہی ذاتِ کریمہ تحقیق کی دُنیا میں حنفی مذہب کی اصل قرار پاتی ہے، آپؓ کے صاحبزادہ عبدالرحمنؒ کے پاس ایک کتاب دیکھی گئی، جس کے بارے میں وہ قسم کھاکر کہتے تھے کہ یہ اُن کے والد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔ (جامع بیان العلم لابن عبدالبر:۱/۱۷) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؓ حدیث لکھنے کے خلاف نہ تھے اور وہ روایات جن میں حضرت عمرؓ کا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت ابوالدرداءؓ اور حضرت ابوذرغفاریؓ کو روایتِ حدیث سے روکنا اور قید کرنا مذکور ہے وہ روایۃً ہرگز صحیح نہیں، اُن کے راوی ابراہیم بن عبدالرحمن (ولادت:۲۰ھ) نے حضرت عمرؓ کا زمانہ نہیں پایا، کوفہ صرف حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ہی مرکزِعلمی نہ تھا، حضرت عمرؓ کے حکم سے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بھی یہاں تشریف لاچکے تھے اور جن صحابہؓ نے وہاں سکونت اختیار کی وہ بھی ایک ہزار پچیس کے قریب تھے، جن میں چوبیس حضراتؓ بدری بھی تھے، ابوالحسن احمدؒ عجلی کی روایت میں وہاں بسنے والے صحابہؓ کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے قریب تھی۔