انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** سات قرّاء بہرِحال! علامہ ابن مجاہد رحمہ اللہ کے اس عمل سے جو سات قاری سب سے زیادہ مشہور ہوئے وہ یہ ہیں: (۱)عبداللہ بن کثیر الداری رحمہ اللہ (متوفی: ۱۲۰ھ) آپ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی زیارت کی تھی اور آپ کی قرأت مکہ مکرمہ میں زیادہ مشہور ہوئی اور آپ کی قرأت کے راویوں میں بزی رحمہ اللہ اور قنبل رحمہ اللہ زیادہ مشہور ہیں۔ (۲)نافع بن عبدالرحمن بن ابی نعیم رحمہ اللہ (متوفی: ۱۶۹ھ) آپ نے ستر ایسے تابعین سے استفادہ کیا تھا جو براہِ راست حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے، آپ کی قرأت مدینہ طیبہ میں زیادہ مشہور ہوئی اور آپ کے راویوں میں ابوموسیٰ قالون رحمہ اللہ (متوفی: ۲۲۰ھ) اور ابوسعید ورش رحمہ اللہ (متوفی: ۱۹۷ھ) زیادہ مشہور ہیں۔ (۳)عبداللہ الحصبی رحمہ اللہ جو ابن عامر رحمہ اللہ کے نام سے معروف ہیں (متوفی: ۱۱۸ھ) آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ اور حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی زیارت کی تھی اور قرأت کا فن حضرت مغیرہ بن شہاب مخزدمی رحمہ اللہ سے حاصل کیا تھا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے، آپ کی قرأت کا زیادہ رواج شام میں رہا اور آپ کی قرأت کے راویوں میں ہشام رحمہ اللہ اور ذکوان رحمہ اللہ زیادہ مشہور ہیں۔ (۴)ابوعمرو زبان بن العلاء رحمہ اللہ (متوفی: ۱۵۴ھ) آپ نے حضرت مجاہد رحمہ اللہ اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور آپ کی قرأت "بصرہ" میں کافی مشہور ہوئی، آپ کی قرأت کے راویوں میں ابوعمرالدوری رحمہ اللہ (متوفی: ۲۴۶ھ) اور ابوشعیب سوسی رحمہ اللہ (متوفی: ۲۶۱ھ) زیادہ مشہو رہیں۔ (۵)حمزۃ بن حبیب الزیات مولیٰ عکرمہ بن ربیع التیمی رحمہ اللہ (متوفی: ۱۸۸ھ) آپ سلیمان اعمش رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں، وہ یحییٰ بن وثاب رحمہ اللہ عنہ کے، وہ زرّ بن حبیش رحمہ اللہ کے اور انھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے استفادہ کیا تھا، آپ کے راویوں میں خلف بن ہشام (متوفی: ۱۸۸ھ) اور خلاد بن خالد رحمہ اللہ (متوفی: ۲۲۰ھ) زیادہ مشہور ہیں۔ (۶)عاصم بن ابی النجود الاسدی رحمہ اللہ (متوفی: ۱۲۷ھ) آپ زرّبن حبیش رحمہ اللہ کے واسطہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اور ابوعبدالرحمن سلمی رحمہ اللہ کے واسطہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں، آپ کی قرأت کے راویوں میں شعبہ بن عیاش رحمہ اللہ (متوفی: ۱۹۳) اور حفص بن سلیمان رحمہ اللہ (متوفی: ۱۸۰ھ) زیادہ مشہور ہیں، آجکل عموماً تلاوت انہی حفص بن سلیمان رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق ہوتی ہے۔ (۷)ابوالحسن علی بن حمزۃ الکسائی النحوی رحمہ اللہ (متوفی: ۱۸۹ھ) ان کے راویوں میں ابوالحارث مروزی رحمہ اللہ (متوفی: ۲۴۰ھ) اور ابوعمر الدّوری رحمہ اللہ (جو ابوعمرو رحمہ للہ کے راوی بھی ہیں) زیادہ مشہور ہیں، مؤخرالذکر تینوں حضرات کی قرأتیں زیادہ ترکوفہ میں رائج ہوئیں؛ لیکن جیسا کہ پیچھے عرض کیا جاچکا ہے ان سات کے علاوہ اور بھی کئی قرأتیں متواتر اور صحیح ہیں؛ چنانچہ بعد میں جب یہ غلط فہمی پیدا ہونے لگی کہ صحیح قرأتیں اِن سات ہی میں منحصر ہیں تو متعدد علماء (مثلاً علامہ شذائی رحمہ اللہ اور ابوبکر بن مہران رحمہ اللہ) نے سات کے بجائے دس قرأتیں ایک کتاب میں جمع فرمائیں؛ چنانچہ "قرأت عشرہ" کی اصطلاح مشہور ہوگئی، ان دس قرأتوں میں مندرجۂ بالا سات قرّاء کے علاوہ ان تین حضرات کی قرأتیں بھی شامل کی گئیں۔ (۱)یعقوب بن اسحق حضرمی رحمہ اللہ (متوفی: ۲۰۵ھ) آپ کی قرأت زیادہ تربصرہ میں مشہور ہوئی۔ (۲)خلف بن ہشامؒ (متوفی: ۲۰۵ھ) جو حمزہ رضی اللہ عنہ کی قرأت کے بھی راوی ہیں، آپ کی قرأت "کوفہ" میں زیادہ رائج تھی۔ (۳)ابوجعفر یزید بن القعقاع رحمہ اللہ (متوفی: ۱۳۰ھ) جن کی قرأت مدینہ طیبہ میں زیادہ رائج ہوئی۔ اس کے علاوہ بعض حضرات نے چودہ قاریوں کی قرأتیں جمع کیں اور مذکورہ دس حضرات پر مندرجہ ذیل قرّاء کی قرأتوں کا اضافہ کیا: (۱)حسن بصری رحمہ اللہ (متوفی: ۱۱۰ھ) جن کی قرأت کا مرکز "بصرہ" تھا۔ (۲)محمد بن عبدالرحمن ابن محیض رحمہ اللہ (متوفی: ۱۲۳ھ) جن کا مرکز "مکہ مکرمہ" میں تھا۔ (۳)یحییٰ بن مبارک یزیدی رحمہ اللہ (متوفی: ۲۰۲ھ) جو "بصرہ" کے باشندے تھے۔ (۴)ابوالفرج شنبوذی رحمہ اللہ (متوفی: ۳۸۸ھ) جو "بغداد" کے باشندے تھے۔ بعض حضرات نے چودہ قاریوں میں حضرت شنبوذی رحمہ اللہ کے بجائے حضرت سلیمان اعمش رحمہ اللہ کا نام شمار کیا ہے، ان میں سے پہلی دس قرأتیں صحیح قول کے مطابق متواتر ہیں اور ان کے علاوہ شاذ ہیں۔ (مناہل العرفان، بحوالۂ منجدالمقرنین لابن الجزریؒ)