انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مذہبی زندگی کے مظاہر مختلفہ تسبیح وتہلیل تسبیح وتہلیل پاک مذہبی زندگی کی مخصوص علامات ہیں اور صحابیات میں یہ علامت پائی جاتی ہے، ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا سامنے کنکری یاگٹھلی رکھ کرتسبیح پڑھ رہی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا توفرمایا کہ اس کی کیا ضرورت ہے؟ میں اس سے آسان ترکیب بتاتا ہوں، اس کے بعدایک دعا بتادی۔ (ابوداؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب التَّسْبِيحِ بِالْحَصَى) مقاماتِ مقدسہ کی زیارت حصولِ برکت کا شوق صحابیات کومقاماتِ مقدسہ کی طرف کھینچ لے جاتا تھا ایک بار ایک صحابیہ بیمار ہوئیں اور یہ نذرمانی کہ اگرخدا شفادے گا توبیت المقدس میں جاکر نماز پڑھوں گی، صحت یاب ہوئیں توسامانِ سفر کیا اور رخصت ہونے کے لیے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئیں انہوں نے کہا کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں نماز پڑھ لو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد کی ہزاروں نمازوں سے بہتر ہے۔ (مسلم،كِتَاب الْحَجِّ،بَاب فَضْلِ الصَّلَاةِ بِمَسْجِدَيْ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ) ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے مسجد قبا تک پاپیادہ جانے کی نذرمانی تھی، ابھی نذرپوری کرنے بھی نہیں پائی تھیں کہ انتقال ہوگیا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فتویٰ دیا کہ ان کی صاحبزادی نذرپوری کریں۔ (موطائے امام محمد،باب الرجل يحلف بالمشي إلى بيت الله) فرائضِ مذہبی ادا کرنے میں جسمانی تکلیفیں اُٹھانا شوقِ عبادت ہرقسم کی جسمانی تکلیفوں کوآسان کردیتا ہے اور صحابیات میں یہ شوق موجود تھا اس لیے وہ ہرقسم کی تکلیفیں برداشت کرتی تھیں اور فرائض اسلام کوبخوشی ادا کرتی تھیں حضرت حمنہ بنتِ جحش رضی اللہ عنہا ایک صحابیہ تھیں ان کا معمول تھا کہ برابر مصروفِ نماز رہتی تھیں جب تھک جاتی تھیں توستونِ مسجد میں ایک رسی باندھ رکھی تھی اس سے لٹک جاتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس رسی کودیکھا توفرمایا ان کوصرف اسی قدر نماز پڑھنی چاہئے جوان کی طاقت میں ہو؛ اگرتھک جائیں توبیٹھ جانا چاہئے؛ چنانچہ وہ رسی کھلواکر پھنکوادی۔ (ابوداؤد،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب النُّعَاسِ فِي الصَّلَاةِ) پابندی قسم ہم لوگ بات بات پرقسم کھایا کرتے ہیں اور ہم کویہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کس قدر ذمہ داری کا کام ہے؛ لیکن صحابیات بہت کم قسم کھاتی تھیں اور جس بات پرقسم کھالیتی تھیں اس کوپورا کرتی تھیں ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوگئیں اور قسم کھالی کہ اب ان سے بات چیت نہ کریں گی؛ لیکن جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے معافی مانگ لی اور دوسرے صحابہ نے بھی اس کی سفارش کی توروکرکہنے لگیں: إِنِّي نَذَرْتُ وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ۔ (بخاری، كِتَاب الْأَدَبِ،بَاب الْهِجْرَةِ،حدیث نمبر:۵۶۱۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: میں نے نذرمان لی ہے اور نذر کا معاملہ نہایت سخت ہے۔ بالآخراصرار وسفارش سے ان کا قصور معاف کردیا توکفارۂ قسم میں ۴۰/غلام آزاد کئے۔