انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۶۰۔مجاہد بن جبیرؒ نام ونسب مجاہد نام، ابوالحجاج کنیت، قیس بن مخزومی کے غلام تھے۔ فضل وکمال اگرچہ مجاہد غلام تھے،لیکن اقلیم علم کے تاجدار تھے،علمی اعتبار سے وہ امامِ وقت تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں ‘کان فقیھا عالما ثقۃ کثیر الحدیث ’ حافظ ذہبی کا بیان ہے کہ وہ علم کا ظرف تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۰)امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت اورامامت پر سب کا اتفاق ہے (تہذیب الاسماء،ج اول،ق ۲،ص۸۳) ان کو تفسیر حدیث اورفقہ جملہ علوم میں درجہ امامت حاصل تھا۔ قرأت وتفسیر قرأت اورتفسیر کے اس عہد کے نہایت نامور عالم تھے،تفسیر انہوں نے خیر الامۃ ابن عباس سے حاصل کی تھی اور پورے تیس مرتبہ ان سے قرآن کا دورہ کیا تھا اور اس محنت اورتحقیق کے ساتھ کہ ہر ایک سورہ پر رک کر اس کی شانِ نزول اوراس کے جملہ متعلقات پوچھتے جاتے تھے (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۳)اس محنت اورابن عباس جیسے مفسر قرآن کی تعلیم نے ان کو بہت بڑا مفسر بنادیا،خصیف کا بیان ہے کہ مجاہد تفسیر کے سب سے بڑے عالم تھے قتادہ کہتے تھے کہ اس وقت کے باقیات صالحات میں مجاہد تفسیر کے سب سے بڑے عالم ہیں (تذکرہ الحفاظ:۱/۸۰)قرآن کے قاری بھی تھے۔ حدیث حدیث کے بھی وہ نہایت مشہور حافظ تھے،امام ذہبی ان کو مضر اورحافظِ حدیث ابن سعد کثیر الحدیث اورامام نووی امام حدیث لکھتے ہیں(تہذیب التہذیب:۱۰/۴۴)حبر الامۃ عبداللہ بن عمرؓ ان کے حفظ کے اتنے معترف تھے کہ فرماتے تھے کہ کاش نافع کا حفظ بھی تمہاری طرح ہوتا ۔ (دیکھو کتب مذکور حالات مجاہد) اکابر صحابہ میں انہوں نے حضرت علیؓ،ابن عمرؓ،ابن عباسؓ عبداللہ بن زبیرؓ، عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ، ابو سعید خدریؓ، ابوہریرہؓ،سعد بن ابی وقاصؓ،رافع بن خدیجؓ،عائشہ صدیقہؓ جویریہ بنت حارثؓ،ام ہانیؓ اورتابعین میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ،طاؤس ،عبداللہ بن سائب عبداللہ بن سنجرہ،عبدالرحمن بن صفوان ،عمر بن اسود،مورق العجل، ابو عیاش الزرق اورابو عبیدہ ابن عبداللہ بن مسعود وغیرہ سے استفادہ کیا تھا۔ (شذرات الذہب :۱/۱۲۵) ان کے تلامذہ کا دائرہ بھی خاصہ وسیع تھا،ایوب سختیانی،عطاء،عکرمہ بن عون عمرو بن دینار،ابواسحٰق سبیعی،ابو الزبیر مکی،قتادہ جیب بن ابی ثابت،حسن بن عمرو، سلمہ بن کہیل سلیمان الاحول،سلیمان الاعمش،مسلم البطین ،طلحہ بن مصرف اورعبداللہ بن کثیر قاری وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ (ایضاً) اخلاص فی العلم علم کا مقصد کسی نہ کسی دنیاوی منفعت سے کم خالی ہوتا ہے لیکن مجاہد کا دامن ان تمام آمیزشوں سے بالکل پاک تھا، مسلمہ بن کہیل کا بیان ہے کہ عطاء طاؤس اورمجاہد کے علاوہ میں نے کسی کو نہیں پایا،جس کا مقصد علم سے خالصۃً لوجہ اللہ رہا ہو۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۳) زہد وورع علم کے ساتھ ان میں زہد وورع بھی اسی درجہ کا تھا، ابن حبان لکھتے ہیں کہ مجاہد فقیہ متورع اورعابد وزاہد تھے۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۴) دنیا سے بے تعلقی وہ دنیا سے ہمیشہ بے تعلق اور بیگانہ رہے،اس سے ان کا دل اس قدر برداشتہ تھا کہ کسی دنیاوی چیز سے دلچسپی نہ لیتے تھے،ہمیشہ مغموم رہا کرتے ،اعمش کا بیان ہے کہ مجاہد کو جب ہم دیکھتے مغموم پاتے ان سے کسی نے اس کا سبب پوچھا،جواب دیا کہ عبداللہ بن عباسؓ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ عبداللہ دنیا میں اس طرح رہو کہ معلوم ہوکہ مسافر یا راہ رو ہو۔ (شذرات الذہب :۱/۱۲۵) سادگی ظاہر زیب وزینت سے اتنے بے پرواہ تھے کہ ان میں اور ادنی درجہ کے آدمیوں میں امتیاز مشکل تھا، اعمش کابیان ہے کہ جب میں مجاہد کو دیکھتا تھا تو (ان کی ظاہری حالت سے ) ان کو نہایت حقیر سمجھتا تھا، وہ اپنی ظاہری وضع سے سائیس معلوم ہوتے تھے جس کا گدھا گم ہوگیا ہو اوروہ حالتِ پریشانی میں اس کو تلاش کررہا ہو (شذرات الذہب:۱/۱۲۵) لیکن اس سے ان کی علمی عظمت میں کوئی فرق نہ آتا تھا،جب وہ بولتے تھے تو منہ سے موتی ٹپکتے تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۰) بڑے بڑے صحابہ ان کی عظمت ووقعت کرتے تھے،حضرت عبداللہ بن عمرؓ جیسے بزرگ ان کی سواری کی رکاب تھام لیتے تھے۔ (ایضاً) سیر وسیاحت مجاہد کو سیروسیاحت اورعجائبات عالم دیکھنے کا بہت شوق تھا،انہوں نے آس پاس کے تمام عجائبات دیکھے تھے۔ وفات سنہ وفات کے بارہ میں روایات مختلف ہیں، باختلاف روایت ۱۷۲ھ یا ۱۰۳ ھ میں وفات پائی،عین سجدہ کی حالت میں سفرِ آخرت کیا وفات کے وقت ستر اسی سال کی عمر تھی۔ (ایضاً)