انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلافت جب سلیمان بن عبدالملک کا انتقال ہوا تورجاء بن حیوٰۃ وابق کی مسجد میں گئے، تمام بنواُمیہ اور اعیانِ لشکر کوجمع کیا، سربمہرفرمان ولی عہدی ان کے پاس تھا؛ انھوں نے سب کوخلیفۂ کے فوت ہونے کی خبر سناکر دوبارہ اس ملفوف سربمہر فرمان پرلوگوں سے بیعت لی؛ پھرسب کے سامنے اس سربمہر فرمان کوکھول کرپڑھا اور لوگوں کوسنایا اس میں سلیمان بن عبدالملک نے لکھا تھا کہ: یہ تحریر بندۂ خدا امیرالمؤمنین سلیمان بن عبدالملک کی طرف سے عمر بن عبدالعزیز کے نام ہے، میں نے اپنے بعد تم کواور تمہارے بعد یزید بن عبدالملک کوخلافت کا ولی عہد مقرر کیا، پس لوگوں کوچاہیے کہ وہ سنیں اور اطاعت کریں اور خدا سے ڈریں اور آپس میں اختلاف نہ کریں؛ تاکہ دوسروں کوتمہارے مغلوب کرنے کی طمع نہ ہو۔ اس فرمان کوسن کرہشام بن عبدالملک نے کہا کہ ہم عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کریں گے؛ مگررجاء بن حیوٰۃ نے جرأت سے کام لے کرنہایت سختی سے فوراً جواب دیا کہ میں تمہاری گردن اُڑادوں گا، ہشام یہ سن کرخاموش ہوگیا، عبدالملک کی اولاد اس وصیت اور فرمان کواپنی حق تلفی کا موجب سمجھتی تھی؛ لیکن عام طور پرلوگ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کوبہت ہی پسند کرتے اور آپ کے سوا کسی دوسرے کا خلیفہ ہونا نہیں چاہتے تھے ادھر عمربن عبدالعزیز کے بعد یزید بن عبدالملک کوچونکہ خلافت کے لیے ولی عہد بنادیا تھا؛ لہٰذا اولاد عبدالملک کوکسی قدر تسکین بھی ہوتی تھی کہ عمر بن عبدالعزیز کے بعد خلافت پھرہمارے ہی گھرانے میں آجائے گی، جب رجاء نے سلیمان کامذکورہ وصیت نامہ سنایا توعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ خلافت کے لے اپنا نام سن کر إِنَّالِلّٰہِ وَإِنَّاإِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھ رہے تھے، عمر بن عبدالعزیز اس تحریر کوسن کراپنی جگہ بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے، رجاء بن حیوٰۃ نے ہاتھ پکڑ کران کواُٹھایا اور منبر پرلے جاکر ان کوبٹھایا، سب سے پہلے ہشام بن عبدالملک کوبلایا کہ آکر بیعت کرو، ہشام بن عبدالملک آیا اور بیعت کی، ہشام کی بیعت کے بعد سب لوگوں نے بخوشی خاطر بیعت کی اور کسی نے کسی قسم کی چون وچرا نہ کی، بیعت کے بعد حضرت عمربن عبدالعزیز نے سلیمان بن عبدالملک کے جنازہ کی نماز پڑھائی اور دفن سے فارغ ہوکر چلے تولوگوں نے شاہی اصطبل کے گھوڑے لاکر حاضر کیے کہ آپ سوار ہوکر تشریف لے جائیں، آپ نے فرمایا کہ میری سواری کے لے میرا ذاتی خچر کافی ہے؛ چنانچہ آپ اسی اپنے خچر پرسوار ہوکر اپنے خیمہ تک آئے، لوگوں نے آپ کوقصرِ خلافت میں لے جانا چاہا، آپ نے فرمایا کہ وہاں ایوب بن سلیمان کے اہل وعیال ہیں، جب تک وہ وہاں رہیں گے میں اپنے خیمہ میں رہوں گا، بیعتِ خلافت کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے لوگوں کومخاطب کرکے جوتقریر کی وہ اس طرح تھی کہ: (حمدوثنا کے بعد) لوگو! قرآن شریف کے بعد ایسی کوئی کتاب نہیں اور آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں، میں کسی چیز کوشروع کرنے والا نہیں؛ بلکہ پورا کرنے والا اہوں، میں مبتدع نہیں متبع ہوں، میں کسی حال میں تم سے بہتر نہیں ہوں؛ البتہ میرا بوجھ بہت زیادہ ہے جوشخص ظالم بادشاہ سے بھاگ جائے وہ ظالم نہیں ہوسکتا، یادرکھو! کہ احکامِ الہٰی کے خلاف کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ جب آپ سلیمان بن عبدالملک کے کفن دفن سے فارغ ہوکر واپس آرہے تھے توآپ کے غلام نے کہا کہ آپ بہت ہی غمگین نظر آتے ہیں، آپ نے اس کوجواب دیا کہ آج اس دنیا میں اگرکوئی شخص غمگین ہونے کے قابل ہے تووہ میں ہوں مجھ پریہ بوجھ کیا کم ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ قبل اس کے کہ میرا نامہ اعمال لکھا جائے اور مجھ سے جواب طلب ہو میں حق دار کواس کا حق پہنچادوں، آپ جب اپنے گھر میں بیتِ خلافتاور سلیمان کے دفن سے فارغ ہوکر داخل ہوئے توآپ کی داڑھی آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھی، آپ کی بیوی نے گھبراکر پوچھا کہ کیوں، خیرت تو ہے؟ آپ نے فرمایا کہ خیریت کہاں ہے، میری گردن میں اُمتِ محمدی کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، ننگے، بھوکے، بیمار، مظلوم، مسافر، قیدی، بچے، بوڑھے، کم حیثیت عیال داروغیرہ سب کا بوجھ میرے سرپرآں پڑا ہے؛ اسی خوف میں رورہا ہوں کہ کہیں قیامت میں مجھ سے پرسش ہو اور میں جواب نہ دے سکوں، خلیفہ ہونے کے بعد آپ نے اپنی بیوی فاطمہ بنتِ عبدالملک سے کہا کہ تم اپنے تمام زیورات بیت المال میں داخل کردو؛ ورنہ میں تم سے جدائی اختیار کرلوں گا؛ کیونکہ مجھ کویہ کسی طرح گوارا نہیں کہ تم اور تمہارے زیورات اور میں ایک گھر میں ہوں، ان کی بیوی نے فوراً اپنے تمام زیورات جن میں وہ ایک قیمتی موتی بھی تھا جوعبدالملک نے اپنی بیٹی کودیا تھا، سب مسلمانوں کے لیے بیت المال میں بھجوادیے، عمر بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد جب یزید بن عبدالملک خلیفہ ہوا تواس نے فاطمہ بنتِ عبدالملک سے کہا کہ آپ چاہیں تواپنے زیورات بیت المال سے واپس لے لیں، فاطمہ نے جواب دیا کہ جس چیز کومیں نے اپنی خوشی سے بیت المال میں داخل کردیا تھا، اب عمر بن عبدالعزیز کے بعد اس کوکیسے واپس لے سکتی ہوں۔ عبدالعزیز بن ولید سلیمان کی وفات کے وقت موجود نہ تھا، نہ اس کوعمر بن عبدالعزیز کی بیعت کا حال معلوم تھا، سلیمان کی وفات کا حال سن کراس نے خلافت کا دعویٰ کیا اور فوج لےکردمشق کی جانب آیا، جب دمشق کے قریب پہنچا اور عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کا حال سنا توبلاتوقف ان کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت کی اور کہا کہ آپ کے ہاتھ پربیعت ہونے کا حال مجھ کومعلوم نہیں تھا، عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ اگرتم خلافت اور حکومت کے لیے مستعد ہوتے تومیں ہرگز تمہارا مقابلہ نہ کرتا اور لڑائی کے پاس نہ جاتا؛ بلکہ اپنے گھر بیٹھ جاتا، عبدالعزیز بن ولید نے کہا واللہ میں آپ کے سوا کسی دوسرے کومستحق خلافت نہیں سمجھتا۔ حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے تختِ خلافت پرمتمکن ہوتے ہی حکم جاری کیا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں کوئی شخص ناشدنی الفاظ ہرگز استعمال نہ کرے، اب تک بنواُمیہ میں عام طور پررواج تھا کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوبرا کہتے اور جمعہ کے خطبہ میں بھی ان پرلعن طعن سے دریغ نہ کرتے تھے، حجاج بن یوسف ثقفی کوآپ ظالم سمجھتے تھے اسی لیے سلیمان کے زمانے میں اس کے عاملوں اور متوسلوں کوجوحجاج کے نقش قدم پرچلتے تھے آپ نے معزول کرادیا تھا، یزید بن مہلب گورنر خراسان کوآپ براجانتے تھے؛ مگریہ آپ کومعلوم تھا کہ یزید بن مہلب نے جرجان کے علاقہ کا جزیہ وصول کرکے بیت المال میں نہیں بھجوایا ہے؛ چنانچہ آپ نے یزید بن مہلب کوطلب کیا اس نے حاضر دربار ہوکر مذکورہ رقم کے داخل کرنے میں عذر وانکار اور حیلے حوالوں سے کام لیا، آپ نے کہا کہ یہ مسلمانوں کا مال ہے، میں اس کومعاف کیسے کرسکتا ہوں؛ چنانچہ یزید بن مہلب کوآپ نے معزول کرکے قلعہ حلب میں قید کردیا اور اس کی جگہ جراح بن عبداللہ حکمی کوخراسان کی گورنری پربھیج دیا، مسلمہ بن عبدالملک اور اس کے لشکریوں کوجورومیوں کے مقابلے اور قسطنطنیہ کے محاصرہ میں مسلسل مصروف رہنے کے سبب شکستہ حال ہورہے تھے، آپ نے واپس بلوالیا، چند روز کے بعد آپ کے پاس جراح بن عبداللہ حکمی گورنرخراسان کی نسبت شکایت پہنچی کہ وہ موالی کو (آزاد کردہ غلام کو) بلاوظیفہ ورسد جہاد پربھیج دیتا ہے آپ نے یہ شکایت سن کرجراح بن عبداللہ کے پاس حکم بھیجا کہ جوشخص نماز پڑھتا ہو، اس کوجزیہ معاف کردو۔ لوگ یہ سنتے ہی جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے شروع ہوگئے، جراح بن عبداللہ کوان نومسلموں کی طرف سے اطمینان نہ تھا اس نے ختنہ کے ذریعہ لوگوں کا امتحان لیا، حضرت عمر بن عبدالعزیز کویہ خبر پہنچی توانھوں نے جراح کولکھ بھیجا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخدائے تعالیٰ نے داعی بناکر مبعوث کیا ہے، خائن بناکر نہیں بھیجا، اس کے بعد آپ نے جراح بن عبداللہ کواپنے پاس طلب کیا، جراح اپنی طرف سے عبدالرحمن بن نعیم کواپنا نائب مقرر کرکے خود دربارِ خلافت میں حاضر ہوا، آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تم کب خراسان سے روانہ ہوئے تھے، اُس نے عرض کیا کہ ماہِ رمضان المبارک میں، آپ نے فرمایا کہ جوشخص تجھ کوظالم بتاتا ہے وہ سچا ہے تونے کیوں نہ وہیں قیام کیا اور ماہِ صیام کے گزرنے کا انتظار کیوں نہ کیا، اس کے بعد آپ نے عبدالرحمن بن نعیم کوحرب اور نمازوں پرامیرمقرر کرکے عبدالرحمن قشیری کوخراج کا افسر مقرر کیا۔ آذربائیجان کے علاقہ پردشمنوں نے حملہ کرکے مسلمانوں کولوٹا، حضرت عمربن عبدالعزیز نے ابنِ حاتم باہلی کوفوج دے کراس طرف روانہ کیا اس نے وہاں پہنچ کردشمنوں کوقرار واقعی سزا دی اور اسلامی رعب ازسرِنوقائم کیا، سندھ کے لوگوں اور وہاں کے راجاؤں نے آپ کے ہی عہد میں بطیب خاطر اسلام قبول کیا اور سندھ میں اسلام کی خوب اشاعت ہوئی، اندلس کی طرف ضرورت پیش آئی توآپ نے اس طرف فوج معہ سازوسامان روانہ کی اسی طرح رومیوں کے مقابلہ میں بھی فتوحات حاصل ہوئیں۔