انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ہرچیز کی تحقیق کے لیے اس کی اہلیت چاہئے ہر خبر کی تفتیش کا سلیقہ ہر انسان نہیں رکھتا، بعض خبریں ایسی ہوتی ہیں ؛کہ ان کی تفتیش خاص افراد ہی کرسکتے ہیں،یہ تفتیش کے محکمہ جات کی طرف اشارہ ہے،ہر خبر کی تحقیق کے لیے اس کے مناسب اہلیت درکار ہے۔ "وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْرَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ "۔ (النساء:۸۴) ترجمہ: جب ان کے پاس کوئی امن یاڈر کی کوئی خبر آتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں، اگراس کو رسول یا اپنے علماء وحکام تک پہنچادیتے تو جو ان میں ملکہ استنباط رکھنے والے شخص تھے وہ اس کوپورے طورپر معلوم کرلیتے۔ روایتی پہلو میں جو چیز سب سے زیادہ حائل ہوسکتی ہے وہ مخبر اور شاہدوں کا بیان ہے؛ اس لیے ان کویہ تعلیم دی گئی ؛کہ اپنے بیان اور گواہی میں پوری احتیاط سے کام لیں، جھوٹ یا طرفداری کا شائبہ نہ آنے پائے؛ اس لیے جھوٹ بولنے یا ایک دوسرے پر جھوٹا الزام لگانے کی اتنی مذمت کی گئی کہ اس سے بد تر سوسائٹی کا کوئی عیب نہ رہا۔ ان بنیادی اصول کی روشنی میں مذہب اسلام جتنی ترقی کرتا رہا،اسی قدراس کے بنیادی تنقید کے اصول بھی ساتھ ساتھ ترقی کرتے رہے؛ حتی کہ اسناد، جرح و تعدیل، احوال روات ہر ایک کے لیے جدا جدا مستقل فن مرتب ہوگئے، علامہ جزائری نے "تو جیہ النظر" میں حدیث کے سلسلہ میں ۵۲ قسم کے علوم بالتفصیل بیان فرمائے ہیں جن کے مطالعہ کے بعد احادیث کے مفید یقین ہونے میں ایک منٹ کے لیے بھی شبہ کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔