انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
شیرز کی خرید وفروخت کی مختلف صورتیں کونسی کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت جائز ہے؟ نیز اسٹاک ایکسچینج والوں کوکمیشن دینے کا حکم اگرکمپنی کسی حرام کا روبار میں ملوث نہیں ہے اور اس کے کچھ اثاثے وجود میں آچکے ہیں تواس کے حصص کی خریدوفروحت جائز ہے اور اسٹا ایکسچینج والوں کواس پردلالی کا کمیشن دینا بھی جائز ہے؛ لیکن جوکمپنی حرام کاروبار میں ملوث ہو اس کے حصص کی خریدوفروخت جائز نہیں؛ نیز جس کمپنی کے اثاثے ابھی وجود میں نہ آئے ہوں؛ بلکہ اس کے سارے اثاثے نقد روپے کی شکل میں ہوں اس کے حصے کواس کی اصل قیمت (Facevalue) سے کم یازیادہ میں خریدنا بیچنا بھی حرام ہے۔ (فتاویٰ عثمانی:۳/۱۷۷) اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی خریدوفروخت اور شیئرز پرقبضے سے متعلق حکمِ شرعی کی تحقیق شیرز میں ڈے ٹریڈنگ جوفوری سودوں (Spot trading) اور مستقبل کے سودوں (Forward Trading) دونوں میں ہوتا ہے یعنی ایک شحص ایک ہی دن میں حصص خرید کراسی دن کسی اور شحص کووہ حصص بیچ دیتا ہے یہ صحیح نہیں، اس لیے کہ شریعت میں شئی پرقبضہ سے پہلے کسی اور کوبیچنا جائز نہیں اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ شیرز کے بارے میں عرفِ عام یہی ہے کہ سودے کے وقت محض اسٹاک ایکسچینج کے فوری اندراج کوقبضہ نہیں کہا جاتا؛ بلکہ کہا جاتا ہے کہ ڈیلیوری تین دن بعد ہوگی، ڈیلیوری کے معنی ہی قبضہ دینے کے ہیں؛ لہٰذا عرف نے اسی کوقبضہ قرار دیا ہے؛ اسی وجہ سے جب تک ڈیلیوری نہ ہوگی اس وقت تک فروخت کرنا درست نہیں اور مستقبل کے سودوں میں بیچنے والے کی ملکیت اور قبضے میں شیرز رہیں اور جس دن وہ بیچ رہا ہے اسی دن خریدار کوڈیلیوری دینے کے بعد پھروہی شیرز (جوخریدار کے نام منتقل ہوچکے ہیں) اپنے پاس گروی رکھ لے اور قیمت آئندہ تاریخ کے لیے اُدھار رکھی جائے تویہ صورت جائز ہوگی۔ (مفہوم فتاویٰ عثمانی:۳/۱۷۸) بدلہ کے معاملات اسٹاک ایکسچینج میں بدلہ کے معاملات اس طرح ہوتے ہیں کہ بعض اوقات ایک شخص بہت سے حصص خریدلیتا ہے؛ مگرقیمت ادا کرنے کے لیے اس کے پاس رقم نہیں ہوتی، ایسی صورت میں وہ خریدے ہوئے حصص کسی تیسرے شخص کواس شرط کے ساتھ بیچ دیتا ہے کہ وہ ایک طے شدہ مدت کے بعد خریدار سے وہی حصص زیادہ قیمت پرخریدلے گا، مثلاً الف نے بے سے یکم اپریل کوایک لاکھ روپے کے دس ہزار حصص خریدے؛ لیکن اس کے پاس ایک لاکھ روپے نہیں ہیں؛ لہٰذا وہ دس ہزار حصص ج کواس شرط کے ساتھ بیچتا ہے کہ ۳۱/اپریل کووہ یہی حصص ایک لاکھ دوہزار روپے میں واپس خریدلے گا؛ اس طریقِ کار میں شرعی اعتبار سے دوخرابیاں ہیں، ایک یہ کہ عموماً بدلے کا یہ معاملہ ڈیلیوری سے پہلے کیا جاتا ہے، جس کے بارے میں پیچھے بیان کیا جاچکا ہے کہ وہ بیع قبل القبض ہونے کی بناء پرنائز ہے، دوسرے ج کوجوشیئرز بیچے جارہے ہیں وہ زیادہ قیمت پرواپس خریدنے کی شرط کے ساتھ بیچے جارہے ہیں، یہ شرط فاسد ہے، جوبیع کوفاسد کردیتی ہے اور درحقیقت اس کا مقصد ایک لاکھ روپے لے کرایک لاکھ دوہزار روپے واپس کرنا ہے جوسود کی ایک شکل ہے، جس کے لیے اس بیع فاسد کوبہانہ بنایا گیا ہے، اس لیے بدلہ کے یہ معاملات بھی شرعاً ناجائز ہیں۔ (فتاویٰ عثمانی:۳/۱۸۸)