انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مغولانِ چنگیزی پر ایک نظر دنیائے اسلام کا نہایت عظیم الشان اور مشہور حادثہ بغداد کی تباہی ہے جو ہلاکوخان کے ہاتھ ہوئی،لیکن ہلاکو خان کا دادا چنگیزخاں اس سے پہلے عالم اسلام بالخصوص ایران وخراسان میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا چکا تھا،چنگیزخاں اورہلاکوخاں کے قتل وغارت نے مغولانِ چنگیزی کو عام طور پر مسلمانوں کی نگاہ میں مبغوض و ملعون بنا رکھا ہے ،مسلمانوں کا غصہّ کچھ بے جا نہیں لیکن اگر پہلے زمانے کے مسلمانوں کو غور وتامل کا موقعہ نہیں ملا تو آج ہم کو یہ موقعہ خوب حاصل ہے ،اس وقت تک جس قدر حالات کا ہم مطالعہ کرچکے ہیں،اُن سے ظاہر ہے کہ حکومت اسلامیہ میں وراثت اور حقوقِ خاندانی کے دخل پاجانے کی لعنت نے مسلمانوں کی حکومت وسلطنت کے تخت پر ایسے نالائقوں اور بد تمیزوں کو متمکن کردیا تھا جو کسی طرح بھی مسلمانوں کی سلطنت کو سنبھالنے اورحکومت اسلامیہ کے وقار کو قائم رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے، ان نالائقوں کی رہبری وسروری نے مسلمانوں کی قوم میں انواع واقسام کے اخلاق امراض اور بد اعمالیاں پیدا کردیں،ان بد اعمالیوں میں اضافہ تو ہوتا رہا لیکن ان کے علاج اوراصلاح کے لئے بااثر کوشش ممکن نہ تھی۔ چھٹی صدی ہجری کے خاتمہ پر سلطنت اسلامیہ بالخصوص خلافت بغداد کی حالت یقیناً ناقابل اصلاح ہوچکی تھی اور ویلمی سلجوقی وغیرہ سلاطین باوجود شوکت وعظمت و طاقت کے یہ جرأت نہ کرسکے تھے کہ خاندانِ خلافت کا قصہ پاک کرسکیں ،مسلمانوں میں عام طور پر یہ بد عقیدگی راسخ اور جزو مذہب بن چکی تھی کہ خاندان عباسیہ کے سوا کوئی اور شخص مسلمانوں کا خلیفہ اورشہنشاہ نہیں بن سکتا، اس بد عقیدگی نے مسلمانوں کو بڑے بڑے نقصانات پہنچائے تھے اوردیر تک حکومت سلطنت کے قائم رہنے سے خاندان عباسیہ میں لائق اور قابل حکمراں اشخاص پیدا ہونے بالکل بند ہوچکے تھے، اولوالعزمی اورسپاہیانہ خصائل جو مسلمانوں کا خصوصی نشان ہے بالکل ناپید تھے اس خطرناک اورنازک ترین حالت کی اصلاح آخر خدائے تعالیٰ نے خود ہی کی کیونکہ مسلمانوں کی حالت انتہائی پستی کو پہنچ چکی تھی،چنگیز خان اور مغولان چنگیزی ایک ایسے ملک اورایسی حالت میں رہتے تھے کہ ان کی طرف کسی کی بھی آنکھ نہیں اُٹھ سکتی تھی،یعنی ہو کسی قطاءوشمار میں نہین سمجھے جاتے تھے ،ایسے جاہل اوروحشی لوگوں سے یہ توقع کسی طرح نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ متمدن دنیا اورعالمِ اسلام کے فاتح بن سکتے ہیں، خدائے تعالی نے ان وحشی مغلوں اور غیر متمدن لوگوں کو اپنی مشیت کے ماتحت اُن کے وطن سے باہر نکالا اوراُن کافر مغلوں کو فاجر مسلمانوں کا سزادہندہ بنایا چنگیز خاں اورہلاکو خاں کی خوں ریزیاں درحقیقت اورایک ڈاکٹر جراح کی خوں ریزی سے بہت مشابہ تھیں جس طرح ایک ڈاکٹر نشتر سے شگاف دے کر ماؤف مقام سے خون نکالتا اور مواد فاسد کو خارج کرکے صحت و تندرستی کے واپس لانے کی کوشش کرتا ہے،اسی طرح مغولانِ چنگیزی نے خلافتِ بغداد کے تختے کو الٹ کر اپنی سفا کی وخوں ریزی سے رسم پرست اور بد عقیدہ مسلمانوں کو جس سلطنت اسلامیہ میں بلاد لیل وراثت کو لازمی قرار دیتے اورخاص خاندان کو حکمرانی کا مستحق ٹھہراتے تھے مرعوب مبہوت بناکر اپنی ایک آزاد وخود مختار سلطنت قائم کرلی،اسلام اُس طاقت اوراُس نظامِ سلطنت کا نام ہے جو عرب کے بے سروسامان اورغیر متمدن بدوؤں کو قیصر وکسریٰ کی سلطنتوں کا فاتح اورتمام دُنیا کا معلم بناسکتا ہے،مسلمانوں نے تعلیم اسلامی پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا، اور یہ نام کے بھی مسلمان نہ رہے تھےمسلمانوں کی نالائقی اورغلفت کا اس سے بڑھ کر اورکیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ وہ مغلوں سے مغلوب ہوگئے قرنِ اوّل کے مسلمانوں کو مغولان چنگیزی تو کیا فتح کرتے اُن سے بڑھ چڑھ کر اورزیادہ طاقتور تاتاری قبائل تھے،جو بڑی آسانی سے مسلمانوں کے مغلوب ومحکوم بن سکتے تھے سلجوقی بھی اس ملک کے باشندے اورمغلوں کے حاکم وفرماں رواسمجھے جاتے تھے لیکن انہوں نے بھی اسلام قبول کرنے کے بعد ہی حکومت و فرماں روائی کا حوصلہ پایا تھا،چنگیز خاں اوراس کی فوج کوئی غیر معمولی شائستگی اپنے اندر نہ رکھنے کے باوجود مسلمانوں پر اس لئے فتح پاسکے کہ اُس زمانے کے مسلمان اسلامی اخلاق کھوچکے تھے،مغلوں کو فتوحات اس لئے حاصل نہیں ہوئیں کہ وہ فتوحات کے زیادہ اہل تھے؛بلکہ اُن کو خدائے تعالیٰ نے اس لئے فاتح بنادیا تھا کہ مسلمانوں کی غفلت کا علاج ہوجائے،مغلوں نے خلافتِ بغداد کو برباد کرکے مسلمانوں کی اُس مذکورہ بدعقیدگی کو مٹایا اوراس بات کا موقعہ خود بخود پیدا ہوگیا کہ مسلمان اس مصیبت کے وقت میں مجبور ہوکر خالص اسلامی تعلیم کی طرف متوجہ ہوں۔ مغلوں کو مذہبِ اسلام سے نہ کوئی خاص عداوت تھی نہ کوئی ہمدردی،مغل بادشاہوں نے اپنے محکوم مسلمانوں کے مذہب سے واقف ہونا چاہا تو جوبات اُن کی سمجھ میں نہ آئی،اُس پر بے باکانہ معترض ہوئے اورجو بات سمجھ میں آگئی اُس کی تعریف وستائش کی،مغلوں کا انکار اُن پر کوئی مصیبت وخفت،اُن کی رعایا کی طرف سے نہیں لاسکتا تھا،مسلمانوں کی بعض بد عقیدگیوں اوررسم پرستیوں کے خلاف اگر کوئی مسلمان بادشاہ اس طرح معترض ہوتا تو مسلمان رعایا کہ طرف سے اُس کے خلاف ایک طوفان برپا ہوسکتا تھا،لیکن مغلوں کو یہ اندیشہ نہ تھا،اس طرح مسلمان مولویوں اوردربار رس مسلمانوں کو قدرتی طور پر یہ موقعہ ملا کہ وہ تمام پست خیالیوں تنگ نظریوں اورتقلید پرستیوں سے بالا تر ہوکر اسلام کا وہی نقظۂ نظر پیش کریں جو قرآن کریم پیش کرتا ہے اورجس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو تعلیم دی تھی، اس خالص اسلام پر کوئی معقولی اعتراض وارد ہی نہیں ہوسکتا اورجب یہ خالص اسلام کسی غیر جانب دار اورخالی الذہن شخص یا قوم کے سامنے پیش کیا جائے گا،اُس کو ضرور اسلام کی صداقت کا اقرار کرنا پڑے گا اس طرح مغلوں کے چیرہ دست ہونے سے خود مسلمانوں کے اندر اسلام کا اصلی رنگ نکھر گیا اوربجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ چنگیزخاں اورہلاکوخاں کے ذریعہ مسلمانوں کو جس قدر نقصان پہنچا،اگر مغلوں کی حکومت قائم ہوکر اسلامی حکومت کا نام ونشاب مٹ جاتا،تو یقیناً اس سے بڑھ کوئی روحانی ومذہبی نقصان نہ تھا مگر چند ہی روز بعد یہ مغل مسلمان ہوکر خود السام کے خادم بن گئے اوردنیا نے دیکھ لیا کہ جن مغلوں نے خلافتِ بغداد کو ملیا میٹ کیا تھا وہی سب سے زیادہ شعارئر اسلام کے قائم کرنے والے اوراسلام کے لئے اپنی گردنیں کٹانے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس حقیقت کی طرف بہت ہی کم مؤرخین کی توجہ مبذول رہی ہوگی کہ مغولستان وچین وترکستان کی طرف اسلام نے ہمیشہ زیادہاشاعت کا موقعہ پایا ہے،شام وروم مصر وطرابلس مراقش وچین وایران وخراسان وبلوچستان وغیرہ ممالک کے باشندوں نے اپنی جہالت وناواقفیت کے سبب قدم قدم پر مسلمانوں کو روکا ٹوکا اورمقابلہ کیا، اوّل اوّل ہر جگہ خون کے دریا بہانے کی نوبت آئی اُس کے بعد لوگوں نے اسلام کے سمجھنے اورسوچنے کا موقعہ پایا لیکن چین و ترکستان میں جب اسلام پہنچا تو وہاں کے باشندوں نے اسلام کے سمجھنے میں دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ دانائی اوربصیرت کا اظہار کیا،حضرت عثمانؓ غنی کے زمانے میں موراءالنہر کے اکثر باشندے مسلمان ہوچکے تھے مشرقی ترکستان اورتبت تک اسلام آچکا تھا،اُسی کے قریب زمانے میں عرب لوگ چین کے اندر بطور تاجر اوربطور لشکری داخل ہوچکے تھے،ان مسلمان عربوں کی صحبت سے چینیوں میں اسلام کی اشاعت شروع ہوگئی تھی،چین وترکستان میں اسلام نہایت تیز رفتاری کے ساتھ شائع ہوکر پہلی ہی صدی ہجری میں ان ملکوں کے تمام باشندوں کو اسلام کا حلقہ بگوش بنا چکا ہوتا مگر علویوں کی سازشی تحریک اوربنوامیہ کی بربادی کے لئے کوششوں نے اسلام کی اشاعت کو نقصان پہنچایا اورعالموں کی ذات ونفسانی اغراض نے اشاعتِ اسلام کے کام کو روکا اورمسلمانوں کی آپس کی مخالفتوں اورخانہ جنگیوں نے غیر مسلموں کو غیر مسلم ہی رکھنا چاہا،ورنہ باشندگان چین وقبیلے نے بلا کسی لالچ یا خوف کے بخوشی اسلام کو قبول کیا اوراسلام کا بہت بڑا خادم ثابت ہوا،ترکان غزنی نے جو ڈاکہ زن اورغارت گر کی حیثیت سے ممالکِ اسلامیہ میں داخل ہوئے تھے،بخوشی اسلام کو قبول کیا اوراُس کے خادم ثابت ہوئے آج بھی چین کے اندر آبادی کا بہت بڑا حصہ اسلام کا حلقہ بگوش اورخادم ہے یہ تمام چینی مسلمان کسی جنگی مہم اورفوجی کاروائی کا نتیجہ نہیں ہیں اورسب کے سب چین کے قدیم باشندوں کی نسلیں ہیں چنگیزخاں اوراُس کے ساتھی ممالک اسلامیہ میں فاتحانہ داخل ہوئے لیکن ان مغلوں نے اسلام کے سمجھنے اوراس کے تسلیم کرنے کی شروع ہی میں آمادگی ظاہر کی اور چند ہی روز کے بعد چنگیزخاں کی اولاد اسلام میں داخل ہوکر اسلام کی خادم بن گئی،عجیب اتفاق ہے کہ مغرب کے انتہائی ملکوں تک یعنی مراقش واندلس میں اسلام فاتحانہ تیغ وعلم کے سایہ میں پہنچا تو مشرق کے انتہائی ممالک یعنی چین اور بحرالکاہل کے جزیروں میں وہ بلا تیغ و علم محض سوداگروں یا واعظوں اورمبلّغوں کے ذریعہ پہنچا مسلمانوں نے فاتح بن کر اپنے مفتوحوں کو اسلام کا خادم بنالیا،اگر چنگیز خاں اورہلاکو خاں کی ملک گیریاں اورخوں ریزیاں ظہور میں نہ آتیں تو اسلام کی صداقت وعظمت کا یہ پہلو کہ وہ فاتحین کو بھی اپنا مفتوح بناسکتا ہے کسی قدر مشتبہ رہتا، پس مغلوں کی ترک وتازکو اگر ایک طرف عالمِ اسلام کے لئے مصیبت کبریٰ کہا جاسکتا ہے تو دوسری طرف اس کا نام رحمتِ عظیٰ رکھا جاسکتا ہے۔ ہر بلاکیں قوم راحق وادہ است زیرآن گنجِ کرم بنہادہ است بنی نوع انسان کی فطرت ہے کہ جب تک اُس میں جہالت و بے علمی کا زور شور ہوتا ہے اُس کے تمام کام شخص حکومت کے ذریعہ ہی درست رہ سکتے ہیں؛چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مطلق العنان شخص حکومتوں کے تصوّر کو انسان کی ابتدائی حالت اور زمانۂ جاہلیت سے جُدا نہیں کرسکتے، عہد جاہلیت میں جمہوریت کے معنی بجز فساد اورفتنہ کے اورکچھ ہو بھی نہیں سکتے،مغل لوگ بھی چین وتبت وترکستان کے پہاڑوں میں بدوانہ اورجاہلانہ زندگی بسر کرتے تھے، اُن کے یہاں قبیلہ کے سردار اوربادشاہ کا تصوّر نہایت عظیم الشان تھا، سردار قبیلہ کے اختیارات اور اُس کی عظمت و شوکت اس قدر بڑھی ہوئی ہوتی تھی کہ افرادِ قبائل اُس کو خدا ئے مجازی سمجھتے تھے، ہندوستان میں بھی راجہ اورمہاراجہ کی یہی حالت تھی؛بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ بادشاہ پرستی ممالکِ مشرقیہ کی خصوصیات میں داخل ہے، مغلوں نے چونکہ بہت جلد مشرقیہ ممالک کے تاجوں اورتختوں پر قبضہ کرلیا تھا،لہذا ُن کی حکومت میں بادشاہ پرسیت کا ابتدائی تصوّر بدستورموجود رہا اور متمدن وشائستہ ہونے کے باوجود بھی بادشاہ پرستی مغلوں کی شان میں باقی رہی،اسلام اورفطرت انسانی بادشاہ پرستی میں حد سے زیادہ ترقی کرنے کو مضر انسانیت قراردیتی ہے،مگر مغلوں کی بادشاہ پرستی سے اسلام کو یہ عظیم الشان فائدہ پہنچا کہ مغلوں کے صرف چند بادشاہوں کا اسلام میں داخل ہونا تمام قوم کے اسلام میں داخل ہونے کا موجب ہوگیا،یکایک ساری کی ساری قوم مسلمان ہوگئی،یہاں تک کہ مؤرخین نے صرف دو تین مغل سلاطین کے ابتداءً اسلام قبول کرنے کا تذکرہ کیا ہے، اس کے بعد ہر ایک مغل بادشاہ اوراُس کے اإرا مسلمان نظر آتے ہیں اوراس بات کو کہ کب کس نے اسلام کو قبول کیا قابلِ تذکرہ نہیں سمجھا گیا ؛کیونکہ سب کے سب ہی اسلام میں داخل ہوچکے تھے،صرف جو جی خاں کی اولاد نے محض اس وجہ سے کہ وہ ممالکِ اسلامیہ سے دور دور رہے کسی قدر دیر میں اسلام قبول کیا مگر آخر کار ازبکوں کی تمام قوم اسلام میں داخل ہوگئی تھی، یہ بھی کسی واقعہ سے ثابت نہیں ہوسکا کہ مغلوں نے اسلام کے قبول کرنے پر اپنے بادشاہ سے بغاوت کی اورمحض اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اُس کے دشمن بنے، انہوں نے اگر مسلمان بادشاہ ہونے کی مخالفت یا بغاوت کی تو محض مادّی اور دنیوی اغراض کی وجہ سے نہ کہ تبدیلی مذہب کے سبب،مغلوں نے چونکہ حکمراں اور فاتح ہونے کی حیثیت میں اسلام کو قبول کیا تھا،لہذا حکومت وسرداری نے اُن کو اسلام سے کماحقہ واقف ہونے کا موقعہ نہیں دیا اور اُن کی حالت کئی کئی پشتوں کے گذرنے تک بھی وہی رہی جو ابتداءً ایک نو مسلم کی ہوتی ہے یہی وجہ تھی کہ مغلوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا نہیں ہوئی کہ دوسری قوموں کو دعوتِ اسلام دے سکیں، اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مغلوں کے اکثر گروہ اوراکثر سردار کچھ عرصہ تک حالتِ کفر میں رہے،لیکن اُنہوں نے کبھی اُن خاندانوں اورسرداروں کے ساتھ رہنے اورمل کر کام کرنے سے انکار نہیں کیا،جو مسلمان ہوچکے تھے؛چونکہ مغلوں میں صلاحیت تبلیغ اسلام پیدا نہیں ہوئی تھی،لہذا غیر مسلم قبائل نے نہیں ؛بلکہ قدیم مُسلمانوں اوراُن کی مسلم رعایا ہی نے اسلام کی طرف توجہ کی۔ اس مذکورہ حقیقت کو ذہن نشین رکھنے کے بعد ہندوستان کے بادشاہ اکبر کی بعض مذہبی بداعمالیوں پر بھی تعجب باقی نہیں رہتا،مغلوں کے مقابلے میں تاتاری لوگ اسلام کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے اوراُن کی مذہبی واقفیت کسی زمانے میں بھی ایسی ناقص نہ تھی جیسی کہ مغلوں کی عرصۂ دراز تک رہی، یہی وجہ تھی کہ تاتاریوں اورسلجوقیوں نے اسلام کی تبلیغ میں ایسی کوشش کی اوراسلام کے لئے ایسی غیرت دکھائی کہ مغلوں میں اس کی مثالیں بہت ہی کم دستیاب ہوسکتی ہیں،ترکوں،تاتاریوں اورمغلوں میں کیا فرق ہے اورکس قسم کی رقابت ہے اس کے متعلق اوپر ذِکر آچکا ہے،پھر مغلوں کے اندر مسماۃ الانقوا کے بیٹوں کی اولاد سے الگ الگ قومیں پیدا ہوئیں، اس کا ذکر بھی اوپر آچکا ہے،ان میں بوز نجرابن الانقوا کی اولاد بوز نجری کہلائی اور وہ دوسری قوموں کے مقابلہ میں زیادہ مشہور اور پیش پیش رہی،اس بوز نجری قبیلہ میں تومنہ خاں ایک شخص ہوا،اُس کے دو بیٹے تھے، ایک قبل خاں دوسرا قاچولی بہادر، قبل خاں کی اولاد میں چنگیز خاں تھا جس کی اولاد مغولان چنگیزی کہلائیاور اُس کے حالات ابھی ہم اوپر مطالعہ کرچکے ہیں،دوسرے بیٹ قاچولی بہادر کا بیٹا ایرومجی برلاس تھا،اس ایرومجی برلاس کی اولاد قوم برشام کے نام سے موسوم ہوئی،ایرومجی برلاس کا پوتا امیر قراچار تھا، جس کا ذکر اوپر آچکا ہے،جو چنگیز خاں کے بیٹے چغتائی خاں کا امیر الامر اور سپہ سالار تھا، اس امیر قراچار کی اولاد میں امیر تیمور گورکان صاحب طبل و عَلَم اور وارثِ تخت وتاج رہی،جب اُن کا ستارہ اقبال غروب ہونے لگا تو قاچولی بہادر کی اولاد یعنی مغولانِ برلاس کی نوبت آئی اور امیر تیمور گورکان نے چنگیز خاں کی فتوحات کو پھر تازہ کردیا،مگر فرق صرف اس قدر تھا کہ چنگیز خان ایک نامسلمان باپ کا نامسلمان بیٹا تھا اور امیر تیمور ایک مسلمان اور باخدا باپ کا مسلمان بیٹا تھا،چنگیز خاں جن لوگوں سے لڑا اورجن کو اُس نے قتل کیا وہ مذہب وعقیدے میں چنگیز خاں کے موافق نہ تھے،لیکن امیر تیمور کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے زیادہ لڑنے کا موقعہ ملا جس طرح چنگیز خاں کی اولاد میں اُس کے مرنے کے بعد ایشیا کے بہت بڑے حصے کی حکومت و سلطنت رہی اسی طرح امیر تیمور کی اولاد میں بھی اُس کے بعد ایشیا کے اکثرملکوں کی بادشاہت باقی رہی،لہذا بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ تومنہ خاں کی اولاد نے قریباً چھ سو سال تک مسلسل براعظم ایشیا میں حکمرانی کی،مگر چونکہ امیر تیمور کا ذکر شروع کرنے سے ہم بہت دور آگے نکل جائیں گے،لہذا ہم کو اس وقت مغولان چنگیزی سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے۔