انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آپ ؓ کے قضایا وکلمات حضرت علیؓ نے فرمایا:خدا کا شکر ہے ،دین کے معاملہ میں میرا دشمن بھی مجھ سے استفتاء کرتا ہے،معاویہؓ نے مجھ سے پوچھ بھیجا ہے کہ خنثی مشکل کی میراث میں کیا کیا جائے، میں نے اسے لکھ بھیجا ہے کہ اس کی پیشاب گاہ کی صورت سے میراث کا حکم جاری ہونا چاہیے، یعنی اگر پیشاب گاہ مردوں کی مانند ہو تو اس کا حکم مرد کا ہوگا اوراگرعورت کی طرح ہو تو عورت کا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب بصرہ میں تشریف لے گئے تو قیس بن عبادہ نے آپ ؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ ؓ سے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے بعد تم خلیفہ بنائے جاؤ گے، اس معاملہ میں آپ سے بڑھ کر اور کون ثقہ ہوسکتا ہے، ہم آپ سے ہی دریافت کرتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے ،یہ سن کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: یہ بالکل غلط ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کوئی وعدہ فرمایا تھا۔ اگر فی الحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کوئی وعدہ فرمایا تھا تو میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر کیوں کھڑا ہونے دیتا اوران کو اپنے ہاتھ سے قتل نہ کردیتا ،چاہے میرا ساتھ دینے والا ایک بھی نہ ہوتا،بات یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری نے طول کھینچا تو ایک روز مؤذن نے حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے واسطے بلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو بکرؓ کو لے جاؤ وہ میری جگہ نماز پڑھائیں گے،لیکن اُم المومنین عائشہ صدیقہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ارادے سے باز رکھناچاہا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا اور فرمایا کہ تم حضرت یوسفؑ کے زمانے کی سی عورتیں ہو،ابوبکرؓ ہی کو لے جاؤ، جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو ہم نے اپنی جگہ غور کیاتو اس شخص کو اپنی دنیا کے لئے بھی قبول کرلیا،جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دین کے واسطے انتخاب فرمایا تھا؛ کیونکہ نماز اصل دین ہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم دین کے امیر اور دنیا کے قائم رکھنے والے تھے،پس ہم نے ابو بکر صدیقؓ کو مستحق سمجھ کر ان سے بیعت کرلی اوراسی لئے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا اورکسی نے کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں کیا،نہ کوئی متنفس ابوبکرؓ سے بیزار ہوا،لہذا میں نے بھی حضرت ابوبکرؓ کا حق ادا کیا، ان کی اطاعت کی،ان کے لشکر میں شامل ہوکر ان کی طرف سے لڑا، وہ جو کچھ مجھے دیتے تھے لے لیتا تھا،جہاں کہیں مجھے لڑنے کا حکم دیتے تھے لڑتا تھاا ور ان کے حکم سے حد شرع لگاتا تھا جب ان کا انتقال ہوا تو وہ حضرت عمرؓ کو اپنا خلیفہ بناگئے میں نے حضرت عمرؓ کے ساتھ بھی وہی برتاؤ کیا اوران کے ساتھ اسی طرح پیش آیا جس طرح حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ پیش آیا تھا، جب حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا تو میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میری پیش قدمی اسلام اور قرابت اوردوسری خصوصیات کو دیکھتے ہوئے حضرت عمرؓ میری خلافت کا حکم دے جائیں گے ؛لیکن وہ ڈر ے کہ کہیں ایسے شخص کو انتخاب نہ کر جاؤں جس کا انجام اچھا نہ ہو ؛چنانچہ انہوں نے اپنے نفس کے ساتھ اپنی اولاد کو بھی خلافت سے محروم کردیا،اگر حضرت عمرؓ بخشش وعطا کے اصول پر چلتے تو اپنے بیٹے سے بڑھ کر کس کو مستحق سمجھتے، غرض انتخاب اب قریش کے ہاتھ میں آیا جن میں سے ایک میں بھی تھا، جب لوگ انتخاب کے لئے جمع ہوئے تو میں نے خیال کیا کہ وہ مجھ سے تجاوز نہ کریں گے ، عبدالرحمن بن عوفؓ نے ہم سے وعدے لئے کہ جو کوئی خلیفہ مقرر کیا جائے گا ہم اس کی اطاعت کریں گے پھر انہوں نے عثمان ؓ کا ہاتھ پکڑ لیا،اب جو میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ مجھ سے جو وعدہ لیا گیا تھا وہ غیر کی اطاعت کے لئے لیا گیا تھا،لہذا میں نے عثمانؓ سے بیعت کرلی اوران کے ساتھ میں نے وہی سلوک کیا اوران سے اسی طرح پیش آیا جس طرح حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ کے ساتھ پیش آیا تھا جب ان کا بھی انتقال ہوگیا تو میں نے خیال کیا کہ وہ لوگ تو گذر گئے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امام بنایا تھا اوروہ بھی گذر گئے جن کے لئے مجھ سے وعدہ لیا گیا تھا تو میں بیعت لینے پر آمادہ ہوگیا، چنانچہ اہل حرمین (مکہ ومدینہ) نے اورکوفہ اور بصرہ کے رہنے والوں نے مجھ سے بیعت کرلی، اب اس معاملہ خلافت میں ایک ایسا شخص میرا مد مقابل ہے جس کی نہ قرابت میری مانند ہے نہ علم نہ سبقتِ اسلام، حالانکہ میں مستحق خلافت ہوں۔ ایک شخص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا کہ آپ ؓ نے ایک خطبہ میں کہا تھا کہ الہی ہم کو ویسی ہی صلاحیت عطا فرما جیسی تونے خلفائے راشدین کو فرمائی تھی تو آپ ؓ کے نزدیک وہ خلفائے راشدین کون تھے یہ سن کر حضرت علیؓ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اورفرمانے لگے وہ میرے دوست ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں،دونوں امام الہدیٰ اورشیخ الاسلام تھے، قریش نے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دونوں کی پیروی کی اورجن لوگوں نے ان کی پیروی کی انہوں نے نجات پائی اور جو لوگ ان کے راستے پر پڑگئے وہی گروہِ خدا ہیں،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جھوٹ سے سخت نفرت تھی،ایک مرتبہ آپ ؓ کچھ فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ ؓ کو جھٹلایا،آپ ؓ نے بددعا کی وہ ابھی مجلس سے اُٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ اس کی آنکھیں جاتی رہیں۔ ایک مرتبہ دو آدمی کھانا کھانے بیٹھے،ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین،اتنے میں ایک آدمی اور آگیا،ان دونوں نے اسے اپنے ساتھ کھانے پر بیٹھالیا،جب وہ تیسرا آدمی کھانا کھا کر چلنے لگا تو اس نے آٹھ درھم ان دونوں کو دے کر کہا کہ جو کچھ میں نے کھایا ہے اس کے عوض میں سمجھو،اس کے جانے کے بعد ان دونوں میں درھموں کی تقسیم کے متعلق جھگڑا ہوا،پانچ روٹیوں والے نے دوسرے سے کہا کہ میں پانچ درھم لوں گا اورتجھ کو تین ملیں گے؛ کیونکہ تیری روٹیاں تین تھیں، تین روٹیوں والے نے کہا: میں تو نصف سے کم پرہرگز راضی نہ ہوں گا، یعنی چار درھم لے کر چھوڑوں گا، اس جھگڑے نے یہاں تک طول کھینچا کہ وہ دونوں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوئے،آپ ؓ نے ان دونوں کا بیان سن کر تین روٹیوں والے سے کہا کہ تیری روٹیاں کم تھیں،تین درھم تجھ کو زیادہ مل رہے ہیں بہتر ہے تو رضا مند ہوجا، اس نے کہا جب تک میری حق رسی نہ ہوگی، میں کیسے راضی ہوسکتا ہوں ،حضرت علیؓ نے فرمایا کہ پھر تیرے حصہ میں صرف ایک درھم آئے گا اور تیرے ساتھی کے حصے میں سات درھم آئیں گے، یہ سن کر اس کو بہت ہی تعجب ہوا،اس نے کہا کہ آپ ؓ بھی عجیب قسم کا انصاف کررہے ہیں،ذرا مجھ کو سمجھا دیجئے کہ میرے حصہ میں ایک اور اس کے حصہ میں سات کس طرح آتے ہیں؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: سُنو: کل آٹھ روٹیاں تھیں اور تم تین آدمی تھے چونکہ یہ مساوی طور پر تقسیم نہیں ہوسکتیں لہذا ہر ایک روٹی کے تین ٹکڑے قرار دے کر کل چوبیس ٹکڑے سمجھو، یہ تو معلوم نہیں ہوسکتا کہ کس نے کم کھایا اورکس نے زیادہ، لہذا یہی فرض کرنا پڑے گا کہ تینوں نے برابر کھانا کھایا اورہر ایک شخص نے آٹھ آٹھ ٹکڑے کھائے،تیری تین روٹیوں کے نو ٹکڑوں میں سے ایک اس تیسرے شخص نے کھایا اورآٹھ تیرے حصہ میں آئے اور تیرے ساتھی کی پانچ روٹیوں کے پندرہ ٹکڑوں میں سے سات اس تیسرے شخص نے کھائے اورآٹھ تیرے ساتھی کے حصہ میں آئے؛چونکہ تیرا ایک ٹکڑا اورتیرے ساتھی کے سات ٹکڑے کھا کر اس نے آٹھ درھم دیئے ہیں،لہذا ایک درھم تیرا ہے، اور سات درھم تیرے ساتھی کے ،یہ سن کر اس نے کہا ہاں اب میں راضی ہوتا ہوں،ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ ؓ کے یہاں شکایت کی کہ فلاں شخص یہ کہتا ہے کہ اس نے خواب میں میری ماں سے جماع کیا ہے،آپ ؓ نے فرمایا: اس خواب بیان کرنے والے کو دھوپ میں کھڑا کرکے اس کے سایہ کے کوڑے لگاؤ۔