انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت وہیب بن خالدؒ نام ونسب وہیب نام، ابو بکر کنیت ،والد کا نام خالد اوردادا کا عجلان تھا(العبر فی خبر من غبر:۱/۲۴۶)باہلہ بنتِ اعصر سے نسبت ولاء رکھنے کی وجہ سے بابلی کہلاتے ہیں،سمعانی کا بیان ہے کہ: کانت العرب یستنکفون من الانتساب الیٰ باھلہ (کتاب الانساب للسمعانی ورق:۶۴) عرب بابلہ کی طرف انتساب کو بڑائی تصور کرتے تھے۔ وطن اور ولادت ۱۰۷ھ میں قبۃ الاسلام بصرہ میں پیدا ہوئے (الاعلام:۳/۱۱۴۱)غالباً کپڑوں کی تجارت کرتے تھے،اسی بنا پر کرابیسی اورصاحب الکرابسی کے القاب سے مشہور ہیں،جیسا کہ سمعانی اس نسبت کے متعلق رقمطراز ہیں، ھذہ النسبۃ الیٰ بیع الثیاب(کتاب الانساب السمعانی:۲۷۶) پہلی اور دوسری صدی کے متعدد علماء اس نسبت سے متصف ہیں۔ علم وفضل ان کی خوبی بخت نے انہیں نادرہ روزگار تابعین کرام کی صحبت میں پہنچا دیا تھا،جن سے وہ پوری طرح مستفیض ہوئے،حدیث کی مہارت،رجال کی بصیرت اور حفظ واتقان میں نہایت ارفع واعلیٰ مقام رکھتے تھے ان کا شمار بصرہ کے مشہور حفاظ اربعہ میں ہوتا تھا،احمد بن ابی رجاء کا قول ہے کہ: ھو فی التفقہ والعلم نظیر حماد (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۳) وہ علم وتفقہ میں حماد کی نظیر تھے۔ عمر بن علی کہتے ہیں: سمعت یحیی بن سعید ذکرہ فاحسن الثناء علیہ میں نے یحییٰ بن سعید کو ان کا ذکرِ خیر کرتے سُنا اورانہوں نے ان کی بڑی تعریف کی۔ شیوخ وتلامذہ وہیب نے اپنے عہد کی بکثرت متحرک درسگاہوں،یعنی علماء وائمہ سے اکتساب علم کیا تھا،جن میں ممتاز ویگانہ فن تابعین کی بھی خاصی تعداد شامل تھی،مشاہیر فضلاء میں ہشام بن عروہ،ایوب السختیانی یحییٰ بن سعید الانصاری،جعفر الصادق،حمید الطویل،عبداللہ بن طاؤس،منصور بن المعتمر داؤد بن ابی الہند،یحییٰ بن ابی اسحاق الحضرمی،خثیم بن عراک،موسیٰ بن عقبہ،ابن جریج ،سہیل بن ابی صالح،اورابی ھازم بن دینار وغیرہ کے اسمائے گرامی لائق ذکر ہیں۔ خود وہیب کے خوشہ چینوں کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے جن میں بلند پایہ اتباع تابعین کی بھی ایک جماعت شامل ہے،نمایاں نام یہ ہیں: اسماعیل بن علیہ،عبداللہ بن مبارک،عبدالرحمن بن مہدی،یحییٰ بن سعید القطان،یحییٰ بن آدم، ابوداؤد الطیالسی، ابو ہشام المخزومی،سلیمان بن حرب،موسیٰ بن اسماعیل ،مسلم بن ابراہیم،یحییٰ بن حسان، سہل بن بکار،ہدبہ بن خالد۔ کتنی مبارک اورپاکیزہ تھیں وہ ہستیاں جنہیں ایسے ایسے آفتابِ علم اساتذہ فن سے تلمذ کا شرف حاصل ہوا اور کتنے سعید وخوش بخت تھے وہ لوگ جنہیں ایسے ایسے نادرۂ روز گار تلامذہ کی مشیخت نصیب ہوئی، اس سلسلہ میں وہیب کو بلا شبہ امتیاز خاص حاصل ہے۔ حدیث وہ حدیث کے مسلم الثبوت اساتذہ میں تھے،اس میں ان کے تثبت واتقان اورثقاہت پر علماء کا اجماع ہے،ابن معین کا بیان ہے: "کان من اثبت شیوخ البصر یین" ابو حاتم کہتے ہیں: ما انقی حدیثہ لاتکا وتجدہ یحدث من الضعفاء ان کی حدیث کتنی صاف وشفاف ہوتی تھی آپ انہیں کسی ضعیف راوی سے روایت کرتے نہیں پائیں گے۔ علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں: کان ثقۃ کثیرالحدیث حجۃ وہ ثقہ کثیر الحدیث اورحجت تھے۔ رجال علومِ اسلامیہ میں فن اسماء الرجال کو بڑی اہمیت اور عظمت حاصل ہے احادیث کی صحت اور علوئے اسناد کا تمام تر مدار اسی علم پر ہے،اسی کی کسوٹی پر ناقدینِ فن حدیث کو جانچتے پرکھتے ہیں اور پھر اس کے پایہ ودرجہ کا تعین ہوتا ہے، یقینا یہ محدثین عظام کا ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے،جس کی بنا پر آج ہم احادیثِ نبویﷺ کے اتنے عظیم ذخیرے کی پوری صحت کا یقین رکھتے ہیں۔ وہیب بن خالد اس میں پوری بصیرت رکھتے تھے،امام شعبہ کو اس فن کا امام تسلیم کیا جاتا ہے،ابو حاتم کا بیان ہے کہ شعبہ کے بعد رجال کا عالم ان سے بڑا کوئی نہیں ہوا۔ لم یکن احد بعد شعبۃ اعلم بالرجال منہ (ایضاً) شعبہ کے بعد رجال کا عالم ان سے بڑا کوئی نہیں تھا امام الجرح والتعدیل عبدالرحمن بن مہدی کا قول ہے: کان من البصر اصحابہ بالحدیث والرجال (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۴۶) وہیب اپنے ساتھیوں میں سب سے زیادہ حدیث ورجال میں بصیرت رکھتے تھے۔ قوتِ حافظہ وہیب غیر معمولی قوت حافظہ کی دولت سے مالا مال تھے،ایک حادثہ میں بصارت کی نعمت سے محروم ہوگئے تھے؛ لیکن اپنے حافظہ کی بنیاد پر حدیثیں املا کرایا کرتے تھے،علامہ ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ: کان قدسجن فذھب بصرہ کان یملی من حفظہ انہیں مقید کردیا گیا تھا پس ان کی بصارت جاتی رہی تھی اوراپنے حافظہ سے املا کراتے تھے۔ اس صفت میں ان کو متعدد دوسرے حفاظ حدیث پر فوقیت دی جاتی ہے،ابن سعد ہی کا بیان ہے۔ کان احفظ من ابی عوانۃ (طبقات ابن سعد:۷/۴۳) وہ ابو عوانہ سے بڑے حافظ تھے۔ وفات ۱۶۵ھ میں راہی عالمِ جاوداں ہوئے (مرأۃ الجنان :۱/۳۵۲ والعبر فی خبر من غبر:۱/۲۴۶)وفات کے وقت ۵۸ سال کی عمر تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۳،وطبقات ابن سعد:۷/۴۳)