انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** یزیدی سلطنت پرایک نظر یزید کی سلطنت قریباً پونے چار سال رہی، اس کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کوکوئی فتح وکامیابی حاصل نہیں ہوئی؛ بلکہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی بست سالہ حکومت وخلافت کے بعد انرونی جھگڑوں اور بیرونی اقوام کی طرف سے غافل ہونے کا زمانہ شروع ہوگیا، یزید کے دامن پرسب سے بڑا داغ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ہے، جس نے اس کے اور دوسرے معائب کوبھی نمایاں کردیا ہے؛ لیکن اسی کے ساتھ اگرہمیں تحقیقِ حق منظور ہے توسکونِ قلب کے ساتھ واقعات کی تہ تک پہنچنے کی کوشش میں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور اس پرغور کرنا چاہیے کہ ان تمام مظالم اور ناشدنی برتاؤ کے جوحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ میدانِ کربلا میں ہوئے اصل محرکات کیا تھے۔ اس حقیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مغیرہ بن شعبہ کی تحریک پرامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کوولی عہد بنایا؛ ورنہ اس سے پہلے ان کواس کا خیال بھی نہ گذرا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کوخلیفہ بنانے کی تمنا کریں، سب سے پہلے اس تجویز کومغیرہ ہی نے کوفہ میں پروان چڑھایا؛ لیکن بنیادی طور پریہ تجویز چونکہ خلافتِ راشدہ کی سنت کے خلاف اور اسلامی جمہوریت کی روح کے منافی تھی؛ اس لیئے اسی وقت مدینہ منورہ میں اس کی مخالفت شروع ہوئی؛ چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہم نے اس کی شدت سے مخالفت کی، مروان نے جب اس مسئلہ کومدینہ میں صاحب الرائے اور سنجیدہ حلقوں کے سامنے رکھا توہرطرف سے اس کی مخالفت شروع ہوئی، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے صاف لفظوں میں کہا کہ ہمارے لیے خلیفہ کے انتخاب میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاءِ راشدین کے طریقہ کے سوا اور کوئی طریقہ پسندیدہ نہیں ہوسکتا، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر نے اس پراظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ امیرالمؤمنین نے انتخاب کا جوطریقہ اختیار کیا ہے، یہ سنتِ خلفاء راشدین نہیں بلکہ یہ توقیصروکسریٰ کا طریقہ ہے جوہمارے لیئے قابل قبول نہیں ہوسکتا، حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ انتخاب مسلمانوں کی بہتری کے لیے نہیں ہوسکتا، حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ انتخاب مسلمانوں کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ بربادی کے لیے کیا گیا ہے؛ کیونکہ اس طرح توخلافتِ اسلامیہ قیصروکسریٰ کی سلطنت سے مشابہ ہوجائے گی، کہ باپ کے بعد بیٹا تخت نشین ہو۔ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ان صاحبانِ بصیرت کوراضی کرنے کے لیے یہاں تک کہلوایا کہ آپ حضرات محض اس کوخلیفہ مان لیں، باقی ملک کا نظم ونسق، عہدیداروں کا تقرر وتبدل اور دوسرے انتظام مملکت وہ سب آپ حضرات ہی کے مشورے سے ہوگا؛ لیکن اس پربھی ان میں سے کوئی تیار نہیں ہوا۔ اس دور کے عوام کے جذبات اور یزید کے کیرکٹر کا اندازہ اس سے کیجئے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال کے نام ایک عام حکم جاری کیا کہ لوگوں سے یزید کی خوبیاں بیان کرو اور اپنے اپنے علاقے کے باثرلوگوں کا ایک ایک وفد میرے پاس بھیجو کہ بیعتِ یزید سے متعلق لوگوں سے خود بھی گفتگو کروں؛ چنانچہ ہرصوبے سے جووفد آیا، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے الگ الگ بھی گفتگو کی اور پھرسب کوایک مجلس میں جمع کرکے ایک خطبہ دیا جس میں خلفاء کے حقوق وفرائض، حکام کی اطاعت اور عوام کے فرائض بیان کرکے یزید کی شجاعت، سخاوت، عقل وتدبیر اور انتظامی قابلیت کا تذکرہ کرکے اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ یزید کی ولی عہدی پربیعت کرلینی چاہیے؛ لیکن اس کے جواب میں مدینہ کے وفد کے ایک رکن محمد بن عمروبن خرم نے کھڑے ہوکر کہا کہ امیرالمؤمنین آپ یزید کوخلیفہ توبناتے ہیں؛ لیکن ذرا اس پربھی خیال فرمالیں کہ قیامت کے دن آپ کواپنے اس فعل کا خدائے تعالیٰ کی جناب میں جواب دہ ہونا پڑے گا، محمد بن عمروبن حزم کے ان الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام بھی یزید کی خلافت سے خوش نہ تھے اور اس کی خلافت کے جوئے کواپنی گردن پررکھنے کے لیئے تیار نہ تھے؛ خود آخر وقت میں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یزید نے جس قسم کی سرکشی کا اظہار کیا تھا، اس سے بھی اس پرروشنی پڑتی ہے کہ وہ کہاں تک خلافت کا اہل تھا۔ شروع ماہِ رجب سنہ۶۰ھ میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے، اس بیماری میں جب انھیں یقین ہونے لگا کہ اب آخری وقت قریب آگیا ہے توانھوں نے یزید کوبلوایا، یزید اس وقت دمشق سے باہرشکار میں یاکسی مہم پرگیا ہوا تھا، فوراً قاصد گیا اور یزید کوبلاکر لایا، یزید حاضر ہوا توانھوں نے اس سے مخاطب ہوکر کہا: اے بیٹے! میری وصیت کوتوجہ سے سن اور میرے سوالوں کا جواب دے، اب خدائے تعالیٰ کا فرمان یعنی میری موت کا وقت قریب آچکا ہے، توبتاکہ میرے بعد مسلمانوں سے کیسا سلوک کرے گا؟ یزید نے جواب دیا کہ میں کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کروں گا۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سنتِ صدیقی پربھی عامل ہونا چاہیے کہ انھوں نے مرتدین سے جنگ کی اور اس حالت میں وفات پائی کہ امت ان سے خوش تھی، یزید نے کہا: نہیں! صرف کتاب اللہ اور سنت رسول کی پیروی کافی ہے۔ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے پھرکہا کہ: اے بیٹے! سیرت عمر رضی اللہ عنہ کی پیروی کرکہ انھوں نے شہروں کوآباد کیا، فوج کوقوی کیا اور مالِ غنیمت فوج پرتقسیم کیا، یزید نے کہا نہیں! صرف کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کافی ہے۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے بیٹے سیرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ پرعامل ہونا کہ انھوں نے لوگوں کوزندگی میں فائدہ پہنچایا اور سخاوت کی، یزید نے کہا کہ: نہیں صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میرے لیے کافی ہے، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کرفرمایا: اے بیٹے! تیری ان باتوں سے مجھ کویقین ہوگیا کہ تومیری باتوں پرعمل درآمد نہیں کریگا؛ بلکہ میری وصیت ونصیحت کے خلاف ہی کرے گا۔ بہرحال مغیرہ بن شعبہ اور امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی کوشش سے یزید عالم اسلامی کا خلیفہ ہوا، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنی زندگی میں یزید کے لیے بیعت لینا اک سخت غلطی تھی اور یہ غلطی ان سے غالباً محبتِ پدری کی وجہ سے سرزد ہوئی؛ مگرمغیرہ بن شعبہ کی غلطی ان سے بھی بڑی ہے؛ کیونکہ امیرمعاویہ کویہ خیال مغیرہ بن شعبہ ہی کی تحریک پرپیدا ہوا تھا؛ لیکن یزید نے اس منصب کوحاصل کرنے کے بعد بھی اپنے آپ کوخلافت کا اہل ثابت نہیں کیا، وہ خوب جانتا تھا کہ اس کے زمانے میں ایسے بزرگ موجود ہیں جواپنی پاکیزہ سیرت، بلند اخلاق، عبادت وریاضت اور عملی زندگی اور قوتِ ایمانی کی وجہ سے آفتاب سمجھے جاتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ اپنی حکومت کا نظم ونسق ان بزرگوں کے مشورے سے چلاتا، اس نے خلافت کے حاصل کرتے ہی اپنی ظلم واستبداد کی چکی کوتیز سے تیز ترکردیا، اس نے مدینے اور مکے میں اس وقت جتنے بزرگ موجود تھے، مثلاً حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور دوسرے بزرگوں سے بیعت لینے کے لیے وہاں کے عاملوں کے نام احکام جاری کئے کہ ان سب سے میرے لیے بیعت لی جائے، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کوجب اس کا یہ پیغام پہنچا تو امام عالی مقام جیسی مقدس ہستی، اس کے ہاتھ پرکیسے بیعت کرسکتی تھی؛ کیونکہ اوّل تواس کا انتخاب ہی غیرشرعی طریقہ پرہوا تھا اور اس کی حکومت ایک غیرشرعی حکومت تھی، دوسرے یہ کہ وہ اپنے اعمال وکردار کے اعتبار سے بھی اس قدرگرا ہوا تھا کہ وہ ہمیشہ لہوولعب سیروشکار میں مصروف رہتا تھا، خواجہ سراؤں کواس نے اپنی خدمت گذاری پرمامور کیا تھا، رقص وسرور کی محفلوں میں وہ بے محابا شریک ہوتا تھا، یہ اور اس قسم کے بہت سے عیوب اس میں تھے، وہ کسی طرح بھی اس قابل نہیں تھا کہ اسے ایک منٹ کے لیئے بھی مسلمانوں کا خلیفہ یاسردار تسلیم کیا جائے توان حالات میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اس کوکیسے خلیفہ تسلیم کرکے اس کے ہاتھ پربیعت کرسکتے تھے۔ یہ تھے وہ محرکات جس کی وجہ سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزیدی حکومت کے نظامِ باطل کی مخالفت کی اور ظلم واستبداد اور باطل حکومت کے خلاف آپ نے اپنے عمل سے ایک ایسی شمع روشن کی جس کی روشنی میں قیامت تک حق پرستوں کے قافلے آگے بڑھتے رہیں گے؛ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے مختلف خطبوں میں بھی جوآپ نے میدانِ کربلا میں اور دورانِ سفر کربلا میں دیتے تھے، بیان فرمایا، مقامِ بیضہ میں آپ نے حر کے ساتھیوں اور اپنے ہمرائیوں کے سامنے ایک خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، جس نے ایسے بادشاہ کودیکھا جوظالم ہے، خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کوحلال کرتا ہے، حدا کے عہد کوتوڑتا ہے، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے، حدا کے بندوں پرگناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرتا ہے اور دیکھنے والے کواس پراپنے عمل اور قول سے غیرت نہ آئی توخدا کویہ حق ہے کہ اس بادشاہ کی بجائے اس دیکھنے والے کوجہنم میں داخل کردے، تم اچھی طرح سمجھ لوکہ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت قبول کرلی ہے اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑدی ہے اور زمین پرفتنہ وفساد پھیلارکھا ہے، حدودِ الہٰی کومعطل کردیا ہے اور مالِ غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں، خدا کی رحام کی ہوئی چیزوں کوحلال اور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کوحرام کردیا ہے، اس لیے مجھے ان باتوں پرغیرت آنے کا زیادہ حق ہے۔ یہ تھے وہ اسباب جوحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کومیدانِ کربلا میں لائے، آپ اور آپ کے اہلِ بیت اطہار اعلاء کلمۃ الحق کرتے ہوئے ایک نظامِ باطل کے مٹانے کی سعی میں شہید ہوئے۔ عالم نقطہ نظر سے بھی یزید امیرمعاویہ کا کوئی اچھا جانشین نہ تھا، اس کومذہب اور روحانیت سے بہت ہی کم تعلق تھا، اس نے حکومت اور سیاست میں بھی کسی قابلیت کا اظہار نہیں کیا؛ اگروہ کسی قابل ہوتا توسب سے پہلی کوشش اور پوری ہمت اس کی اس کام میں صرف ہوتی کہ لوگ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تنازعات کوبھول جائیں؛ لیکن اس نے یاتواس طرف توجہ ہی کم کی یاوہ اپنی ناقابلیت کے سبب کامیاب نہیں ہوسکا، یزید نے اپنی عملی زندگی کا جونمونہ لوگوں کے سامنے پیش کیا اس میں چونکہ فسق وفجور اور خلاف احکاشرع اعمال بھی تھے؛ لہٰذا عام طور پرمسلمانوں کی مذہبی خصوصیات اور عملی زندگی کونقصان پہنچا اور ضعیف الایمان لوگ گناہوں کے ارتکاب میں شاہی نمونہ دیکھ کردلیر ہوگئے، یزید ہی کے بدنما نمونہ نے مسلمانوں کوگانے بجانے اور شراب پینے کی ترغیب دی؛ ورنہ اس سے پہلے عالمِ اسلام ان خرابیوں سے بالکل پاک تھا، یزید کے زمانے تک بھی حکومت وخلافت میں وراثت کے اصول کومسلمانوں نے تسلیم نہیں کیا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد یزید کا خلیفہ ہوجانا ایک سخت غلطی ہے اور اس غلطی کی اصلاح ہونی چاہیے؛ چنانچہ حصین بن نمیر اسی لیئےعبداللہ بن زبیر کوخلیفہ بنانے کا خواہشمند تھا؛ لیکن یزید کے بعد بتدریج اس وراثت کے خیال کوبنواُمیہ کی کوششوں کے سبب تقویت پہنچی اور بالآخر اس رسم بد نے ایسی جڑپکڑی کہ آج تک مسلمانوں کواس سے رست گاری حاصل نہ ہوئی۔ یزید کا پہلا نکاح اُمِ ہاشم بنتِ عتبہ بن ربیعہ کے ساتھ ہوا تھا جس سے دوبیٹے معاویہ اور خالد پیدا ہوئے، یزید کوخالد کے ساتھ زیادہ محبت تھی؛ لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ کواس نے اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا، دوسرا نکاح اس کا اُمِ کلثوم بنتِ عبداللہ بنتِ عامر سے ہوا جس کے بطن سے عبداللہ بن یزید پیدا ہوا جوتیراندازی کی قابلیت میں کمال اور شہرت رکھتا تھا، ان کے علاوہ چند بیٹے یزید کے لونڈیوں کے پیٹ سے بھی پیدا ہوئے تھے۔