انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** موسی بن نصیر اس زمانے میں خلیفہ ولید بن عبدالملک کی جانب سے شہر قیروان میں موسی بن نصیر خلیفہ کے مقبوضات غربی کا وائسرائے تھا ،موسی بن نصیر کی طرف سے طارق بن زیاد اس کا ایک بربری النسل غلام شہر طنجہ کی حکومت پر مامور اور ملک مراقش کی افواج اسلامیہ کاسپہ سالار تھا،طارق اگرچہ جولین سے قریب تھا لیکن جولین نے بجائے طارق سے گفتگو کرنے کے موسی بن نصیر سے اپنا مقصود ظاہر کرنا مناسب سمجھا وہ اشبیلہ کے اسقف اعظم اور چند عیسائی سرداروں کوہمراہ لے کرقیروان پہنچا اور موسی بن نصیر کی خدمت میں اپنے آنے کی اطلاع پہنچائی،موسی بن نصیر اس عیسائی سے بڑی تعظیم وتکریم کے ساتھ ملا،جولین اور اس کے ہمراہیوں نے عرض کیا کہ آپ اندلس پر فوج کشی کریں فتح ونصرت یقیناً آپ کے شامل حال ہوگی ،موسی یہ سن کر متامل ہوا اور کوئی تسکین بخش جواب نہ دیا تب جولین اور اسقف اشبیلہ نے کہا آج کل اندلس میں ایک شخص غاصبانہ طور پر مسلط ہے موجودہ حکومت اندلس کی رعایا کے لیے ایک قہر الہی ہے بنی نوع انسان کے حقوق جو محض انسان ہونے کی وجہ سہ آپ پر عائد ہوتے ہیں آپ انکو ادا کریں اور اہل اندلس ک واس جہنم سے جس میں وہ آجکل مبتلا ہیں نجات دلائیں بجز آہ کے دنیا میں اور کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جس کےپاس ہم اپنی فریاد کے کر جائیں اور اس کے ذریعہ اس مصیبت سے آزادی پائیں ،موسی بن نصیر نے جولین کے اس اصرار کے بعد اندلس کے حالات اور حکومت اندلس کی فوجی طاقت کے متعلق سوالات کیے اور خلیفہ دمشق ولید بن عبدالملک سے اجازت طلب کرنا ضروری سمجھ کر ایک عریضہ دمشق کی جانب روانہ کیا۔