انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۸)عشق رسول ﷺ کے سائے میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا عشق رسولﷺ بھی حفاظت حدیث میں بڑا مؤثر عامل رہا ہے،عہد اول میں عشق رسالت نے حضورﷺ کی ایک ایک ادا کو علم و عمل کے پیمانوں میں محفوظ رکھا اور عقیدت وجذبات کے اس انداز نے بھی حفاظت حدیث میں ایک بھر پور کردار ادا کیا ہے،قرآن کریم نے حضورﷺ کے بارے میں تعلیم دی تھی: "لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ"۔ (الفتح:۹) ترجمہ:تم ایمان لاؤ اللہ اوراس کے رسول پر اوراس رسول کی تعظیم اور توقیر کرو۔ صحابہ کرام ؓ تعظیم و توقیر کے اس دباؤ میں حضورﷺ کے سامنے اپنی آواز دبی رکھتے یہ دربار رسالت کا اجلال واحترام تھا۔ "إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى"۔ (الحجرات:۳) ترجمہ: بیشک جو لوگ اپنی آوازیں حضورﷺ کے سامنے پست رکھتےہیں، اللہ نے ان کے دلوں کو پرہیز گاری کے لیے پرکھ لیا ہے۔ ادھر سے تعظیم و توقیر تھی اور ادھر سے رحمت و عطوفت کا ہاتھ ہر ایک کے لیے بڑھ رہا تھا،رحمۃ للعالمین کا دامن رحمت ہر سمت اپنا سایہ ڈالے تھا "فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ " (آل عمران:۱۵۹) ترجمہ:یہ خدا کی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم دل ہوئے۔ تعظیم واکرام کا جواب جب رحمت ورأفت سے ملے تو محبت جذبات میں ڈھلتی ہے، عقلی محبت جذبات کے سایوں میں عشق رسالت کا عنوان تیار کرتی ہے،یہ خدا کی شان کریمی ہے کہ اس نے صحابہ کے دلوں میں اس راہ سے حضورﷺ کی محبت پیدا کردی اوراس جذبہ محبت نے نہ صرف حضورؐ کی پیروی امت کے لیے آسان کردی، بلکہ حضورﷺ کا ہر عمل عشق و محبت کے اس سائے میں محفوظ ہونے لگا، آپؐ کا ہر عمل ان کی زبانوں پر بھی اترا اوران کے عمل میں بھی ڈھلا اور اس سے حفاظت حدیث کے جملہ اسباب پیدا ہوتے گئے، حضورؐ کو امت سے طلب محبت کی ہر گز کوئی ضرورت نہ تھی،آپ ان سے اپنی محبت اسی لیے چاہتے تھے کہ آپ کی پیروی ان کے لیے آسان ہوجائے، جس سے محبت ہو، انسان پھر اس کی اداؤں کی نقل میں بھی لذت محسوس کرتا ہے، کسی نے خوب کہا ہے۔ "ان المحب لمن یحب یطیع"۔ ترجمہ: محبت کرنے والا محبوب کے نقش پا پر چلتا ہے۔ حضورﷺ نے اس جذبہ محبت کو اور جلا بخشی اور کھل کر فرمایا: "لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ"۔ (بخاری،باب حب الرسولﷺ ، حدیث نمبر:۱۴) تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو اپنےماں باپ،اپنی اولاداور سب لوگوں سے زیادہ میری محبت نہ ہو۔ ایک ایسا سلسلہ ہے جس سے پہاڑ کھود نے میں بھی مشقت نہیں لذت ملتی ہے،دل میں کسی کا بسیرا ہےتو اس کے لیے یہ مشقت جھیلی جارہی ہے ؎ کسی کی یاد میں میں نے مزے ستم کے لیے حضورﷺ نے اپنے کسی لمبے سفر کے دوران مختلف مقامات پر جو نماز پڑھی، صحابہؓ نے ان مواضع و اماکن کو بھی اپنی یادوں میں محفوظ رکھ لیا، حالانکہ نماز نماز ہے وہ جہاں بھی ادا ہو،لیکن خدام آقا کے عشق و محبت میں اس قدر آگے جاچکے تھے؛کہ آپ نے اگر کہیں اتفاقا بھی پڑاؤ ڈالا تو اس جگہ کی یاد صحابہ کے دلوں میں کبھی بھی محو نہ ہوسکی،امام بخاریؓ نے الصحیح میں اس پر باب باندھا ہے۔ "بَاب الْمَسَاجِدِ الَّتِي عَلَى طُرُقِ الْمَدِينَةِ وَالْمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّﷺ "۔ (بخاری،باب المساجد التی علی طرق المدینۃ:۲/۲۹۱) ترجمہ: وہ سجدہ گاہیں جو مدینہ کی راہوں میں بنیں اور وہ مقامات جہاں اس دوران حضورﷺ نماز پڑہتے تھے۔ موسیٰ بن عقبہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: میں جلیل القدر تابعی حضرت سالمؓ کو دوران سفران مقامات کو تلاش کرتے دیکھا جہاں وہ نماز پڑھیں اور بیان کرتے سنا کہ ان کے والد حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ بھی ان مقامات پر نماز پڑہتے تھے اور فرماتے تھے: "وَأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي تِلْكَ الْأَمْكِنَةِ"۔ (بخاری،باب مساجد التی علی طرق المدینۃ،حدیث نمبر:۴۶۱) ترجمہ :انہوں نے نبی کریمﷺ کو ان مقامات پر نماز پڑہتے دیکھا ہے۔ ان مقامات پر نماز کسی تخصیص کے لیے نہ تھی،حضورﷺ ان مقامات پر اتفاقا اترتے رہے،لیکن صحابہؓ کے جذبات محبت کودیکھئے؛کہ انہوں نے آپ کی ان یادوں کو بھی تاریخ میں محفوظ کرلیا،یہاں تک کہ کبار تابعین بھی پھر ان راہوں میں اترنے لگے۔ اس تفصیل سے یہ بات اورواضح ہوجاتی ہے؛کہ حدیث کی حفاظت میں عشق رسالت نے بھی ایک بھر پور کردار ادا کیا ہے۔