انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ثوبان ؓ نام ونسب ثوبان نام، ابو عبداللہ کنیت، خاندانی تعلق یمن کے مشہور حمیری خاندان سے تھا۔ آقائے دو عالم کی غلامی ثوبان غلام تھے،آنحضرت ﷺ نے خرید کرکے آزاد کردیا اورفرمایا دل چاہے اپنے خاندان والوں میں چلے جاؤ اوردل چاہے میرے ساتھ رہو، میرے ساتھ رہو گے تو میرے اہل بیت میں تمہارا شمار ہوگا، رسول اللہ ﷺ کی خدمت گذاری اوراہل بیت نبوی ﷺ میں شمار ہونے سے بڑھ کر فخر اورکیا ہوسکتا تھا، اس لیے ثوبانؓ نے اس شرف کو خاندان پر ترجیح دی اور خلوت وجلوت ہر وقت آقائے نامدار کے ساتھ رہنے لگے۔ (اسد الغابہ،جلد اول،صفحہ۲۴۹،ومستدرک حاکم،جلد۳،صفحہ۴۸۱) شام کی اقامت ووفات آقا کی زندگی بھر مدینہ میں رہے، آپ کی وفات کے بعد گلشنِ مدینہ خارنظر آنے لگا اس لئے یہاں سے شام چلے گئے اوررملہ میں سکونت اختیار کرلی، عہد فاروقی میں مصر کی فتوحات میں شریک ہوئے،پھر رملہ سے منتقل ہوکر حمص میں گھر بنالیا اوریہیں ۵۴ھ میں وفات پائی۔ (استیعاب،جلد اول،صفحہ۸۱،ومستدرک جلد۳،صفحہ۴۸۱) فضل وکمال ثوبانؓ آنحضرتﷺ کے خادم خاص تھے،اس تقریب سے انہیں استفادہ کے زیادہ مواقع ملتے تھے ؛چنانچہ ۱۲۷ /احادیث ان کے حافظہ میں محفوظ تھیں، جو حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں،(تہذیب الکمال) حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ ثوبانؓ ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے حدیثیں محفوظ کیں اور ان کی اشاعت بھی کی، (استیعاب :۱/۸۶)ان کے تلامذہ میں معدان بن طلحہ ،راشد بن سعد، جبیر بن نفیر،عبدالرحمن ابن غنم، ابو ادریس خولاق قابلِ ذکر ہیں، (تہذیب التہذیب:۳/۳۱)آنحضرتﷺ کے بعد جو جماعت صاحبِ علم وافتا تھی، اس کے ایک رکن ثوبانؓ بھی تھے۔ (اعلام الموقعین :۱/۱۵) شائقین حدیث فرمایش کرکے ان سے حدیثیں سنتے تھے، ایک مرتبہ لوگوں نے حدیث سنانے کی درخواست کی انہوں نے یہ حدیث سنائی کہ جو مسلمان خدا کے لیے ایک سجدہ کرتا ہے،خدا اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اوراس کی خطاؤں سے درگذر کرتا ہے، (مسند احمد بن حنبل:۵/۲۷۶) ان کے معاصرین دوسروں سے سنی ہوئی حدیثوں کی تصدیق ان سے کراتے تھے،معدان بن طلحہ نے حضرت ابو درداؓ سے ایک حدیث سنی تو ثوبان سے اس کی تصدیق کی۔ (ابوداؤد:۱/۲۳۷) پاس فرمان رسوﷺ آقائے نامدار کی حیات میں اور وفات کے بعد دونوں زمانوں میں یکساں فرمان نبوی پیش نظر رہتا تھا، ایک مرتبہ زبان مبارک سے جو کچھ سن لیا وہ ہمیشہ جان کے ساتھ رہا، جس چیز میں آقا کے حکم کی خلاف ورزی کا ادنی سا پہلو نکلتا تھا، اس سے ہمیشہ محترز رہے، ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے ان سے فرمایا تھا کہ کبھی کسی سے سوال نہ کرتا، اس فرمان کے بعد کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ ہوا اور اس شدت سے اس پر عمل رہا کہ اگر سواری کی حالت میں کوڑا ہاتھ سے چھوٹ کر گر جاتا تھا، تو خود اتر کر اٹھاتے تھےاور کسی سے سوال نہ کرتے تھے ۔ (مسند احمد بن حنبل:۵/۲۷۷) احترامِ نبوت گو نبوت کا احترام ہر مسلمان کا مذہبی فرض ہے،لیکن ثوبانؓ اس میں اس قدر سخت تھے کہ ایک مرتبہ یہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں تھے کہ ایک یہودی عالم نے السلام وعلیک یا محمد کہا، خالی محمد سن کو ثوبانؓ برافروختہ ہوگئے اور یہودی کو اس زور سے دھکا دیا کہ وہ گرتے گرتے بچا، اس نے اس کا سبب پوچھا ،کہا تونے یا رسول اللہ کیوں نہ کہا، وہ بولا میں نے اس میں کیا گناہ کیا کہ ان کا خاندانی نام لیا، آنحضرتﷺ نے فرمایا، ہاں میرا خاندانی نام محمدﷺ ہے۔ (مستدرک حاکم:۳/۴۸۱) غلامی کی نسبت کا احترام نبوت کا احترام تو مذہبی فرض ہے،ثوبانؓ اپنی غلامی کی نسبت کا احترام بھی ضروری سمجھتے تھے اورجو شخص اس میں کمی کرتا تھا، اس کو متنبہ کرتے تھے، حمص کے زمانہ قیام میں بیمار پڑے، عبداللہ بن قط ازدی والی حمص اُن کی عیادت کو نہ آیا، اس کی اس غفلت پر اس کو یہ رقعہ لکھوایا، اگر موسیٰ ؑ اورعیسیؑ کا غلام تمہارے یہاں ہوتا تو تم اس کی عیادت کرتے یہ رقعہ جب عبداللہ کو ملا تو اسے اپنی کوتاہی پر ندامت ہوئی اوروہ اس کی تلافی کے لئے اس عجلت اور بدحواسی کے ساتھ نکلا کہ لوگ سمجھے کہ کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آگیا ہے،غرض وہ بے تابانہ حضرت ثوبانؓ کے گھر آیا اور دیر تک بیٹھا رہا۔