انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ حمراء الاسد(شوال۳ہجری) اُحد میں دونوں فوجیں جب میدان جنگ سے الگ ہوئیں تو مسلمان زخموں سے چُور تھے تا ہم یہ خیال کر کے کہ ابو سفیان مسلمانوں کو مغلوب سمجھ کر دوبارہ حملہ آور نہ ہو،آپ ﷺ نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ کون اُن کا تعاقب کرے گا، فوراًستّر آدمیوں کی ایک جماعت اس مہم کے لئے تیار ہو گئی جن میں حضرت ابو بکرؓ و حضرت زبیر ؓ بھی شامل تھے ۔ (بخاری شریف، سیرۃ النبی جلد اول) ابو سفیان اُحد سے روانہ ہو کر جب مقام روحا پہنچا تو یہ خیال آیا کہ کام نا تمام رہ گیا ، آنحضرتﷺکو پہلے ہی سے گمان تھا، چنانچہ اُحد کی لڑائی کے دوسرے دن ۸ شوال ۳ہجری کو آپﷺ نے حضرت عبداللہ ؓ بن اُم مکتوم کو اپنا نائب مقرر فرمایا اور مجاہدین کے ساتھ ابو سفیان کے تعاقب کے لئے روانہ ہوئے، عَلم حضرت علیؓ کے ہاتھ میں تھا، مدینہ سے آٹھ میل دور مکہ جانے والی شاہراہ پر حمراء الا سد کے مقام پر خیمہ زن ہوئے، حضور اکرم ﷺنے بنی اسلم کے تین آدمیوں کو قریش کی جانب بطور مخبر روانہ فرمایا تھا، وہ دوبارہ حملہ کی خبرسن کر لوٹ رہے تھے کہ ان میں سے دو پکڑے گئے اور شہید کر دئیے گئے، آپﷺ ابھی حمراء الا سد میں مقیم تھے کہ قبیلہ خزاعہ کا سردار معبد بن ابی معبد خزاعی جو اس وقت تک ایمان نہیں لایا تھا؛ لیکن در پردہ اسلام کا طرفدار تھا شہدائے اُحد کی تعزیت کے لئے آیا اور واپس جا کر ابو سفیان سے ملااور کہا کہ حضرت محمد ﷺ ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ تمہارے تعاقب کے لئے آرہے ہیں اس لئے ان کا مقابلہ نا ممکن ہے ، اس نے ابو سفیان کو اپنے ارادہ سے باز رہنے کے لئے مشورہ دیا، ابو سفیان کودوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور وہ واپس چلا گیا، اس مہم میں قتال کی نوبت نہیں آئی اور آپ ﷺ حمراء الاسد میں تین روز(۹،۱۰،۱۱ شوال) قیام کے بعد ۱۳شوال کو مدینہ لوٹ آئے ،آپﷺ کی مدینہ واپسی سے پہلے ابو عزّہ جمہی پکڑا گیا جس کو بدر میں گرفتاری کے بعد اس کے فقر اور زیادہ لڑکیاں ہونے کے سبب اس شرط پر چھوڑدیاگیاتھا کہ حضور اکرم ﷺ کے خلاف کسی سے تعاون نہیں کرے گا ؛لیکن اسے نے وعدہ خلافی کی اور اپنے اشعار کے ذریعہ حضور ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے خلاف لوگوں کو اکسایا اور پھر خود مسلمانوں سے لڑنے کے لئے احد میں آیا مگر گرفتار ہوا ، اس نے اپنی بچیوں کی خاطر حضور ﷺ سے درخواست کی کہ اسے رہا کردیں اور وعدہ کیا کہ دوبارہ وعدہ خلافی نہیں کرے گا، حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم مکہ جاکر اپنے رخسار پر ہاتھ پھیرو اور کہو کہ میں نے محمد(ﷺ) کو دو مرتبہ دھوکا دیا، مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا، اس کے بعد آپﷺ نے حضرت زبیرؓ یا حضرت عاصم ؓ کو حکم دیا کہ اس کو قتل کردیں۔ اسی سال حضرت ابو الطفیل ؓ عامر بن وائلہ بن عبداللہ کی ولادت ہوئی، حضور ﷺ کے اس دنیا سے پردہ کرنے کے وقت ان کی عمر آٹھ سال کی تھی، آنحضرت ﷺکو دیکھنے والی وہ آخری ہستی تھی جن کی وفات ۱۱۰ ھ میں مکہ میں ہوئی، محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ روئے زمین کے تمام صحابہ ؓ میں آخر میں انتقال کرنے والے ہیں ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ نے حج کے موقع پر ان سے ملاقات کی تھی، بوقت وفات ان کی عمر ۱۰۷ سال تھی۔ (اسماء الرجال )