انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیثِ مشہور حدیثِ مشہور وہ حدیث ہے جس کے راوی ابتداء سند سے لے کر آخر سند تک دوسے زیادہ ہوں؛ لیکن تواتر کو نہ پہنچتے ہوں اور اس حدیث کی محدثین میں شہرت ہوئی ہو، اس سے ایسا علم پیدا ہوتا ہے جس سے حدیث کی سچائی پر اطمینانِ قلبی حاصل ہوجاتا ہے؛ لیکن اسے قطع ویقین کا وہ درجہ حاصل نہیں ہوتاکہ اس کے منکرکو کافر کہا جاسکے، قطع ویقین صرف حدیث متواتر میں ہوتا ہے، محدثین بعض اوقات اس حدیث کوبھی مشہور کہہ دیتے ہیں جوصرف آخرسند کے لحاظ سے متواتر ہو؛ تاہم وہ بھی خبرِواحد ہی ہوتی ہے، جیسے حدیث "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" جوحضوراکرمﷺ سے صرف حضرت عمرؓ نے اور ان سے حضرت علقمہؓ نے اور ان سے صرف حضرت محمدبن ابراہیم تیمیؒ نے اور صرف یحییٰ بن سعیدؒ نے روایت کی ہے؛ لیکن اس کے بعد اسے راویوں کی کثیر تعداد نے ہردور میں متواتر بنادیا؛ سویہ ایک ایسی حدیث ہے جوآخر سند کے لحاظ سے مشہور کہی گئی ہے، علماء اصول کے ہاں حدیث مشہور خبرواحد نہیں، وہ اسے متواتر اور خبرواحد کے درمیان کی ایک منزل قرار دیتے ہیں (علماء کے نزدیک حدیث مشہور وہ ہے جس کے راوی پہلے طبقہ (یعنی طبقۂ صحابہؓ) میں حدِتواتر کونہ پہنچے ہوں؛ لیکن دوسرے اور تیسرے طبقے (تابعین اور تبع تابعین) میں اسے اتنے راویوں نے روایت کیا ہو کہ ان کا جھوٹ پر اکٹھا ہونا عادتًا محال ہو، یہ تین طبقے (قرون ثلاثہ) مشہود لہا بالخیر ہیں، جن کے خیر ہونے کی حدیث میں شہادت دی گئی ہے، اِن طبقوں میں سے دوکے ہاں اسے تواتر کی سی شہرت حاصل ہوگئی؛ سوحدیثِ مشہور ان حضرات کے ہاں خبرِواحد سے کچھ اوپر ہے اسے یہ خبرِواحد نہیں کہتے، علماء اصول خبرِ واحد سے قرآن کریم کے کسی عام حکم کوخاص نہیں کرتے؛ لیکن حدیث مشہور سے ان کے ہاں عام کی تخصیص جائز ہے، محدثین کے ہاں حدیث مشہور بھی خبرواحد کی ہی ایک قسم ہے) اور یہ ان کی اپنی اصطلاح ہے "ولامشاحۃ فی الاصطلاح"۔