انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دربار عثمانی میں پہلا مقدمہ فاروقِ اعظمؓ کی شہادت سے چند روز پیشتر ایک روز ابو لولوء ایک خنجر لئے ہوئے ہرمزان کے پاس گیا یہ وہی ایرانی سردار ہرمزان ہے جس کا اوپر ذکر آچکا ہے،جو فاروق اعظمؓ کے ہاتھ پر مسلمان ہوکر مدینہ منورہ میں رہنے لگا تھا، ابو لولو تھوڑی دیر تک ہرمزان کے پاس بیٹھا ہوا باتیں کرتا رہا،اس وقت وہاں حیرہ کا باشندہ ایک عیسائی غلام جفینہ نامی بھی بیٹھا تھا،ان تینوں کو ایک جگہ بیٹھے اور باتیں کرتے ہوئے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے دیکھا، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کو قریب آتے دیکھ کر ابو لولو وہاں سے اُٹھ کر چل دیا، اٹھتے وقت خنجر جو وہ لئے ہوئے تھا، اس کے ہاتھ سے گرگیا تھا جس کو گرتے ہوئے اور ابو لولوء کو اٹھا تے ہوئے بھی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے دیکھا تھا،اس وقت ان کو نہ کوئی شبہ گذرا تھا ،نہ کسی قسم کا خیال اُن کے دل میں پیدا ہوا تھا، لیکن جب ابو لولوء نے حضرت فاروق اعظمؓ کو زخمی کیا اوراس کے بعد ابو لو لوء گرفتار ہوکر مقتول ہوا، تو اس کے پاس سے جو خنجر نکلا،اس کو حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے پہچانا، کہ یہ وہی خنجر ہے جو چند روز ہوئے ،اُس کے پاس دیکھا تھا،ساتھ ہی مذکورہ بالا تمام واقعہ بھی انہوں نے سُنایا ،ابو لولوء کے ہرمزان کے پاس جانے اور باتیں وغیرہ کرنے کا حال فاروق اعظمؓ کی شہادت کے بعد جب اُن کے دوسرے صاحبزادے عبید اللہ بن عمرؓ نے سنا تو طیش اور انتقام کے جوش میں انہوں نے موقع پاکر ہر مزان پر حملہ کیا،ہرمزان کو زخمی ہوکر گرتا ہوا دیکھ کر سعد بن ابی وقاصؓ ،عبید اللہ بن عمرؓ کے گرفتار کرنے کو اورعبید اللہ بن عمرؓ، جفینہ عیسائی غلام کے بھی قتل کرنے کو دوڑے، قبل اس کے عبید اللہ بن عمرؓ جفینہ کے قتل پر قادر ہوںسعد بن ابی وقاص نے اُن کو گرفتار کرلیا؛چونکہ ابھی تک کوئی خلیفہ منتخب نہیں ہوا تھا اور حضرت صہیب ؓ ہی عارضی طور پر خلافت کے ضروری کام انجام دے رہے تھے، لہذا حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے عبید اللہ بن عمر کو حضرت صہیبؓ کی خدمت میں پیش کیا،حضرت صہیبؓ نے ان کو خلیفہ کےمنتخب ہونے تک کے لئے قید کردیا۔ اب جب حضرت عثمان غنی ؓ خلیفہ منتخب ہوئے اوربیعت عامہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوچکی اور حضرت عثمان غنیؓ خطبہ خلافت بھی لوگوں کو سُنا چکے،تو سب سے پہلے آپ کی خدمت میں یہ مقدمہ پیش ہوا اور حضرت عبیداللہؓ کو آپ کے سامنے لایا گیا، حضرت عبید اللہ بن عمرؓ سے جب ہرمزان کے قتل کی نسبت دریافت کیا گیا تو انہوں نے اقرار کرلیا اس پر حضرت عثمان غنیؓ نے صحابۂ کرام سے مشورہ لیا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ عبیداللہ بن عمرؓ کو ہرمزان کے قصاص میں قتل کردینا چاہیے،لیکن حضرت عمروبن العاصؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اس رائے سے مخالفت کا اظہار کیا اورکہا کہ یہ کسی طرح مناسب نہیں ،ابھی کل پر سوں کی بات ہے کہ باپ مارا گیا ہے،آج اس کے بیٹے کو قتل کرتے ہو اورلوگوں نے بھی عمرو بن العاص کی رائے کی تائید کی،حضرت عثمان غنیؓ کچھ شش و پنج میں پڑے،لیکن پھر فوراً ہی انہوں نے فرمایا کہ یہ معاملہ نہ فاروق اعظمؓ کے عہد خلافت کا ہے اورنہ میری خلافت کے زمانے کا کیونکہ میرے خلیفہ منتخب ہونے سے پہلے یہ واقعہ ظہور میں آچکا تھا،لہذا میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا، اُس کے بعد حضرت عثمان غنیؓ نے یہ بہترین صورت اختیار کی کہ خود عبید اللہ بن عمرؓ کا ولی بن کر اپنے پاس سے ہرمزان کے قتل کی دیت ادا کردی،اورمنبر پر چڑھ کر ایک پُر اثر تقریر کی،اس طرح تمام لوگ اس فیصلے سے خوش ہوگئے اور حضرت عبید اللہ بن عمرؓ قصاص سے بچ گئے۔