انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
فرض نماز میں سورۂ فاتحہ کو ایک سانس میں پڑھنے کی عادت بنالینا کیا یہ صحیح ہے؟ فرض نمازوں میں امام کا ایک سانس میں الحمد شریف پڑھنا کوئی کمال اور خوبی کی بات نہیں ہے اور اس کی عادت بنالینا ناپسندیدہ ہے اور کراہتِ تنزیہی سے خالی نہیں، لہٰذا ترتیلاً اور معانی میں تدبر کرتے ہوئے ٹہر ٹہر کر پڑھا جائے، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے: ‘‘بندہ جب نماز میں الحمد للہ رب العالمین پڑھتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے حمدنی عبدی (میرے بندے نے میری تعریف کی) پھر الرحمن الرحیم پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے اثنی علی عبدی (میرے بندے نے میری ثناء کی) پھر جب مالک یوم الدین پڑھتا ہے تو باری تعالیٰ کی طرف سے جواب ملتا ہے مجدنی عبدی (میرے بندے نے میری تعریف میری بزرگی بیان کی) پھر ایاک نعبد و ایاک نستعین پڑھتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں ھذا بینی و بین عبدی (یہ میرے اور میرے بندہ کے درمیان ہے اور میرے بندہ کو وہ ملے گا جو وہ طلب کرے گا)، پھر پڑھتا ہے اھدنا الصراط المستقیم الخ ۔تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ھذا لعبدی و لعبدی ما سأل ( یہ بندے کی خاص حاجتیں ہیں اور میں اپنے بندہ کو جو کچھ مانگتا ہے دوں گا)’’۔ الحاصل فرض نماز میں ایک سانس میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کی عادت قابل تر ک ہے اور افضل یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ ترتیلاً پڑھی جائے، امام ،عوام اور تخفیف کا لحاظ کرتے ہوئے کبھی کبھی دو تین سانس میں پڑھے تو مضائقہ نہیں، لیکن اس کی عادت نہ بنائے۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۵/۹۴، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)