انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
عورتوں کے لئے زیارتِ قبور کا کیا حکم ہے؟ لَعَنَ اللَّهُ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، باب زیارۃ القبور، کتاب الجنائز:۱/۱۵۴،قدیمی) كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا فَإِنَّهَا تُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا وَتُذَكِّرُ الْآخِرَةَ۔ (سنن ابن ماجہ، كِتَاب مَا جَاءَ فِي الْجَنَائِزِ،بَاب مَاجَاءَ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ،حدیث نمبر:۱۵۶۰، شاملہ، موقع الإسلام) ان دوحدیثوں کی وجہ سے اس مسئلہ میں دوقول ہیں، بعض حضرات نے ممانعت کوصرف مردوں کے حق میں منسوخ مان کرعورتوں کے حق میں ممانعت کوبدستور باقی مانا اور موجب لعنت قرار دیا ہے اور بعض علماء نے ممانعت کوعورتوں کے حق میں بھی بدستور منسوخ مان کر ان کے لئے زیارتِ قبور کوفی نفسہ توجائز قرار دیا ہے؛ لیکن عورتیں اگر زیارتِ قبور کوقبرستان جائیں تواس میں دوسرے مفاسد ہیں، مثلاً پردہ کا اہتمام نہیں کریں گی، وہاں جاکر قبور کودیکھ کرخاص کرجب کہ وہ ان کے اعزہ، اولاد، والدین، شوہر وغیرہ کی قبریں ہوں بے صبری کے ساتھ چلا کربیان کرکے روئیں گی، سینہ کوبی کریں گی، بال نوچیں گی، منھ پیٹیں گی؛ اگروہ بزرگوں کی قبریں ہوں تووہ ان کا طواف کریں گی، ان کوسجدہ کریں گی، ان سے مرادیں مانگیں گی، ان پرچادر ڈالیں گی، وہاں چراغ جلائیں گی، چڑھاوا چڑھائیں گی؛ غرض شرکیات ومحرمات میں مبتلا ہوں گی، جیسا کہ عامتاً اولیاء اللہ کے مزارات پربہت سے مقامات پرہوتا ہے، اس لئے عورتوں کوزیارتِ قبور کے لئے جانے سے منع فرماتے ہیں کہ ایک مستحب کی خاطر کسی ناجائز چیز کوبرداشت نہیں کیا جاسکتا اور جن مردوں کا حال بھی عورتوں کی طرح ہو ان کوبھی منع کیا جائے گا۔ (فتاویٰ محمودیہ:۹/۱۹۴،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۴۱۸، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی۔ احسن الفتاویٰ:۴/۱۸۶، زکریا بکڈپو، دیوبند)