انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مباہلہ اسی سال نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا جس میں ستر سوار بقول بعض چودہ اور ان کا سردار عبدالمسیح اوران کا اسقف ابو حارثہ بھی تھا، ان لوگوں نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوکر بحث مباحثہ شروع کیا،اسی اثنا میں سورۂ آل عمران کی شروع کی آیت اور آیت مباہلہ نازل ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اسلام قبول کرنے کی نسبت فرمایا تو وہ بہت گستاخی سے پیش آئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا کا بیٹا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو میرے ساتھ میدان میں چلو اور میرے عزیز واقارب بھی میرے ہمراہ ہوں،دونوں گروہ الگ الگ بیٹھ کر کہیں کہ جو جھوٹا ہواس پر خدا کا عذاب نازل ہو،یہ سن کر وہ خاموش ہوگئے،دوسرے روز صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ، حسینؓ، کو ہمراہ لے کر باہر نکلے اوران عیسائیوں سے کہا کہ جب میں یہ دعا کروں کہ ہم میں جو جھوٹا ہو اُس پر خدا کا عذاب نازل ہو، تو تم آمین کہنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مستعدی دیکھ کر عیسائی خوف زدہ ہوکر کہنے لگے،ہم مباہلہ نہیں کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : مباہلہ نہیں کرتے اسلام قبول کرو اور سب مسلمانوں کی طرح ہوجاؤ،انہوں نے کہا: ہم کو یہ بھی منظور نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم ہم کو جزیہ دو یا ہم سے لڑائی کرو، انہوں نے کہا: ہم کو جزیہ دینا منظور ہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ مباہلہ کرتے تو دنیا میں قیامت تک کوئی عیسائی نہ رہتا،چلتے وقت عیسائیوں نے ایک امین کا تقرر اپنے لئے چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کو اُن کے ہمراہ کردیا چند روز کے بعد نجران کے تمام عیسائی مسلمان ہوگئے۔ قریبا تمام قبائل یمن اورملک یمن کا بادشاہ باذن مسلمان ہوچکا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ملکِ یمن کی حکومت باذن ہی کے پاس رکھی تھی،اسی سال باذن کا انتقال ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باذن کے انتقال کے بعد شہر باذان ،عامر بن شہر ہمدانی ،ابو موسیٰ اشعری، علی بن اُمیہ، معاذ بن جبل، وغیرہ کو ملکِ یمن کے ایک ایک حصہ میں حاکم مقرر فرمایا اور حضرت علیؓ کو معہ دوسرے چند صحابیوں کے یمن کی طرف بھیجا اور تاکید کی کہ جب تک کوئی مقابلہ کی ابتدانہ کرے تم ہتھیار نہ اُٹھانا، حضرت علیؓ کو ملکِ یمن سے زکوٰۃ و صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا، ان واقعات کے بعد ذیقعدہ کا مہینہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذیقعدہ ۱۰ ھ کو مدینہ منورہ سے حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مہاجرین وانصار اور رؤسائے عرب کی ایک جماعت اورقربانی کے سو اونٹ تھے،مکہ میں اتوار کے روز ۴ ذی الحجہ کو داخل ہوئے ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی جو یمن کی طرف صدقات جمع کرنے کو گئے ہوئے تھے مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آملے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا۔