انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امامت کے صحیح ہونے کی شرطیں امامت کی صحت کے لئےامام میں مندرجہ ذیل چیزوں کا پایا جانا شرط ہے ۔ (۱) مرد ہو، لہذا عورت کا مردوں کی امامت کرنا صحیح نہیں۔حوالہ عن عبد الرحمن بن يزيد ، أن عبد الله بن مسعود ، كان إذا رأى النساء قال :أخروهن حيث جعلهن الله (صحيح ابن خزيمة باب ذكر بعض أحداث نساء بني إسرائيل الذي من أجله منعن المساجد ۱۶۰۶) بند (۲) مسلمان ہو، کافر کی امامت کسی حال میں صحیح نہیں۔ (۳) بالغ ہو،نابالغ بچے کی امامت صحیح نہیں۔حوالہ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ :لاَ يَؤُمُّ الْغُلاَمُ حَتَّى يَحْتَلِمَ (السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ لَمْ يَرَ الْجُمُعَةَ تُجْزِئُ خَلْفَ الْغُلاَمِ لَمْ يَحْتَلِمْ ۶۰۶۹) بند (۴) عقل مند ہو، پاگل کی امامت صحیح نہیں ۔حوالہ علي بن أبي طالب لا تقدموا سفهاءكم وصبيانكم في صلاتكم ولا على جنائزكم فإنهم وفدكم إلى الله عز وجل (مسند الفردوس للديلمي۴۸۴/۱) بند (۵) نماز کے صحیح ہونے کیلئے ضروری قرأت پر قادر ہو ، لہذا اس ان پڑھ کی امامت جو نماز میں پڑھی جانے والی مقدار قرأت پر قادر نہ ہو صحیح نہیں ۔حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللَّهُمَّ أَرْشِدْ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ: ۱۹۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ امام مقتدی کا ضامن ہوتا ہے اور قرأت نماز کا اہم رکن ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور امام مقتدی کی قرأت کا بھی ضامن ہوتا ہے، جب وہ قرأت پرقادر نہ ہوگا توضامن کیسے بنے گا؛ اس لیے فقہاء کرام نے اس کی امامت کوغیردرست قرار دیا ہے۔ ( وَلَا ) يُصَلِّي ( الْقَارِئُ خَلْفَ الْأُمِّيِّ وَلَا الْمُكْتَسِي خَلْفَ الْعَارِي ) لِقُوَّةِ حَالِهِمَا . (الهداية: ۵۶/۱) بند (۶) نماز کے شرائط میں سے کوئی شرط اس میں مفقود نہ ہو جیسے طہارت اور ستر عورت وغیرہ۔حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلَاةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ(بخاري بَاب فِي الصَّلَاةِ ۶۴۴۰)عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَلَى ابْنِ عَامِرٍ يَعُودُهُ وَهُوَ مَرِيضٌ فَقَالَ أَلَا تَدْعُو اللَّهَ لِي يَا ابْنَ عُمَرَ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ (مسلم بَاب وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ: ۳۲۹) يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ(الاعراف :۳۱) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْحَائِضِ إِلَّا بِخِمَارٍ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْمَرْأَةِ إِلَّا بِخِمَارٍ۳۴۴) مذکورہ نصوص سے معلوم ہوا کہ طہارت اور سترعورت کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور جب امام ان دونوں سے خالی ہوگا تواس کی نماز نہ ہونے کی وجہ سے مقتدیوں کی بھی نماز نہ ہوگی؛ اس لیے کہ وہ ان کا ضامن ہوتا ہے اور اس کے علاوہ جتنے شرائط ہیں نماز کی صحت ان پرموقوف ہوتی ہیں؛ اسی وجہ سے فقہاء کرام نے بتلایا کہ امامت کے صحیح ہونے کے لیے نماز کے شرائط میں سے کوئی شرط مفقود نہ ہو۔ بند (۷) اعذار سے صحیح سالم ہو، جیسے نکسیر، پیشاب کا دائمی جریان اور ہوا کا خروج ۔حوالہ وَلَا يَصِحُّ اقْتِدَاءُ الصَّحِيحِ بِصَاحِبِ الْعُذْرِ الدَّائِمِ ؛ لِأَنَّ تَحْرِيمَةَ الْإِمَامِ مَا انْعَقَدَتْ لِلصَّلَاةِ مَعَ انْقِطَاعِ الدَّم فَلَا يَجُوزُ الْبِنَاءُ ، (بدائع الصنائع فصل شرائط اركان الصلاة۵۴/۲) بند (۸) زبان اس قدر درست ہو کہ حروف کو بعینہٖ ادا کرسکتا ہو(لہذا ایسے شخص کی امامت جو راء کو غین سے یا لام سے یا سین کو ث سے بدل دے ، اس شخص کے حق میں درست نہیں جو ان حروف کی ادائیگی پر قادر ہو)۔حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللَّهُمَّ أَرْشِدْ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ: ۱۹۱) امام ضامن ہوتا ہے اس لیے کم ازکم امام مقتدی کے مماثل ہو۔ أن يكون الإمام صحيح اللسان، بحيث ينطق بالحروف على وجهها، فلا تصح إمامة الألثغ وهو من يبدل الراء غيناً، أو السين ثاء، أو الذال زاياً، لعدم المساواة، إلا إذا كان المقتدي مثله في الحال. (الفقه الاسلامي وادلته شروط صحة الإمامة أو الجماعة: ۳۴۶/۲) بند