انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۳)امام ابوداؤدؒ.... سلیمان بن اشعث سجستانی (۲۷۵ھ) امام ابوداؤد برِصغیرہندوپاک کے مسلمانوں سے بہت قریب کی نسبت رکھتے ہیں، سیستان جوہرات اور سندھ کے مابین ایک قصبہ ہے وہاں کے رہنے والے تھے، عرب اسے سجستان پڑھتے ہیں اور اسی نسبت سے امام ابوداؤد کو سجستانی کہا جاتا ہے، آپ تحصیل علم کے لیے بغداد تشریف لے گئے، زندگی کا بیشتر حصہ وہیں گزارا، وہیں سنن ابی داؤد تالیف کی؛ پھرآخر میں بصرہ چلے گئے اور وہیں وفات پائی، طلبِ حدیث میں شام، عراق، خراسان اور الجزائر وغیرہ کے متعدد سفر کیئے، سینکڑوں اساتذہ سے حدیث سنی، امام بخاری اور امام مسلم کے ساتھ بہت سے اساتذہ میں شریک ہیں، امام احمد بن حنبلؒ، امام یحییٰ بن معینؒ، ابوالولید الطیالسیؒ، عبداللہ بن مسلمۃ القعنبیؒ ان کے بھی اُستاد تھے اور امام ترمذیؒ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ ان کے بھی شاگرد تھے، ایک حدیث امام احمد بن حنبلؒ نے ابوداؤدؒ سے بھی روایت کی ہے، اسے حدیث عتیرہ کہا جاتا ہے، امام ابوداؤد اس پر ناز کرتے تھے کہ ان کے استاد امام احمد نے ایک حدیث ان سے سنی ہے، وکیعؒ (۱۹۷ھ) کہتے ہیں: "لایصیر الرجل عالماً حتی یاخذ عمن ھو فوقہ وعمن ھودونہ وعمن ھومثلہ"۔ (مقدمہ فتح الباری:۲/۴۸۰، امام وکیعؒ کوعلم حدیث پر امام ابوحنیفہؒ نے متوجہ کیا تھا) ترجمہ: کوئی شخص حدیث کا عالم نہیں بن سکتا جب تک اپنے سے اُوپر کے درجے کے علماء سے اپنے سے کم درجے کے علماء سے اور اپنے ہمرتبہ علماء سے سب سے اخذ علم نہ کرے۔ "امام اھل الحدیث فی عصرہ بلامدافعۃ"۔ (اہلِ حدیث کا لفظ ان دنوں محدثین کے معنی میں استعمال ہوتا تھا اس سے کوئی خاص فقہی مسلک نہ لیا جاتا تھا یہ اہلِ سنت ہی تھے جواس خاص فن (حدیث) میں آگے نکل گئے اور بسااوقات یہ فقہ میں بھی ساتھ ساتھ ماہر ہوتے، امام نوویؒ (۶۷۶ھ) ایک مقام پر لکھتے ہیں "عند اہل الحدیث والفقہ والمتکلمین من اھل السنۃ خلافاً لما تاوّلتہ الباطنیہ" (شرح صحیح مسلم:۸۱) اس لفظ سے غیرمقلدین کا گروہ مراد ہو، یہ اصطلاحِ جدید بہت بعد کی ہے) ترجمہ: آپ بلاشبہ اپنے دور میں محدثین کے امام تھے۔ حافظ موسیٰ بن ہارون (۲۲۴ھ) کہتے ہیں: امام ابوداؤد دنیا میں حدیث کے لیے اور آخرت میں جنت کے لیے پیدا کیئے گئے تھے __________ آپ نے سنن مکمل کرکے اپنے استاد امام احمد کے سامنے پیش کی، آپ نے اسے پسند فرمایا، امام احمد ائمہ اربعہ میں چوتھے امام ہیں، ان سے پہلے امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ ہوچکے تھے، امام ابوداؤد کے دور میں چاروں اماموں کی فقہی کاوشیں، ان کے اصول فقہ، ان کے اجتہادی کارنامے اور ان کے ابواب فقہ لوگوں کے سامنے آچکے تھے، امام ابوداؤد نے چاہا کہ اب ایک ایسا حدیثی ذخیرہ مرتب ہونا چاہیے جس میں مختلف مجتہدین کے مستدلات ایک نظر میں سامنے آجائیں، ان کی کتاب سنن ابی داؤد کا موضوع ائمہ کے مستدلات ہیں اور ایک فقیہ کوان سے چارہ نہیں، امام ابوداؤد امام احمد کے شاگرد تھے اور ان سے متاثر بھی اور ان کی سنن میں جگہ جگہ حنبلی نقطہ نظر غالب نظر آتا ہے، صرف حنابلہ کے لیے ہی نہیں ان کی کتاب ائمہ اربعہ کے پیروؤں کے لیے ایک مجتہدانہ دستاویز کا درجہ رکھتی ہے اور علماء فقہ کے لیے یہ ایک بہت بڑا علمی ماخذ ہے، ائمہ اربعہ میں سے دوامام ابوحنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ عراق سے تعلق رکھتے تھے اور دوحجاز سے، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ، مسلمانوں میں الحاد اور اعتزال اور رفض وخارجیت کے سب فتنے عراق سے ہی اُٹھے تھے، جبروقدر کی بحثیں پہلے وہیں چلیں، فتنہ خلقِ قرآن نے وہیں سے سراُٹھایا اور کوفہ وبصرہ ہی ان اختلافات کی پہلی آماجگاہ بنے، ان اختلافات میں امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ دونوں کا موقف یہ رہا کہ ان اختلافات میں صحابہؓ کومعیار بنائیں اور جس طریق پر وہ رہے اسی راہ کوصواب جانیں، ارشادِ نبوت "مَاأَنَاعَلَیْہِ وَأَصْحَابِیْ" کا تقاضا بھی یہی تھااور اسی میں انتشار والحاد سے بچنے کی راہ تھی، حنفیہ اور حنابلہ کے ہاں قولِ صحابی حجت ہے اور دونوں نے صحابہ کرامؓ کوہراختلاف کا فیصل سمجھا ہے، شوافع اورمالکیہ کے ہاں ایسا نہیں، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ حنفی اور حافظ ابنِ تیمیہ حنبلی کس طرح ہراختلاف میں وکیلِ صحابہ بنے نظر آتے ہیں یہ اہلِ علم سے مخفی نہیں، امام ابوداؤد کا نقطۂ نظر بھی سنن میں یہی ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں: "قَالَ أَبُودَاوُد إِذَاتَنَازَعَ الْخَبَرَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُظِرَ إِلَى مَاعَمِلَ بِهِ أَصْحَابُهُ مِنْ بَعْدِهِ"۔ (ابوداؤد،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَنْ قَالَ لَايَقْطَعُ الصَّلَاةَ شَيْءٌ، حدیث نمبر:۶۱۸، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:آنحضرتﷺ سے دوحدیثیں اگرآپس میں ٹکراتی ہوئی ملیں توفیصلہ اسی پر ہوگا کہ آپ کے بعد آپ کے صحابہ نے کس روایت پر عمل کیا۔ ان حالات میں امام ابوداؤد امام ابوحنیفہؒ کے علم وفضل کے بڑے قائل تھے، آپ نے فرمایا: "رحم الله أباحنيفة كان اماما"۔ (الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم:۱/۳۲،شاملہ،الناشر: دار الكتب العلمية،مكان النشر:بيروت) ترجمہ:اللہ امام ابوحنیفہؒ پر رحم فرمائے، آپ واقعی امام تھے۔ نواب صدیق حسن خان صاحب نے امام ابوداؤد کوشافعی المسلک لکھا ہے؛ مگرحافظ ابنِ تیمیہؒ انہیں حنبلی کہتے ہیں اور یہی حضرت مولانا انورشاہ کشمیریؒ کی رائے ہے، سنن ابی داؤد کے مطالعہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ حنبلی تھے، آپ نے مراسیل ابی داؤد کے نام سے ایک اور کتاب لکھی ہے اور ظاہر ہے کہ شافعیہ مرسل کوحجت نہیں سمجھتے، سنن ابی داؤد کی کل مرویات چارہزار آٹھ سو کے قریب ہیں، ان میں ایک حدیث ثلاثی بھی ہے، صحیح بخاری میں کئی ثلاثیات ہیں۔