انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جعفرؓ ابو طالب کی تقریر دل پذیر "اے بادشاہ!ہم لوگ جاہل تھے،بُت پرست تھے،مردہ خور تھے،بدکار تھے ،قطع رحمی اور پڑوسیوں سے بدمعاملگی کرتے تھے، ہم میں جو طاقتور ہوتا تھا وہ کمزور کا حق دبا لیتا تھا، یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کے حسب نسب اورصدق وامانت سے ہم سب واقف تھے،اُس نے ہم کو موحد بناکر بت پرستی سے روکا،راست گفتاری،امانت اورصلہ رحمی کا حکم دیا،ہمسایوں کے ساتھ نیک برتاؤ کی تعلیم دی،بدکاری،دروغ گوئی اور یتیموں کا مال کھانے سے منع کیا،قتل وغارت سے باز رکھا اورعبادتِ الہی کا حکم دیا، ہم اُس رسول پر ایمان لائے اوراس کی فرماں برداری کی،اس لئے ہماری قوم ہم سے ناراض ہوگئی،ہم کو انواع واقسام کی اذیتیں پہنچائیں، یہاں تک کہ ہم مجبور ہوکر اپنے وطن سے نکل آئے اورآپ کے ملک میں پناہ گزیں ہوئے،ہم کو یقین ہے کہ آپ کے ملک میں ہم کو ستایا نہ جائے گا"۔ نجاشی نے یہ تقریر سُن کر کہا کہ تمہارے رسول پر خدا کا جو کلام نازل ہوا ہے اس میں سے کچھ سُناؤ ؛چنانچہ حضرت جعفرؓ نے سورۂ مریم ؑ کی تلاوت شروع کی،قرآن کریم کی آیات سُن کر نجاشی اورتمام درباریوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے،جب حضرت جعفرؓ سورہ مریمؑ کی ابتدائی آیات تلاوت فرما چکے تو نجاشی نے کہا اس کلام میں وہی رنگ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توریت میں ہے،یہ دونوں ایک سے ہی کلام معلوم ہوتے ہیں،قریش کے ایلیچیوں نے کہا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھی مخالف ہیں، اس بات کے کہنے سے اُن کا یہ مدعا تھا کہ نجاشی شاہِ حبش جو عیسائی ہے مسلمانوں سے ناراض ہوجائے گا،حضرت جعفر بن ابو طالبؓ نے فوراً جواب دیا کہ ہر گز نہیں ؛بلکہ "ھُوَ عَبْدُاللہِ وَرَسُوْلُہُ وَکَلِمَۃٌ الَقَاھَا اِلٰی مَرَیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ" نجاشی نے کہا تمہارا یہ عقیدہ بالکل درست ہے،انجیل کا بھی یہی مفہوم ہے،نجاشی نے قریش کے ایلیچیوں کو ناکام واپس کردیا اورکہہ دیا کہ میں ان لوگوں کو ہرگز تمہارے سپرد نہ کروں گا، ساتھ ہی نجاشی نے قریش کے تمام تحفے اورہدایا واپس کردئے جس سے اُن کی اوربھی تذلیل ہوئی،یہ واقعہ نبوت کے چھٹے سال کا ہے،قریش کو جب نجاشی کے دربار میں بھی ناکامی ہوئی تو اُن کی دشمنی مسلمانوں کے ساتھ اور بھی زیادہ بڑھ گئی۔