انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۶)امام ابن ماجہ قزوینی ؒ (۲۷۳ھ) ابوعبداللہ محمدبن یزید بن ماجہ ایران کے شہرقزوین میں سنہ۲۰۹ھ میں پیدا ہوئے، طلبِ حدیث میں بصرہ، کوفہ اور بغداد، مکہ ومدینہ اور شام کے سفر کیئے، خراسان بھی گئے اور وہاں کے علماء سے حدیث سنی، امام مالکؒ اور امام لیث مصریؒ کے تلامذہ سے استفادہ کیا (مرقات:۱/۲۳) حافظ ابنِ حجر عسقلانی کہتے ہیں آپ کی کتاب سنن کے موضوع پر نہایت عمدہ کتاب ہے۔ "کتابہ فی السنن جامع جید"۔ (تہذیب التہذیب:۹/۳۱) ابنِ ماجہ نے سنن میں کوشش کی ہے کہ زیادہ تروہ حدیثیں لائیں جوپہلی پانچ مشہور کتابوں میں نہیں ملتیں، وہ ضعاف بھی ہوں تودوسری صحیح اور حسن احادیث کوسمجھنے میں ان سے بہت مدد ملتی ہے، آپ کہیں کہیں علاقوں کی نسبت سے بھی سند کی نشاندہی کرتے ہیں جس کی مثال پہلی کتابوں میں نہیں ملتی، مثلاً حدیث "کل مسکرٍ حرام" کی ایک سند کے متعلق لکھتے ہیں "هَذَا حَدِيثُ الْمِصْرِيِّينَ" (سنن ابنِ ماجہ، كِتَاب الْأَشْرِبَةِ،هَذَا حَدِيثُ الْمِصْرِيِّينَ،حدیث نمبر:۳۳۷۹، شاملہ،موقع الإسلام) یہ مصر والوں کی سند ہے اور دوسری سند کے بارے میں فرماتے ہیں "ھَذَا حَدِیْثُ الْعِرَاقِیِّیْنَ" (یہ جملہ کہیں بھی نہیں مل سکا) عراقی اسے اس سند سے نقل کرتے ہیں۔ سنن ابنِ ماجہ میں پانچ ثلاثی احادیث ہیں، جوعالی سند کے اعتبار سے اس کتاب کا ایک بڑا اعزاز ہیں، یہ پانچوں روایات ایک ہی سند سے مروی ہیں، سنن ابی داؤدؒاور سنن ترمذیؒ میں صرف ایک ایک روایت ثلاثی ہے اور علیحدہ علیحدہ سند سے ہے، صحیح مسلم اور سنن نسائی میں ایک بھی ثلاثی حدیث نہیں؛ البتہ صحیح بخاری میں بائیس ثلاثی روایات موجود ہیں، سنن ابن ماجہ میں ثلاثیات کی جوسند ہے اس میں کثیر بن سلیم راوی پر محدثین نے جرح کی ہے، امام دارمی (۲۵۵ھ) کی مسند میں ثلاثیات دیگر سب کتابوں سے زیادہ ہیں۔