انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بعثت کی شہادتیں حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے جن اصحاب نے آپﷺ کی نبوت کے بارے میں سنا انھوں نے اس کی شہادت دی جس کا مختصر تذکرہ درجہ ذیل ہے: حضرت ابو بکر ؓ صدیق فرماتے ہیں کہ میں ایک روز صحن کعبہ میں جویائے حق زید بن عمرو بن نفیل کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ، اسی وقت اُمیہ بن ا لصلت ان کے پاس یہ کہتے ہوئے آیا ، ائے طالب خیر تمہارا کیا حال ہے ، کیا تم اپنا طالب مقصود پا گئے ؟ کہا ! نہیں، تلاش و جستجو جاری ہے ، پھر ایک شعر پڑھا جس کا ترجمہ یہ ہے ، تمام ادیان قیامت کے دن بجز اس دین کے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور سوائے ملتِ حنیف کے سب ہلاک ہو جائیں گے،پھر پوچھا ، اچھا یہ تو بتاؤ یہ رسول جن کا انتظار ہے اہل ِ فلسطین میں سے ہونگے یا ہم میں سے ؟حضرت ابو بکر کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ کسی نبی کے مبعو ث ہونے کا ذکر سنا، جب یہ محفل برخاست ہوئی تو وہ سیدھے ورقہ بن نوفل کے گھر گئے جو آسمانی کتابوں کے عالم اور صاحب بصیرت معمر نصرانی راہب تھے ، میں نے ان سے ساری گفتگو بیان کی تو اُنھوں نے سن کر کہا ! تمام اہل کتاب اورعلمأ متفق ہیں کہ آنے والا نبی عرب کے اعلیٰ خاندان ہی سے ہو گا ، میں اس کے نسب سے واقف ہوں ، تمہاری قوم مطلوبہ معیار پر پوری اترتی ہے ،حضرت ابو بکر ؓ نے پوچھا ! وہ نبی کیا پیام لائیں گے ؟ کہا کہ جو اللہ تعالیٰ حکم دے گا وہی بیان کریں گے اور وہ کبھی ظلم کی بات نہیں کریں گے ، حضرت ابو بکر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات ذہن نشین کر لی۔ (سیرت احمد مجتبیٰ ) اُمیہ بن ابی ا لصلت کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا ، وہ ابو ا لصلت عبداللہ بن زمعہ کا بیٹااور عہد جاہلیت کا شاعر تھا ، ساتھ ساتھ اﷲ کی وحدانیت کا بھی قائل تھا، کہا جاتا ہے کہ اسی نے قریش کو مشورہ دیا تھا کہ خطوط کی ابتداء" با سمک اللھم " سے کیا کریں ، روایت ہے کہ ایک بار وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ کی شان میں قصیدہ پڑھا، حضور اکرمﷺ نے اسے سورۂ طٰہٰ پڑھ کر سنائی ، اسے سنتے ہی اس نے بے اختیار کہا، یہ کسی بشر کاکلام نہیں ہے ، حضورﷺ نے فرمایا ! مجھ پر ایمان لے آؤ ، عرض کیا کہ میں کوئی کام اپنے بھائیوں کے مشورہ کے بغیر نہیں کرتا ، ان سے مشورہ کر کے لوٹ آؤں گا ، پھر گھوڑے پر سوار ہو کر بجائے وطن کے شام کی جانب روانہ ہوا اور ایک مشہور گرجا پر پہنچا ، وہاں کے راہبوں سے صورت حال بیان کیا،یہ سن کر وہاں کا بڑا پادری اُسے ایک کمرہ میں لے گیا جہاں دیواروں پر انبیاکی تصویریں بنی ہوئی تھیں، ان میں سے ایک تصویر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ ان میں سے کس سے مل کر آیا ہے ، میں نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کیا تو اُس نے فوراً مجھے لوٹ جانے کو کہا اور یہ بھی کہاکہ یہ خاتم النبین ہیں، اس نے مجھے ان پر ایمان لانے کی ہدایت کی، جب وہ حجازواپس آیا تو غزوۂ بدر ہو چکا تھا جس میں روسائے قریش مارے جا چکے تھے ، اس نے خیال کیا کہ اگر آنحضرت ﷺ نبی ہوتے تو اپنی قوم کے سرداروں کو قتل نہ کرتے ، اس نے ان کا مرثیہ لکھا اور طائف کی جانب چلا گیا۔ ایک بت عتیرہ نام کا عمان کے قریہ سمایا میں تھا جس کا مجاورمازن بن عضوبہ تھا ، ایک رات جب اس کے آگے قربانی ہوئی تو ایک آواز آئی، ائے مازن ! خیر ظاہر اور شر پوشیدہ ہو گیا اس لئے کہ قبیلہ مضر سے ایک نبی مبعوث ہوئے ہیں، اب پتھر کے بتوں اور معبودوں کو چھوڑ کر جہنم کی آگ سے محفوظ ہو جاؤ ، میں بت کے اندر سے یہ آواز سن کر خوف زدہ ہو گیا، کچھ دنوں بعد جب بھینٹ چڑھائی گئی تو بت نے پھر وہی آواز دی اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کو کہا۔ ان ہی دنوں میں حجاز سے ایک آدمی اس طرف گیا، مازن نے اس سے پوچھا! کیا تمہارے طرف کوئی نئی بات ہوئی ہے؟ اس نے کہا کہ محمدﷺ بن عبداللہ کو اللہ تعالیٰ نے نبی بنایا ہے اور وہ لوگوں کو حق کی طرف بلا رہے ہیں،یہ سن کر میں نے بتوں کو توڑ ڈالا اور حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایمان قبول کیا۔ سواع نامی ایک بت تھا جس کو قبیلہ ہذیل، سلیم اور بنو ظفر کے لوگ پوجتے تھے،یہ معلّٰی کے مقام پر نصب تھا، قبیلہ سلیم کی طرف سے بنو ظفر نے ہدیہ پیش کرنے راشد بن عبدربہ کو بھیجا، جب وہ فجر کے وقت سواع کے پاس پہنچا تو اس کے قریب کے بت سے آواز آئی! اولاد عبدالمطلب میں نبی پیدا ہوئے ہیں اور ان کی بعثت ہو چکی ہے، وہ بتوں کے آگے قربانی اور ذبیحہ سے منع کرتے ہیں اور سود خواری کو حرام کہتے ہیں، دوسرے بت نے کہا کہ نبی بر حق کے مبعوث ہونے پر ضماد ترک کر دیاگیا ، تیسرے نے کہا ! اس قریشی نبی نے عیسیٰ بن مریم کے بعد نبوت سنبھال لی ، وہ گزری ہوئی اقوام کے حالات بتاتے ہیں اور آنے والے واقعات کی خبر دیتے ہیں ، حضرت راشد سے روایت ہے کہ اِتنے میں کہیں سے دو لومڑیاں آئیں ، ہدایہ کو کھایا اردگردکو چاٹا اورسواع پر چڑھ کر پیشاب کر دیا، میری زبان سے بے اختیار نکلاکہ کیا وہ رب ہو سکتا ہے جس کے سر پر لومڑیاں سوار ہوں اور اس پر پیشاب کریں جو بڑی ذلت کی بات ہے۔