انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنت کی حقیقت اس موجودہ دنیا میں گرچہ لذتیں اور مسرتیں ہیں،مگر جوچیزیں یہاں نہیں ہے،وہ ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنا ہے،یہاں کی ہر لذت عارضی اورہر مسرت فانی ہے،یہاں خوشی کا کوئی ایسا ترانہ نہیں ،جس کے بعد غم وماتم کا نالہ نہ ہو،یہاں پر پھول کے ساتھ کانٹے،ہر روشنی کےساتھ تاریکی ،ہروجود کے ساتھ فنا،ہرسیری کے بعد بھوک، ہر سیرابی کے بعد پیاس،اورہر غنا کےبعد محتاجی ہے،انسان ہزاروں شکلیں اٹھانے اورہزاروں صدمے سہنے کے بعد ایک مسرت کا پیام سنتا اورخوشی کا منظر دیکھتا ہے مگر ابھی اس سے میسر ہونے کی بھی نوبت نہیں آتی کہ اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے،غرض اس موجود عالم فانی کی ہرشئی آنی جانی ہے اوریہی یہاں کی سب سے بڑی کمی ہے۔ لیکن جنت اس مملکت کا نام نہیں جہاں کی لذتیں جاودانی اورجہاں کی مسرتیں غیرفانی ہیں، جہاں حیات ہے مگر موت نہیں،راحت ہے مگر تکلیف نہیں، لذت ہے مگر الم نہیں ،مسرت ہے مگر غم نہیں ،جہاں وہ سکون ہے جس کے ساتھ اضطراب(بے قراری) نہیں اور وہ شاد مانی ہے جس کے بعد حزن واندوہ نہیں۔ (یونس:۶۲۔ ترمذی، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ ونعیمھا، حدیث نمبر:۲۴۴۹) شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے جنت کا جو نقشہ کھینچا تھا وہ بالکل صحیح تھا، اس نے کہا اے آدم علیہ السلام! "ہَلْ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰى " (طٰہٰ:۱۲۰) کیا میں تم کو ہمیشگی کا درخت بتلادوں اور ایسی بادشاہی جس میں کبھی ضعف نہ آوے۔ (ترجمہ تھانویؒ) مگر جنت کا یہ وصف سناکر ان کو جو راستہ بتایا وہ موت کے درخت اورفنا ہوجانے والے ملک کی طرف کا تھا اور یہی وہ فریب تھا،جس میں آدم علیہ السلام گرفتار ہوئے۔ (سیرۃ النبیﷺ :۴/۴۱۶) اسی لیے قرآن مجید میں آیا ہے:کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان پوشیدہ کرکے رکھا گیا ہے۔ (السجدہ:۱۷) اورایک حدیث میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کا ارشاد نقل کیا ہے:وہاں وہ نعمتیں ہیں کہ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اورنہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی دل میں ان کا خیال آیا۔ (بخاری، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وانھا مخلوفۃ، حدیث نمبر:۳۰۰۵) راحت وآسائش،لطف ولذت کی اعلی سے اعلی چیزیں جو ہمیں سمجھانے کے لیے دنیا کی چیزوں کے نام سے بیان کی گئی ہیں، جنت میں ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر موجود ہیں۔