انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اسرائیلی روایات کی مثالیں "وَجَاءُوْ عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ"۔ (یوسف:۱۸) اوریوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگاکر لے آئے۔ (۱)اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد کو اس بات کا یقین دلانے کےلیے کہ حضرت یوسف کو ایک بھیڑئے نے ہی کھالیا ہے ،ایک بھیڑئےکو باندھ کرحضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب کے پاس لے آئے اور کہا کہ: ابا جان! یہی وہ بھیڑیا ہے جو ہماری بکریوں کے ریوڑ میں آتا رہتا ہے اور ان کو چیرتا پھاڑتا ہے،ہمارا خیال ہے کہ اسی نے ہمارے بھائی یوسف کا خون کیا ہے،حضرت یعقوب نے بھیڑئے سے کہا قریب آؤقریب آ ؤ،وہ قریب آگیا ،اس سے کہا تم نے میرے بیٹے کو مار کر تکلیف پہنچائی اور مسلسل غم میں مبتلا کردیا ہے ،پھر حضرت یعقوب نے اللہ سے دعا کی کہ،یا اللہ !تو اس کو گویائی دے،اللہ نے اس کو بولنا سکھادیا، بھیڑئے نے کہا ،اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنایا ہے، نہ میں نے اس کا گوشت کھایا نہ میں نے اس کی کھال ادھیڑی ہے، نہ میں نے اس کا ایک بال اکھیڑا ہے،قسم خدا کی آپ کے لڑکے سے میرا کوئی سروکار نہیں ،میں ایک پردیسی بھیڑیا ہوں میں مصر کے اطراف سے اپنے ایک بھائی کی تلاش میں آیا ہوا ہوں،میں اس کی جستجو میں تھا کہ آپ کے لڑکوں نے میرا شکار کرلیا،ہم لوگوں پر انبیاء اوررسولوں کا گوشت حرام کردیا گیا ہے..الخ۔ (تفسیر ثعلبی:۴/۲۱) "فَاَلْقٰہَا فَاِذَا ہِىَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی"۔ (طٰہٰ:۲۰) انہوں نے اسے پھینک دیا،وہ اچانک ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گئی۔ (۲)اس آیت کے سلسلہ میں وہب بن منبہ کی ایک روایت ہے،انہوں نے کہا کہ حضرت موسی نے جب عصا کو زمین پر ڈالا تودیکھا کہ وہ ایک عظیم الجثہ اژدھا بن گیا،لوگ حیرت واستعجاب اور خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے،اژدھا اِدھر اُدھر رینگ رہا ہے، جیسے کچھ تلاش کررہا ہو، اژدھا رینگتا ہوا پہاڑ کی چٹانوں کے پاس پہنچ گیا تو بھوکے اونٹ کی طرح بیتابی کے ساتھ پوری چٹان نگل گیا،جب وہ اپنا منھ بڑے سے بڑے تناور درخت کی جڑوں پر لگادیتا تھا تو اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتا تھا،اس کی دونوں آنکھیں دھکتے ہوئے انگاروں کی طرح تھیں؛اس کے بال نیزوں کی طرح تھے..الخ۔ (تفسیر ابن کثیر:۵/۲۷۹) "أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْك"۔ (البقرۃ:۲۵۸) کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار( کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیمؑ سے بحث کرنے لگا؟۔ (۳)اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت میں نمرود کے بارے میں اس طرح لکھا ہوا ہے:ایک مچھر نمرود کی ناک میں گس گیا اور اس کی ناک میں چار سو سال تک بھنبھناتا رہا،اس مچھر کی اذیت کی وجہ سے نمرود انتہائی بے چین رہتا تھا اور مستقل عذاب میں مبتلا تھا اور جب تکلیف کی شدت اور بے چینی بڑھ جاتی تھی تو لوہے کی سلاخ سے یا ہتھوڑے سے اس کے سر کو ٹھونکا جاتا تھا جس سے مچھر کی اذیت کچھ ہلکی پڑتی تھی ،اسی عذاب میں نمرود چار سو سال زندہ رہا پھر اسی اذیت کی وجہ سے مرگیا۔ (تفسیر ابن کثیر:۱/۳۱۳) یہ تینوں روایتیں اسرائیلی خرافات میں سے ہیں،جیسا کے علماء امت نے اس کی تصریح کی ہے۔ (تفسیروں میں اسرائیلی روایات:۴۴۴) قرآن کریم جو اللہ تبارک وتعالی کا عظیم ترین اورمقدس ترین کلام ہےاور رسول کریمﷺ کا حیرت انگیز ابدی ودائمی معجزہ ہے،جو ساری انسانیت کے لیے نسخہ ہدایت اوردستور حیات بنا کر نازل کیا گیا، جس سے مردہ دلوں کی مسیحائی ہوئی اورگم گشتہ راہ لوگوں کومنزلِ مقصود کا پتہ ملا، جس کی علمی ،ادبی حلاوتوں،روحانی راحتوںاورمعانی ومفاہیم کے بے پناہ وسعتوں نے ہر زمانہ کے انسانوں کو متاثر کیا اورقلب و نظر کی دنیا میں انقلاب کا ذریعہ ہے، سب سے بڑا اعجاز اس کلام مبارک کا یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے جو اس دنیا میں ازل سے کسی اورکتاب یا صحیفہ آسمانی کو نصیب نہیں ہوا اور علوم و معارف کے اس گنجینۂ گراں مایہ کی حفاظت اورخدمت کے لیے انسانوں ہی میں سے مختلف علوم کے مختلف افراد کا انتخاب فرمایا؛ چنانچہ الفاظ قرآنی کے لیے حفاظِ کرام کوسعادت حفظِ قرآن بخشی اورمرادِ ربانی منشائے نبوی کی صحیح تعیین و تشریح کے لیے حضرات مفسرین کو منتخب کیا؛ چنانچہ مفسرین کرام نے اپنی خدادا دذہانت اورتمام تر صلاحیت کو اس کلام الہٰی کی غواصی میں لگادیا؛ لیکن آج کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ تمام تر موتیوں اورعلم وحکمت کے جواہر پاروں کو اکٹھا کیا جاسکا ،یہ کلام ایک بحر بیکراں ہے جس کی مختلف زبانوں میں علمائے امت نے اپنی صبح و شام کی محنتوں کا محور بنایا،آج انہی علماء کرام اورمفسرین عظام کی کوششوں اورکاشوں کا ثمرہ ہے کہ مختلف زبانوں میں قرآن کی تفسیر موجود ہے، ذیل میں ہم صرف تفسیر قرآن کی مختلف کتابوں کے نام مع اسمائے مصنفین وسن وفات پیش کرتے ہیں، جو شروع سے لے کر آج تک امت میں مقبول ومتداول ہیں اورلا تعداد انسان ان کتابوں سے استفادہ کررہے ہیں پہلے عربی تفاسیر کے نام بعد ازاں اردو کتب تفاسیر رقم کی جارہی ہیں۔