انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اقوال صحابہ کا مقام انسان اور انسانیت کے درپیش مسائل کے حل کے بنیادی مآخذ قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ ذیلی اور ضمنی مآخذ میں صحابہ اور ان کے اقوال کا بھی ایک مقام ہے، تشریعی اعتبار سے اساسی اور بنیادی مآخذ کے بعد ان کی بڑی اہمیت ہےاور بہت سے احکام محض ان کے اقوال وافعال پر منحصر ہیں، ان کی ذات سے صادر ہوئے بے زبان افعال وحرکات بہت کچھ چیزوں کا پتہ دیتی ہیں اور ان کی قوتِ گویائی سے نکلے ہوئے الفاظ اپنے اندر ذات رسول کا عکس رکھتی ہیں، ان کی ذات خدائی احکام اور اسلامی مزاج کا آئینہ دار ہوتی ہے، وہ قرآن وسنت کے حقیقی مظہر ہیں۔ عدالتِ صحابہ صحابہ کرامؓ کی عدالت وثقاہت مسلم وواضح ہے، عدالت سے مراد معصیت کا محال ہونا نہیں؛ بلکہ گناہوں سے محفوظ رہنا ہے، صحابہ کرام کی ذات سے گناہوں کا صدور ممکن تو ہے؛ لیکن ان سے جب کوئی گناہ سرزد ہوجاتا تھا تواس پر انہیں فوری تنبہ ہوجاتا تھا، اس لیے تمام امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں اور جومشاجرات اور جنگیں اُن کے درمیان واقع ہوئی ہیں اورجواختلاف ان میں نظر آتا ہے وہ زیادہ ترتاریخی روایات پر مبنی ہے اور تاریخ تورطب ویابس کا مجموعہ ہے یاپھران حضرات کا اجتہاد تھا اور اجتہادی غلطی پر بھی ایک اجر ملتا ہے (البحرالمحیط:۴/۲۹۹) لہٰذا اس سے ان کی عدالت پر کوئی حرف نہیں آسکتا، صحابہ کی عدالت قرآن کریم اور احادیثِ رسول وغیرہ سے ثابت ہے۔ الفاظِ صحابی کے درجات صحابہ کے فتاویٰ وآثار کی اصولی حضرات نے کیفیتِ أدا اور سماع ولقاء کے لحاظ سے سات درجوں میں تقسیم کی ہے (مسلم الثبوت:۲/۱۶۱) جس کی تفصیل درجِ ذیل ہے: ۱۔"قال لنا واخبرنی وحدثنا" کےذریعہ اگرکوئی صحابی بیان کرے تویہ بالاتفاق حجت ہیں، اس لیے کہ اس میں واسطہ کا احتمال نہیں ہے۔ (مسلم الثبوت:۲/۱۶۱) ۲۔قال علیہ السلام اگرکوئی صحابی کہے تواس کو بھی سماع پر محمول کیا جائیگا؛ اس لیے کہ صحابی کی یہ شان نہیں ہے کہ بغیر سنے اس طرح بیان کردے۔ (مسلم الثبوت:۲/۱۶۱) ۳۔لفظ امر ونہی کے ذریعہ صحابی کوئی حکم بیان کرے تو اس میں اکثر حضرات کا کہنا ہے کہ یہ بھی قابل حجت ہے؛ البتہ امام ابوحنیفہؒ اس کو حجت تسلیم نہیں کرتے ہیں، امام کرخی بھی اس کے قائل ہیں؛ کیونکہ لفظِ امر ونہی میں کئی چیزوں کا احتمال ہوتا ہے۔ (البحرالمحیط:۴/۲۹۹) ۴۔اگرصحابی "امرنا وحُرم علینا" یعنی صیغۂ مجہول کے ذریعہ کوئی بات بیان کرے تواس میں بھی اختلاف ہے؛ کیونکہ اس صورت میں امر کی تعیین میں جہالت ہے کہ "اٰمِروناہی" کون ہے؟ حاکم یاکتاب اللہ یاکوئی اور؟۔ (مسلم الثبوت:۲/۱۶۱) ۵۔"من السنۃ" کہہ کر اگرکوئی صحابی کسی بات کو بیان کرے تووہ قابلِ حجت ہے؛ اس لیے کہ سنت کا نبیﷺ کی جانب سے ہونا ظاہر ہے؛ البتہ احناف کے یہاں "السنۃ" عام ہے، خلفاءِ راشدین کی سنت بھی اس میں داخل ہے۔ (مسلم الثبوت:۲/۱۶۲) ۶۔"عن النبیﷺ " کہہ کراگر صحابی بیان کرے توابنِ صلاح اور دیگر حضرات نے اس کو سماع پر محمول کیا ہے۔ (مسلم الثبوت:۲/۱۶۲) ۷۔"کنا نفعل" کہہ کرجب صحابی کوئی حکم بیان کرے تواس سے اجماعِ صحابہ کا ہونا ظاہر ہے، اس لیے یہ بھی حجت ہے؛ البتہ بعض حضرات نے اس کو حجت تسلیم نہیں کیا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے آثار اور اُن کی حجیت صحابہ کرامؓ سے جس طرح احادیث رسول منقول ہیں، اسی طرح ان احادیث کا اپنا فہم اور ان کے شانِ ورود کی روشنی میں مطلب وغیرہ بھی منقول ہے، صحابہ کے یہ اقوال وآثار کبھی کسی قرآنی آیت کے تعین کا کام دیتے ہیں، کبھی حدیثِ رسولﷺ کی شرح ہوتی ہے، ان کے اقوال سے کئی آیتوں کی تفسیر اور ان کا اجمال ختم ہوتا ہے اور نصوص کی تفہیم میں تسہیل ہوتی ہے، قرآن کی تفسیر کرتے وقت پہلے آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ رسولﷺ پر نظر رکھنی پڑتی ہے؛ اگر ان سے اس کی تفسیر معلوم ہوجاتی ہے تودوسری طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس کے بعد اقوالِ صحابہؓ کی روشنی میں اس کے معنی کی تعیین کا حکم ہے ؛اس لیے کہ وہ سب سے زیادہ قرآن کو جاننے والے اور سمجھنے والے ہیں، ہمارے لیے جوکچھ شنید ہے وہ ان کے لیے دید ہے؛ انھوں نے قرآن کی تشریح شارح محمدرسول اللہﷺ سے سیکھی ہے (حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ:۱/۳۳۲) نیز صحابہ کرامؓ کے آثار کی اتباع ہمارے لیے اس لیے بھی لازم ہے کہ وہ جوکچھ بیان کرتے ہیں وہ ان اسباب میں سے کوئی ایک ضرور ہوگا،وہ یا تو قول رسول کو براہ راست سنے ہوں گے یا جنہوں نے رسول سے سنا تھاان سے سنا ہوگا یاکتاب اللہ سے سمجھا ہوگا یاصحابہ کی جماعت کا اس پر اتفاق ہوگا یالغت والفاظ سے انہوں نے سمجھا ہوگا اور ظاہر ہے کہ اس معاملہ میں وہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں (اصول فقہ لابی زہرہ:۶۹۔ حیات ابن قیمؒ:۳۰۰) خود امام ابوحنیفہؒ کا اجتہاد کے باب میں یہ طرز تھا کہ جب کسی مسئلہ کا حل کتاب اللہ وسنت سے دریافت نہ ہوتا تھا توقولِ صحابی کو اختیار فرماتے تھے اور اگرصحابہ میں اختلاف ہوتا تودلائل کی روشنی میں جن کا قول قوی معلوم ہوتا اسے اختیار فرماتے۔ (اصول فقہ لابی زہرہ:۱۷۰) امام شافعیؒ نے بھی "الرسالۃ" میں اپنا مذہب یہی لکھا ہے (اصولِ فقہ لابی زہرہ:۱۷۰) اورامام مالکؒ اور امام احمدبن حنبلؒ توبکثرت اپنی کتابوں میں صحابہؓ کے اقوال اور ان کے فتاویٰ کو پیش کرتے ہیں اور ان سے استدلال کرتے ہیں تفصیل کے لیے مؤطا امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کی تصنیفات دیکھی جاسکتی ہیں، اس کے بعد شیخ ابوزہرہ لکھتے ہیں: "اَلْاَئِمَّۃُ الْاَرْبَعَۃُ کَانُوْا یَتَّبِعُوْنَ قَوْلَ الصَّحَابِیْ"۔ (اصولِ فقہ لابی زہرہ:۱۷۲) ترجمہ:ائمہ اربعہ قولِ صحابی کی اتباع کرتے ہیں۔ فتاویٰ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین صحابہ کرام کے فتاویٰ ان کے آثار کی طرح اثباتِ احکام میں قابلِ حجت ہیں، اُن سے کسی حکم کی مشروعیت اور کسی خاص حکم کی ممانعت ثابت کی جاسکتی ہے، اس لیے کہ صحابہ کرامؓ جب کوئی بات کہیں یاکسی مسئلہ میں فتویٰ دیں تودراصل وہ فتویٰ آیتِ قرآنی یامشکوٰۃ نبوت سےمستفاد ہوتا ہے؛ لہٰذا ان کے تمام فتاویٰ قابلِ حجت ہیں؛ چنانچہ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں: "أن الصحابي إذاقال قولا أوحكم بحكم أوأفتى بفتيا فله مدارك ينفرد بها عنه ومدارك لا نشاركه فيها فأمامايختص به فيجوز أن يكون سمعه من النبيﷺ شفاها أومن صحابي آخر عن رسول اللهﷺ "۔ (اعلام الموقعین:۴/۱۲۸) ترجمہ:صحابی رسولﷺ جب کوئی بات کریں یاکسی حکم کا فیصلہ کریں یاکسی مسئلہ میں فتویٰ دیں توان کے کچھ مدارک ومظان ایسے ہیں جوہمارے لیے نہیں ہیں، بعض مدارک ومظان میں ہم بھی ان کے شریک نہیں؛ لیکن کچھ مدارک ومظان صرف ان کے لیے خاص ہیں، مثلاً ممکن ہے کہ انہوں نے حضورﷺسے بالمشافہ سنا ہو یاکسی دوسرے صحابی سے سنا ہو جوخود حضورﷺ سے سنے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے فتاویٰ بلاشبہ حجت ہیں اگرغور سے دیکھا جائے توصحابہ کے فتاویٰ وآثار عام طور پر چھ حالتوں سے خالی نہیں ہوتے (۱)یاتوخود انہوں نے نبیﷺ سے سنا ہوگا (۲)یادوسرے صحابی سے سنا ہوگا جوحضورﷺ سے سنے ہیں (۳)کتاب اللہ سے مفہوم ہوگا (۴)صحابہؓ کا اس مسئلہ میں اتفاق ہوا ہو جس کا ہمیں علم نہ ہوسکا ہو (۵)چونکہ وہ قرائن ولغت کو ہم سے اچھی طرح جانتے تھے، جس کی وجہ سے ان کی رائے ہم سے بہتر تھی (اصول فقہ لابی زہرہ:۱۷۰) (۶)اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کا فہم غلط ہو یاحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے صراحت نہ ہو یہ وجہ ایسی ہے کہ بلاشبہ اس کے وقوع کا احتمال ہے؛ لیکن ان کے عدالت کے پیشِ نظر اس کا وقوع نادر ہے اور ظن غالب صواب اور صحت ہی کا ہے؛ لہٰذا ان کے فتاویٰ حجت ہیں، جیسا کہ حدیثِ رسولﷺ ہے: "وعظنا رسول اللهﷺ موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب فقال قائل يا رسول الله كأنها موعظة مودع فماذا تعهد إلينا فقال عليكم بالسمع والطاعة وإن تامر عليكم عبد حبشي كأن رأسه زبيبة وعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة"۔ (اعلام الموقعین:۴/۱۲۱) ترجمہ:ایک مرتبہ حضورﷺ نے ایک پراثر وعظ فرمایا جس سے آنکھیں اشک بار ہوگئیں اور دلوں میں خوفِ خدا پیدا ہوگیا توایک صاحب نے عرض کیا:یہ وداعی وعظ معلوم ہوتا ہے؟ یارسول اللہ! اس لیے آپ ہمیں کس بات کی تاکید کرتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا تم لوگوں پر سمع وطاعت واجب ہے؛ اگرچہ تمہارا حاکم کوئی حبشی غلام ہی ہو اورسراس کا نہایت چھوٹا ہو اور تم پر میری سنت اورمیرے بعد خلفاءِ راشدین کی سنت لازم ہے، اسے خوب مضبوطی سے پکڑے رہنا اور دین میں نئی چیزوں کے پیدا کرنے سے ڈرتے رہنا ،اس لیے کہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے۔ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد علامہ ابنِ قیمؒ لکھتے ہیں کہ حضورﷺنے اس میں خلفاءِ راشدین کو اپنی سنت کے ساتھ ذکر کیا اور ان کی اتباع کا سختی سے حکم دیا ہے؛ لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہےکہ صحابہؓ کے اور خلفاء راشدین کے فتاویٰ بھی سنت میں داخل ہیں؛ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: "وَھٰذَا یَتَنَاوَلُ مَاأَفْتَوْا بِہِ"۔ (اعلام الموقعین:۴/۱۲۱) ترجمہ:صحابہ کے فتاویٰ بھی اس میں شامل ہیں۔ صحابہ کے فتاویٰ بھی اس حدیث سے قابلِ حجت معلوم ہوتے ہیں۔ اقوالِ صحابی رضی اللہ عنہم اجمعین کی قسمیں صحابہ کرامؓ سے جواقوال منقول ہیں او ران کی صراحت قرآن وحدیث میں نہ ہوں تووہ دوطرح کے ہیں:ایک قسم تووہ جوعقل سے ماوراء ہیں ،جنھیں غیرقیاسی کہا جاتا ہے، دوسری قسم وہ ہیں جن کا تعلق فہم وقیاس سے ہے اور انہیں قیاسی کہا جاتا ہے۔ غیرقیاسی مسائل صحابہؓ کے وہ اقوال جوعقل کی روشنی میں بیان نہیں کئے جاسکتے ہوں اور عقل کی پرواز وہاں تک نہیں ہوسکتی توایسے اقوال کا درجہ یہ ہوگا کہ انہوں نے حضورﷺ سے ہی سنا ہوگا؛ اگرچہ انہوں نے اس کی صرحت نہ کی ہو اور اس میں ان کے عقل وفہم کا دخل نہ ہوگا جیسے نماز کی تعداد ورکعات کی تعیین ہے اور قیامت کی علامات اور اس کی تفصیل وغیرہ، یہ سب حدیثِ مرفوع کے حکم میں ہوں گی، ایسے مسائل بالاتفاق قابلِ حجت ہیں: "اذاقال الصحابی مالایمکن ان یقول اجتہادا بل عن توقیف فیکون مرفوعا"۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۳۹۲) ترجمہ:جب صحابی کوئی ایسی بات کہے جواجتہاد سے نہیں کہی جاسکتی ہوتو وہ مرفوع کے حکم میں ہوگی۔ کیونکہ صحابہ کرام کے ورع وتقویٰ اور دیانت داری کی بناء پر ان کے بارے میں یہ خیال کرنا کسی طرح درست نہیں ہے کہ ایسے مسائل کا حکم انہوں نے اپنی طرف سے بیان کیا ہوگا، خاص طور پر جب کہ صحابہ کرامؓ کی یہ عادت رہی کہ وہ مسائل بیان کرتے وقت کبھی تورسول اللہؐ کا نام لیتے تھے اور کبھی آپﷺکا نام لیے بغیر مسائل بیان کردیتے تھے، اس لیے تمام غیرقیاسی مسائل کے بارے میں کہا جائے گا کہ انہوں نے رسول اللہﷺسے سن کر ہی بیان کیا ہوگا (اصول السرخسی:۲/۱۱۰) جیسے حضرت علیؓ کا مہرکے سلسلے میں "لاَمَهْرَ أَقُلَّ مِنْ عَشْرَةِ دَرَاهِمَ" (السنن الکبری للبیہقی، كتاب الصداق، باب مَايَجُوزُ أَنْ يَكُونَ مَهْرًا، حدیث نمبر:۱۴۷۷۷) اقل مہر دس درہم ہے۔ قیاسی مسائل قرآن وحدیث میں جومسئلہ منصوص نہ ہو اور وہ مسئلہ قیاسی ہو اور اس میں کسی صحابی کا قول ملتا ہے تو وہ بھی حدیث مرفوع کے حکم میں ہے اورقابلِ حجت ہے، اس کے رہتے ہوئے کوئی دوسرا قول اختیار نہیں کیا جاسکتا ہے؛ لیکن یہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ کوئی دوسرے صحابی کا قول اس قول کے خلاف نہ ہو یاخود راوی کا عمل اس کے خلاف نہ ہو: "قال ابوالبرکات اذاقال الصحابی قولاً ولم ینقل صحابی خلافہ وھو یجری بمثلہ القیاس والاجتہاد فھو حجۃ"۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۳۹۳) ترجمہ:علامہ ابوالبرکات فرماتے ہیں کہ جب صحابی کوئی بات بتائیں اور دیگرصحابہ کا اس میں اختلاف منقول نہ ہو اور وہ مسئلہ قیاسی اور اجتہادی ہو تو وہ حجت ہے۔ اسی لیے قولِ صحابیؓ کے ہوتے ہوئے امام ابوحنیفہؒ اجتہاد نہیں کرتے تھے اور یہی معمول امام احمد بن حنبلؒ کا بھی تھا؛ حتی کہ اگر پہلے سے عدم علم کی بناء پر ان کی کوئی رائے ہوتی توقولِ صحابی کے معلوم ہونے کے بعد اپنی رائے بدل دیتے تھے۔ اختلافِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اگر صحابہ کے اقوال میں اختلاف ہوتو مجتہد کو اختیار ہے کہ وہ اجتہاد کے بعد جس قول کو قرآن وحدیث کے اقرب پاتا ہے اس کو ترجیح دے اور عمل کرے؛ چنانچہ علامہ ابن قیمؒ لکھتے ہیں: "إذااختلف الصحابۃ تخیر اقوالھم ماکان اقربھا الی الکتاب والسنۃ"۔ (اعلام الموقعین:۱/۳۷۔ اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۴۰۸) ترجمہ:جب صحابہؓ کا اختلاف ہوجائےتو جواقرب الی الکتاب والسنۃ ہو اس کولیا جائے؛ البتہ ان سے خروج جائز نہ ہوگا۔ (اصولِ مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۴۰۸) اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کسی دینی مسئلہ میں فقہاء اور اہلِ علم کا اتفاق کرلینا اجماع کہلاتا ہے، اجماع کے من جملہ اقسام میں سے ایک قسم "اجماعِ صحابہؓ" ہے یعنی صحابہ کرامؓ کا کسی مسئلہ دینی میں اتفاق کرلینا اجماعِ صحابہؓ کہلاتا ہے، اجماعِ صحابہ عہدِ اوّل میں کئی مواقع پر ہوا ہے، مثلاً خلافتِ ابوبکرؓ پر صحابہ کا اجماع ہوا؛ اِسی طرح مسئلہ میراث میں مقاسمۃ الجد پر اجماع ہوا، اجماعِ صحابہ بالاتفاق حجت ہے: "اجماع الصحابۃ حجۃ بلاخلاف بین القائلین بحجیۃ الاجماع وھم احق الناس بذلک"۔ (البحرالمحیط:۴/۴۸۲) ترجمہ:جوحضرات حجیت اجماع کے قائل ہیں ان سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اجماعِ صحابہؓ معتبر ہے اور صحابہؓ کسی مسئلہ پر اجماع کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ افعالِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین آثارِ صحابہ کے ضمن میں افعال صحابہؓ بھی آتےہیں وہ امور جن میں قرآن وحدیث کی صراحت نہ ہو تواس میں اقوال صحابہؓ کے ساتھ مشروعیت حکم میں افعال صحابہؓ سے بھی کام لیا جاسکتا ہے؛ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض احکام کی مشروعیت فعل وعمل صحابی کی وجہ سے ہوئی ہے، جیسے قاضی ابویعلی نے اپنے کتاب "جامع کبیر" میں ذکر کیا ہے کہ بے ہوش شخص کی نمازوں کی قضا کی مشروعیت صحابی رسولﷺ عمار بن یاسرؓ کے فعل سے ہے (شرح الکوکب المنیر:۲/۲۰۹) اورجیسے اذانِ ثانی کی بنیاد حضرت عثمانؓ نے رکھی تھی؛ اسی طرح عہدِ عثمانی میں مسجد کی تزئین وپختہ بنانے کا عمل ملتا ہے؛ اسی لیے عالمگیری میں ہے: "لَابَأْسَ بِنَقْشِ الْمَسْجِدِ بِالْجِصِّ وَالسَّاجِ"۔ (فتاویٰ عالمگیری، الْبَابُ الْخَامِسُ في آدَابِ الْمَسْجِدِ وَالْقِبْلَةِ وَالْمُصْحَفِ وماكُتِبَ فيه شَيْءٌ من الْقُرْآنِ نَحْوُ الدَّرَاهِمِ وَالْقِرْطَاسِ....:۵/۳۱۹) ترجمہ:مسجد کی تزئین گچ وچونہ اور لکڑی وغیرہ سے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ الحاصل صحابہؓ کا عمل اور خلفاءِ راشدین کا فعل قرآن وحدیث کے خلاف نہ ہو تووہ قابلِ حجت ہے اور وہ ساری انسانیت کے لیے رشد کا پیغام ہے۔ قیاسِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین قیاس کے معنی اندازہ کرنا اور برابر کرنے کے ہیں، قیاس بھی ایک حجتِ شرعی ہے، صحابہ کرامؓ نے بھی قیاس سے کام لیا ہے؛ چنانچہ شیخ محمدخضری بک لکھتے ہیں: "وکانت ترد علی الصحابۃ قضیۃ لایرون فیھا نصاً من کتاب اللہ اوسنۃ واذ ذاک کانوا یلجاؤن الی القیاس"۔ (تاریخ التشریعی الاسلامی:۸۸) ترجمہ:صحابہؓ کے سامنے جب کوئی مسئلہ پیش آتا اور وہ قرآن وحدیث میں صراحت نہ پاتے توقیاس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ عہدِ نبویﷺ میں بھی ان کا قیاس سے کام لینا ثابت ہے، مثلاً قبلہ مخفی ہوجاتا تواجتہاد وقیاس سے اس کی تعیین کرتے، ایک سفر میں صحابی رسولﷺ کوغسلِ جنابت کرنا تھا؛ لیکن پانی نہ تھا اور اب انہیں غسل کے بجائے تیمم کرنا تھا، انھیں اس کا طریقہ معلوم نہ تھا، وضوء کے تیمم کو غسل پر قیاس کرتے ہوئے اپنے سارے جسم کو مٹی سے ملوث کردیا (طحاوی:۱/۸۶) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اوردوسرے صحابہؓ کا مانعینِ زکوٰہ کے سلسلہ میں تارکینِ صلوٰۃ پر قیاس کرنا واضح ہے اور حضرت عمرؓ کا ایک خط جس کو انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے نام روانہ کیا تھا، اس میں ان کو قیاس کرنے کا امر فرمایا تھا۔ (اعلام الموقعین:۱/۶۹) علامہ ابنِ قیمؒ صحابہؓ کے آراء اور قیاس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:حقیقت یہ ہے کہ صحابہؓ کے آراء ہم سے بہتر ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو؟ وہ توایسے قلوب سے نکلے ہیں جونور ایمان اور علم وحکمت سے بھرے ہوئے تھے، اس کا تعلق ایسے فہم سے ہے جو اللہ اور رسولﷺ کا ہے اور امت کے لیے نصیحت ہے اور ان کے قلوب نبی کے دل کے قریب تھے، نبی اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے؛ لہٰذا ان کی آراء اور قیاس کے مقابلہ میں دوسروں کی رائے وقیاس صحیح نہیں ہوسکتی۔ (اعلام الموقعین:۱/۸۸)