انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے تنہا رہ جانے کے بعد جس بہادری وجواں مردی کے ساتھ دشمنوں پرحملے کئے ہیں کہ ان حملوں کی شان دیکھنے والا ان کے ہمراہیوں میں سے کوئی نہ تھا؛ مگرعمروبن سعد اور شمرذی الجوشن آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے آج تک ایسا بہادر وجری انسان نہیں دیکھا، اس غم کی داستان اور روح کومضمحل کردینے والی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام سحین علیہ السلام کے جسم پر۴۵/زخم تیر کے تھے؛ مگرآپ برابر دشمنوں کا مقابلہ کیئے جارہے تھے، ایک دوسری روایت کے موافق ۳۳/زخم نیزے کے اور ۴۳/زخم تلوار کے تھے اور تیروں کے زخم ان کے علاوہ تھے، شروع میں آپ گھوڑے پرسوار ہوکر حملہ آور ہوتے رہتے تھے؛ لیکن جب گھوڑا مارا گیا توپھرپیدل لڑنے لگے، دشمنوں میں کوئی شخص بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ میرے ہاتھ سے شہید ہوں؛ بلکہ ہرشخص آپ کے مقابلہ سے بچتا اور طرح دیتا تھا، آخر شمرذی الجوشن نے چھ شخصوں کوہمراہ لے کرآپ پرحملہ کیا اور ان میں سے ایک نے شمشیر کا ایسا وار کیا کہ امام حسین علیہ السلام کا بایاں ہاتھ کٹ کرالگ گرپڑا، حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس پرجوابی وار کرنا چاہا؛ لیکن آپ رضی اللہ عنہ کا داہنا ہاتھ بھی اس قدر مجروح ہوچکا تھا کہ تلوار نہ اُٹھا سکے، پیچھے سے سنان بن انس نخعی نے آپ رضی اللہ عنہ کے نیزہ مارا جوشکم سے پارہوگیا، آپ رضی اللہ عنہ نیزہ کا یہ زخم کھاکر گرے، اس نے نیزہ کھینچا اور اس کے ساتھ ہی آپ علیہ السلام کی روح بھی کھینچ گئی، انا للہ واناالیہ راجعون۔ اس کے بعد شمر نے یاشمر کے حکم سے کسی دوسرے شخص نے حضرت امام حسین علیہ السلام کا سرجسم سے جدا کیا اور عبیداللہ بن زیاد کے حکم کی تعمیل کے لیے بارہ سوار متعین کئے گئے؛ انھوں نے اپنے گھوڑے کی ٹاپوں سے آپ کے جسم مبارک کوخوب کچلوایا؛ پھرخیمہ کولوٹا، آپ کے اہلِ بیت کوگرفتار کیا زین العابدین جولڑکے تھے، شمرذی الجوشن کی نظر پڑی توان کواس نے قتل کرنا چاہا؛ مگرعمروبن سعد نے اس کواس حرکت سے باز رکھا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سرمبارک اور آپ کے اہلِ بیت کوفہ میں ابن زیاد کے پاس بھیجے گئے، کوفہ میں ان کوتشہیر کیا گیا، ابن زیاد نے دربار کیا اور ایک طشت میں رکھ کرامام حسین رضی اللہ عنہ کا سراس کے سامنے پیش ہوا، اس نے سرکودیکھ کرگستاخانہ کلمات کہے؛ پھرتیسرے روز شمرذی الجوشن کوایک دستہ فوج دیکر اس کی نگرانی میں یہ قیدی اور سرمبارک یزید کے پاس دمشق کی جانب روانہ کیا، علی بن حسین رضی اللہ عنہما، امام زین العابدین اور تمام عورتیں جب یزید کے پاس پہنچے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا سراس نے دیکھا توسردربار وہ روپڑا اور عبیداللہ بن زیاد کوگالیاں دیکر کہنے لگا کہ اس پسرسمیہ کومیں نے یہ حکم کب دیا تھا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کوقتل کردینا؛ پھرشمرذی الجوشن اور عراقیوں کی طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ میں توتمہاری اطاعت وفرماں برداری سے ویسے ہی خوش تھا، تم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کوکیوں قتل کردیا، شمرذی الجوشن اور اس کے ہمراہی اس توقع میں تھے کہ یزید ہم کوانعام دیگا اور ہماری عزت بڑھائے گا؛ مگریزید نے کسی کوکوئی انعام وصلہ نہیں دیا اور اپنی ناخوشی ونارضگی کا اظہار کرکے سب کوواپس لوٹا دیا؛ پھردرباریوں سے مخاطب ہوکرکہنے لگا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی ماں میری ماں سے اچھی تھیں، اس کے نانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں سے بہتر اور اولادِ آدم کے سردار ہیں؛ لیکن ان کے باپ علی رضی اللہ عنہ اور میرے باپ معاویہ رضی اللہ عنہ میں جھگڑا ہوا؛ اسی طرح میرے اور حسین بن علی کے درمیان نزاع ہوا، علی اور حسین دونوں کہتے تھے کہ جس کے باپ دادا اچھے ہوں وہ خلیفہ ہو اور قرآن شریف کی اس آیت پرانھوں نے غور نہیں فرمایا کہ: قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْك تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔ (آل عمران:۲۶) ترجمہ: کہو کہ: اے اللہ! اے اقتدار کے مالک! توجس کوشاہتا ہے اقتدار بحشتا ہے اور جس کوچاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے اور جس کوچاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کوچاہتا ہے رُسوا کردیتا ہے، تمام تربھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، یقیناً توہرچیز پرقادر ہے۔ (توضیح القرآن:۱/۱۸۸، مفتی تقی عثمانی، فریدبکڈپو،نیودہلی) آخر سب کومعلوم ہوگیا کہ خدائے تعالیٰ نے ہمارے حس میں فیصلہ کیا یاان کے حق میں، اس کے بعد ان قیدیوں کوآزادی دیکر بطورِ معزز مہمان اپنے محل میں رکھا، عورتیں اندر عورتوں میں گئیں توانھوں نے دیکھا کہ یزید کے محل سرا میں بھی اسی طرح ماتم برپا ہے اور سب عورتیں رورہی ہیں، جس طرح امام حسین کی بہن اپنے بھائی اور عزیزوں کے لیے رورہی تھیں، چند روز شاہی مہمان رہ کریہ بربادشدہ قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا، یزید نے ان کوہرقسم کی مالی امداد دی اور علی بن حسین سے ہرقسم کی امداد کا وعدہ کیا کہ جب تم لکھوگے تمہاری فرمائش کی ضرور تعمیل کی جائے گی۔