انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تبادلہ وجرش تبالہ وجرش طائف کے جنوب میں واقع ہے، تاریخوں میں ہے کہ ان بستیوں میں بھی عربوں کے ساتھ اہلِ کتاب آباد تھے، یہ بصراحت معلوم نہیں ہوسکا کہ اہلِ کتاب سے یہود ونصاریٰ دونں مراد ہیں یاصرف یہود؛ لیکن ہمارا قیاس ہے کہ دونوں مراد ہیں اور دونوں آباد ہوں گے، اس لیے کہ اکثر مرکزی مقامات میں دونوں کے آباد ہونے کا پتہ چلتا ہے جیسا کہ مقنا اور بحرین کے سلسلہ میں ذکر آچکا ہے، یہ بہت ہی قدیم اور زرخیز بستیاں تھیں اور خصوصیت سے تبالہ کے بارے میں تویاقوت نے لکھا ہے کہ اس کی زرخیزی ضرب المثل ہے۔ (معجم البلدان:۲/۲۵۶) سنہ۱۰ھجری میں یہاں کے عرب باشندوں نے تواسلام قبول کرلیا؛ لیکن اہلِ کتاب اپنے دین پرقائم رہے اور انہں نے جزیہ دینا قبول کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں کی امارت پرحضرت سفیان رضی اللہ عنہ کا تقرر فرمایا تھا۔ (فتوح البلدان:۶۶) یہودیوں کی ان یکجا آبادیوں کے علاوہ عرب کے مختلف قبائل میں ایک ایک دودواشخاص ملتے ہیں جنھوں نے یہودیت قبول کرلی تھی اور بعض ایسے عربی قبائل کا بھی پتہ چلتا ہے جوپورے کے پورے دائرۂ یہودیت میں داخل ہوگئے تھے، مثلاً حمیر، بنوکندہ، بنوکنانہ، بنوالحارث، قضاعہ (معارف ابن قتیبہ:۲۶۶) غسان اور جذام کے بعض خاندانوں میں بھی یہودیت تھی۔ (یعقوبی:۱/۲۹۸) یہودی قبائل اور ان کی آبادیوں کا ذکر اس وسعت کے ساتھ اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ معلوم ہوجائے کہ جزیرۂ عرب کے اندر جتنے بھی تجارتی، زراعتی، سیاسی، مرکزی مقامات تھے تقریباً ان سب پریہودیوں کا قبضہ تھا، یاکم ازکم وہاں ان کا اثرورسوخ تھا، دوسرے آئندہ جومباحث آنے والے ہیں ان میں بھی اس تفصیل سے واقعات کے سمجھنے میں بہت کافی مدد ملے گی۔