انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** گاتھ حکومت کا خاتمہ گاتھ سلطنت میں امتداد زمانہ کے ساتھ ہی ساتھ مذہبیت ترقی کرتی گئی وہاں علیحدہ مذہبی مرکز یعنی چرچ قائم تھا قانونِ سلطنت میں عیسوئی تنگ دلی خوب داخل ہوگئی تھی ،جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اندلس کے یہودی دم بدم ذلیل ہوتے گئے یہودیوں کو عیسائی اپنا غلام سمجھتے تھے ان کی جائدادیں زبردستی چھین لی جاتی تھیں ان سے ہر قسم کی خدمت لی جاتی تھی، اور ان کا مرتبہ حقوق کے اعتبار سے چوپایوں کے قریب پہنچادیا تھا حالانکہ گاتھوں کی حکومت کے ابتدائی زمانے میں یہودیوں کی ایسی ذلیل ومستقیم حالت نہ تھی بت پرستی کے تمام اوہام باطلہ اندلس کے عیسائیوں میں موجود تھے تہذیب وشائستگی،علوم وفنون اور تجارت کے اعتبار سے یہودیوں کو عیسائیوں پر فضیلت حاصل تھی،عیسائی عام طور پر عیش پسند اور تنگ آسان تھے مگر یہودیوں میں جفا کشی موجود تھی،چونکہ یہودی تعدادمیں کم تھے اور حکومت بھی عیسائیوں کی تھی لہذا وہ اپنی نجات کے لیے کوئی کوشش نہیں کرسکتے تھے پادری لوگ معاملات سلطنت میں اس قدر زیادہ دخیل ہوگئے تھے کہ بادشاہ ان کے خلاف کوئی کام کرنے کی جرأت نہی ںکرسکتا تھا ،بڑی بڑی جاگیریں اور زرخیز علاقےپادریوں کے قبضے میں تھے خود پادریوں کے مکان پر خانے بنے ہوئے تھے عیش وعشرت کے تمام سامان اور بد مستیوں کے تمام نظارے پادریوں کی مجلسوں میں دیکھے جاتے تھے لیکن کسی کو یہ مجال نہ تھی کہ اس نے مذہبی اقتدار کا مقابلہ کرسکے پادریوں کے فتوے بڑے بڑے عالیجاہ اور صاحب سطوت لوگوں کو سرنگوں کرسکتے تھے ایک ایک پودری کے پاس سوسو دودوسو بربری غلاموں کا موجود ہوناتو معمولی بات تھی ان کے احکام کا کہیں اپیل نہ ہوسکتا تھا گاتھ سلطنت کا دارلحکومت طلیطلہ میں اسقف اعظم لاٹ پادری جو چرچ ہسپانیہ کا صدر اعظم تھا رہتا تھا اسقف اعظم کے حقوق میں یہاں تک ترقی ہوچکی تھی کہ وہ بادشاہ کی معزولی کا فرمان بھی صادر کرسکتا تھا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اندلس میں خالص عیسوی حکومت تھی۔