انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عداس نام ونسب عداس نام تھا، شیبہ بن ربیعہ کے غلام تھے، نینوا کے مشہور مقام موصل کے کسی گاؤں کے رہنے والے تھے (اصابہ:۲/۴۶۶) مذہباً عیسائی تھے، جب رسول اللہ صلی لالہ علیہ وسلم اہلِ طائف کواسلام کی دعوت دینے کے لیے طائف تشریف لے گئے اور ان لوگوں نے آپ کے ساتھ بدسلوکی کی اور آپ وہاں سے واپس ہوئے توراستہ میں شیبہ اور عتبہ نے جوآپ کی یہ حالت دیکھ رہے تھے، عداس رضی اللہ عنہ کو انگور کے کچھ خوشے دے کرآپ کے پاس بھیجا، جب عداس رضی اللہ عنہ آپ کے پاس انگور لائے توآپ نے بسم اللہ فرمایا اورلے لیا۔ عداس رضی اللہ عنہ نے تعجب سے کہا کہ یہ توایک نیا طرزِ کلام سُن رہا ہوں، آپ نے فرمایا کہ کہاں کے رہنے والے ہو؟ عداس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نینوا کا رہنے والا ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاں کے حضرت یونس علیہ السلام رہنے والے تھے، عداس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آ پ کوکیسے معلوم ہوا کہ یونس علیہ السلام کون ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔ (اسدالغابہ:۳/۳۹۰، ایک روایت میں ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم، فرمایا۔ زرقانی:۳۵۶) اسلام عداس رضی اللہ عنہ نے نبوت کے یہ آثار وصفات دیکھ کر آپ کے دستِ مبارک اور پیروں کا بوسہ لیا اور کہہ اُٹھے: أَشْهَدُ أَنَّكَ عَبْدَ اللهِ وَرَسُوْلُهُ۔ (اصابہ:۲/۴۶۶) ترجمہ:میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ شیبہ وعتبہ دور سے حضرت عداس رضی اللہ عنہ کی یہ کیفیت دیکھ رہے تھے، جب وہ واپس ہوئے تو انھوں نے کہا کہ تم نے دست بوسی کیوں کی؟ حضرت عداس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ دنیا کے بہترین شخص ہیں، یہ سُن کران دونوں نے کہا کہ کہیں وہ تمھیں تمہارے دین سے برگشتہ نہ کردیں، تمہارا دین ان کے دین سے بہتر ہے۔ (البدایہ، جلد:۳) بدر کے روز جب دونوں طرف سے جنگ کی تیاریاں ہورہی تھیں توحضرت عداس رضی اللہ عنہ ایک ٹیلہ پربیٹھ گئے، جب شیبہ اور ربیعہ ادھر سے گزرے توآپ نے ان دونوں کا پیر تھام لیا اور فرمایا کہ خدا کی قسم! تم لوگ نبی سے لڑنے کے لیے جارہے ہو، تم لوگوں کا بچ کرواپس آنا بہت مشکل ہے، حضرت عداس رضی اللہ عنہ کوان دونوں سے ایک گونہ تعلق تھا، اس لیے بہت کچھ سمجھایا مگروہ نہ مانے توآپ الگ غمگین ہوکر بیٹھ گئے۔ (زرقانی نے یہ تمام واقعات تفصیل سے لکھے ہیں اور اصابہ میں بھی یہ واقعات مذکور ہیں (زرقانی:۱/۳۵۸۔ اصابہ:۲/۳۶۶)) زندگی کے دوسرے واقعات کا ذکر رجال کی کتابوں میں نہیں ملتا۔