انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** محمد رسول اللہ روم کی عظیم الشان سلطنت کے ٹکڑے ہوچکے تھے ،اس کے نیم وحشیانہ آئین وقوانین بھی مسخ ہوکر اپنے مظالم ومعائب کو اور بھی زیادہ مہیا وموجود اورمحاسن کو جو پہلے ہی بہت کم تھے معدوم ومفقود کرچکے تھے،ایران کی شہنشاہی ظلم وفساد کا ایک مخزن بنی ہوئی تھی،چین وترکستان خونریزی وخونخواری کا مامن نظر آتے تھے ،ہندوستان میں مہاراجہ اشوک اورراجہ کنشک کے زمانے کا نظام وانتظام ناپید تھا، مہاراجہ بکرماجیت کے عہد سلطنت کا تصور بھی کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا،نہ بدھ مذہب کی حکومت کا کوئی نمونہ موجود تھا نہ برہمنی مذہب کا کوئی قابلِ تذکرہ پتہ و نشان دستیاب ہوسکتا تھا،عارف بدھ کا نام عقیدت سے لینے والوں کی حالت یہ تھی کہ حکومت کی لالچ دنیا طلبی کے شوق اورضعیف الاعتقادی کے نتیجہ میں سخت سے سخت قابلِ شرم حرکات کے مرتکب ہوجاتے تھے،شری کرشن کے نام کی سمرن جپنے والوں کی یہ کیفیت تھی کہ اشرف المخلوقات کو نباتات وجمادات کے آگے سر بسجود بنادینے میں ان کو دریغ نہ تھا،یورپ اگر ایک بیابان گرگستان اوروہاں کے باشندے حیوانوں سے بھی بدتر خون آشام ومردم کش درندے تھے تو عرب تمام عیوب وفسادات کا جامع تھا اور وہاں کے باشندے حیوانوں سے بھی بدتر حالت کو پہنچ چکے تھے،غرضکہ دنیا کے کسی ملک اورکسی خطہ میں انسانی نسل اپنی انسانیت اورشرافت پر قائم نظر نہیں آتی تھی اوربحر وبر سب ماؤف ہوچکے تھے، ایسی حالت میں جب کہ تمام دنیا تیرہ وتار ہوچکی تھی،ہندوستان والوں کا فرض تھا کہ وہ گیتا کے چوتھے باب میں شری کرشن مہاراج کے اس ارشاد پر غور کرتے کہ: "اے ارجن جب دھرم کی ہانی ہوتی ہے اور ادھرم بڑھ جاتا ہے تب میں نیک لوگوں کی رکھشا کرتا ہوں اورپایوں کا ناش کرکے دھرم کو قائم کرتا ہوں۔" ایران والوں کا فرض تھا کہ وہ شت وخشورزرتشت کے ارشادات کے موافق کسی رہبر کی تلاش میں نکلتے،یہودیوں کے لیے وقت آگیا تھا کہ وہ فاران کے پہاڑوں کی چوٹیوں سے روشنی کے نمودار ہونے کا انتظار کرتے اور معماروں کے رد کیے ہوئے پتھر کو کونے کا پتھر بنتے ہوئے ضد اورانکار سے باز رہتے،عیسائیوں کا فرض تھا کہ وہ دعائے خلیل اورنوید مسیحا کو اپنی اُمید گاہ بناتے،لیکن دنیا کے عالمگیر فساد اورزمانہ کی ہمہ گیر تاریکی نے دلوں کو اس قدر سیاہ اورآنکھوں کو اس قدر بے بصارت بنادیا تھا کہ کسی کو اتنا بھی ہوش نہ تھا کہ اپنے آپ کو مریض جانتا اوردوا کی طلب میں قدم اُٹھاتا۔ ایسے زمانے اور ملکِ عرب جیسے خطے میں ہادی برحق رسول رب العالمین ‘خیر البشر’شفیع المذنبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کی خباثت ،بُت پرستی کی تاریکی ،فتنہ و فساد کی نجاست اور عصیان وبے شری کی پلیدی کو دُور کرنے کے لیے 'لا الہ الا اللہ'کی آواز بلندکرکے انسان نما لوگوں کو انسان،انسانوں کو بااخلاق،انسان اوربااخلاق انسانوں کوباخدا انسان بناکردنیا کی تاریکی وظلمت کو ہدایت، نور،امن،راستی اورنیکی سے تبدیل کرنے،یعنی گمراہ،بت پرست ،عصیاں شعار لوگوں کو مسلمان بنانے کا فریضہ انجام دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام عراق عرب کے گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے میں سینکڑوں برس مصروفِ تبلیغ رہ کر بالآخر "رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا"کی تلوار سے سب کا قصہ پاک کرنے پر مجبور ہوئے،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اوربنی اسرائیل نے وہ نظارہ دیکھا جس کی نسبت ارشاد ہے:"وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ"ہندوستان میں مہاراجہ رام چندر جی کو لنکا پر چڑھائی اور راکھشسوں سے لڑائی کرنی پڑی، شری کرشن مہاراج کو کرکشتر کے میدان میں،ارجن کو جنگ پر آمادہ کرنا اورکوروں کی نافرمان جماعت کو پانڈوں کے ہاتھوں پر برباد کرانا پڑا، ایران میں زرتشت نے اسفند یار کی پہلوانی اور سلطنت کیانی کی حکمرانی کو ذریعہ تبلیغ واشاعت بنایا۔ مگر پاستانی صحائف اورعمرانی روایات جو اہلِ نظر تک پہنچی ہیں سب کی سب متفق ہیں کہ تمام قابل تکریم بانیان مذاہب اورمستحق تعظیم ہادیانِ صداقت کی کوششوں اورکامیابیوں میں یہ نظیر ہرگز تلاش نہیں کی جاسکتی کہ پچیس سال سے کم مدت میں دنیا کا بہترین ملک اور عرب کے جاہل وحشی لوگ ساری دنیا کے معلم اور سب سے زیادہ مہذب وبااخلاق بن گئے ہوں سو برس سے کم یعنی صرف اسی سال کے عرصہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ سلم کے لائے ہوئے مذہب کو ماننے والے بحر اطلانطک سے بحرالکاہل یعنی چین کے مشرقی ساحل تک یایوں کہئے کہ تمام متمدن دنیا کا احاطہ کرچکے ہوں،اس محیر العقول اورخارق عادت کامیابی کی نظیر دنیا پیش نہیں کرسکتی اورتعلیم اسلامی کی خوبی اگر تمام قوانین مذاہب پر فائق اورمحاسن ملل کی جامع ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر البشر،خاتم النبین،رحمت للعالمین ہونے میں کسی کو کیا کلام ہوسکتا ہے ؟اور دنیا میں کس کا حوصلہ ہے جو اُن کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید کی اس لانظیر صنعت اوراس ناقابل تردید دعویٰ اورخدائی دعویٰ کی تردید پر آمادہ ہوسکے کہ :" نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ" قوموں کو منازل ترقی طے کرانے اور قوموں کو ذلت وپستی سے بچانے کے لیے تاریخ ایک زبردست مؤثر اورنہایت قیمتی ذریعہ ہے،قومیں جب کبھی قعرِ مذلت سے بامِ ترقی کی طرف متحرک ہوئی ہیں،انہوں نے تاریخ ہی کو سب سے بڑا محرک پایا ہے،قرآن ِ کریم نے ہم کو یہ بھی بتایا ہے کہ سعادت انسانی اوردین ودنیا کی کامرانی حاصل کرنے کے لئے تاریخ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے؛چنانچہ خدائے تعالیٰ نے لوگوں کو عبرت پذیر اورنصیحت یاب ہونے کے لیے کلام پاک میں جابجا اُمم سابقہ کے حالات یاد دلائے ہیں کہ فلاں قوم نے اپنی بد اعمالیوں کے کیسے نتائج دیکھے اورفلاں قوم اپنے اعمال حسنہ کی بدولت کیسی کامیاب وفائز المرام ہوئی،آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ،موسیٰؑ وغیرہم کے واقعات اور فرعون،نمرود،عاد،ثمود وغیرہم کے حالات قرآن کریم میں اس لئے مذکورو مسطور نہیں ہیں کہ ہم ان کو دل بہلانے اورنیند لانے کا سامان بنائیں؛بلکہ یہ سچے اوریقینی حالات اس لئے ہمارے سامنے پیش کئے گئے ہیں کہ ہمارے اندر نیک کاموں کے کرنے کی ہمت اوربد اعمالیوں سے دُور رہنے کی جرأت پیدا ہو اورہم اپنے حال کو بہترین مستقبل کا ذریعہ بناسکیں۔ انبیاء علیہم السلام جو بنی نوع انسان کے سب سے بڑے محسن، سب سے زیادہ خیر خواہ اورسب سے زیادہ شفیق علی خلق اللہ ہوتے ہیں،انہوں نے جب کبھی کسی قوم کو ہلاکت سے بچانے اورعزت وسعادت سے ہمکنار بنانے کی سعی وکوشش فرمائی ہے تو اس قوم کو عہد ماضی کی تاریخ یاد دلائی ہے،دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں اورریفارمروں میں کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کو حالاتِ رفتگاں اورواقعاتِ گذشتگاں کے مطالعہ نے محو ومدہوش اور از خود فراموش بناکر آمادۂ کار اور مستعدِ سعی وایثار نہ بنایا ہو،یہی وجہ ہے کہ ہر ایک واعظ اورہر ایک لیکچرار جو سامعین کو اپنے حسب منشاء پر جوش اورآمادہ کار بناسکتا ہے،اس کے وعظ یا لیکچر میں پاستانی واقعات اوربزرگانِ گذشتہ کے حالات کی یاد دہانی یعنی تاریخی چاشنی ضرور موجود ہوتی ہے،مشاہیر گذشتہ کے حالات وواقعات میں بھی جن مشاہیر سے مذہبی، قومی،ملکی تعلقات کے ذریعہ ہمارا قریبی رشتہ ہوتا ہے اُن کے حالات کا ہم پر زیادہ اثر ہوتا ہے،رستم واسفند یار اورگشتا سپ ونو شیروان کے حالات کا مطالعہ جس قدر ایک ایرانی یا ایک پارسی کے دل میں شجاعتِ مذہبیت اور عدل وانصاف کے جذبات کو مشتعل بناسکتا ہے کسی جینی یا ہندوستانی پر ویسا اثر نہیں کرسکتا بھیم وارجن اوربکر ماجیت وپر تھوی راج کی داستانیں ہندوؤں پر جو اثر کرتی ہیں عیسائیوں پر اُن کا ویسا ہی اثر نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ آج جبکہ قوموں کی تاریخ کے اثر ونتائج سے لوگ واقف ہوچکے ہیں اور یہ حقیقت عالم آشکار ا ہوچکی ہے کہ کسی قوم کو زندہ کرنے اورزندہ رکھنے کے سامانوں میں اس قوم کی گذشتہ تاریخ سب سے زیادہ ضروری سامان ہے تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ قومیں جو اپنی کوئی باعظمت و پر شوکت تاریخ نہیں رکھتیں فرضی افسانوں اورجھوٹے قصوں کی تصنیف وتالیف میں مصروف ہیں اوران فرضی قصوں کو تاریخی جامہ پہنا کر افرادِ قوم اورنوجوانانِ ملک کے سامنے اس طرح پیش کررہی ہیں کہ ان کی صداقت کا یقین ہوجائے دروغ کو فروغ دینے کی یہ قابلِ شرم کوشش قوموں کو محض اس لئے کرنی پڑ رہی ہے کہ وہ قومیں اپنے افراد کو ان کے علو مرتبت کا یقین دلائے بغیر مسابقتِ اقوام کے میدان میں تیزگام بنا ہی نہیں سکتیں اوریہی سبب ہے کہ ہر ایک وہ قوم جو کسی دوسری قوم کو رقابت یا عداوت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اس کی تاریخ کو مسخ کرنے اور اُس کے افراد کو اپنی تاریخ سے غافل اورناواقف رکھنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہے۔