انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** متونِ فقہ میں الفاظِ حدیث کا استعمال حفاظتِ حدیث کے سلسلہ میں خدائے عزوجل نے امتِ محمدیہ پرجواحسانِ عظیم فرمایا وہ یقیناً تاریخ عالم کا انوکھا باب، دلچسپ واقعہ اور حقانیت اسلام کی روشن دلیل ہے، تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والا ہرشخص، مسلم ہویاغیرمسلم، اس سے بخوبی واقف ہے، حدیثِ نبوی کے دوپہلو ہیں (۱)روایتِ سند (۲)درایتِ فقہ۔ فنِ حدیث میں درایت کی اہمیت روایت کی اہمیت سے کسی طرح کم نہیں ہے؛ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابتدائے اسلام ہی سے ارشااداتِ نبویؐ کی ظاہری ومعنوی ہرطرح کی حفاظت کے لیے مسلمانوں میں دوگروہ پیدا فرمائے تھے (۱)محدثین (۲)فقہاء۔ حضراتِ محدثین نے جہاں اپنی مخلصانہ کوششوں اور انتھک کاوشوں کے ذریعہ غیرحدیث کے حدیث بن جانے اور موضوع احادیث کی آڑ میں اہل الحاد وفلسفہ کے فاسد خیالات کے اسلام کاروپ اختیار کرلینے کے زبردست اندیشوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا، وہیں حضرات فقہاء کرام نے احادیث کے اس عظیم ومستند ذخیرہ کواصحاب ہوا وپرستارانِ ہوس کی من مانیوں کا شکار ہونے اور جہلاء کی دل چاہی تاویلات اور تکمیل خواہشات کا سامان بن جانے سے قیامت تک کے لیے محفوظ کردیا، الفاظِ حدیث کے ساتھ اگرمعانی حدیث کی حفاظت کا اہتمام نہ ہوتا اور حمادونخعی، سعید وسالم، ابوحنیفہ ومالک، شافعی واحمد رحمہم اللہ وغیرہ فقہاء کرام اس سلسلے میں اگراپنی گراں قدر خدمات پیش نہ کرتے توامت زبردست نقصان سے دوچار ہوجاتی اور حدیث کا عظیم الشان سرمایہ کم علموں اورکوتاہ فہموں کی من مانی تاویلات اور جاہلانہ خیالات کا پنج رنگی پروگرام بن جاتا؛ گویا محدثین قلعۂ اسلام کے بیرونی محافظین ہیں اور فقہاء اندرونی محافظین۔ ویسے توامت میں بے شمار مکاتب فقہ ظاہر ہوئے اور ان گنت جلیل القدر فقہاء نے اپنی جلوہ تابانیں سے جبین امت کومنور کیا؛ لیکن فقہاء کے اس انبوہ عظیم اور گروہِ مقدس میں امام اعظمؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اور ان کی فقہ کوجودوام اور مقبولیتِ عامہ حاصل ہوئی وہ ہرچشم بینا کے سامنے ہے؛ پھران چاروں میں بھی فقہ حنفی کوجوامتیاز اور عام وخاص مسلمانوں میں اس کوجوپذیرائی ملی وہ کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ فقہ حنفی انفرادی رائے نہیں؛ بلکہ اجتماع اور شورائی فقہ ہے، اس باغ کی شادابی اور اس گلستانِ فقہ کی آبیاری میں امام ابوحنیفہؒ کے تفقہ اور علم وفضل کا پانی، ابویوسفؒ کے علم حدیث کی روشنی، محمد کے ادب وعربیت کی چاندنی، زفر وحسن کے ذہن رسا اور فکرپارسا کے جھونکے اور ابنِ مبارک وابن الجراح جیسے ارباب فضل وکمال کی کوششیں شامل ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کے فقہاء ومحدثین بھی فقہ حنفی کے خوشہ چین ہیں اور اپنے اوپر ائمہ احناف کے احسان کا برملا اظہار کرتے ہیں، جس کی تفصیل مستند اورٹھوس حوالوں کے ساتھ رجال ومناقب کی کتابوں میں موجود ہے، ان کتابوں کے غیرجانبدارانہ مطالعہ سے ہرمنصف مزاج قاری کے سامنے آفتاب نیمروز کی طرح یہ حقیقت کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ اورآپ کے تلامذہ صرف نرے عالم وفقیہ نہیں؛ بلکہ قرآن وحدیث کے زبردست ماہر اور نکتہ رس فقیہ تھے۔ آپ کی فقہ، کتاب وسنت ہی کی تفسیر وتشریح ہے، جس میں اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ مقاصد شریعت کی رعایت کے ساتھ متعارض آیات واحادیث پر بھی امکانی حد تک عمل ہوجائے اور کوئی قابلِ عمل حدیث، عمل سے نہ رہ جائے ،یہ دعویٰ سرسری علم والوں یامحدود ذہنیت کے حامل افراد کوشائد مضحکہ خیز معلوم ہو؛ لیکن حقیقت یہی ہے، کھلے ذہن، حقیقت پسندی اور باریک بینی کے ساتھ فقہ حنفی کا بغور مطالعہ کیا جائے توہرشخص اس کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔ قرآن وحدیث میں بے نظیر تفقہ کی دولت اور جمع بین الاحادیث کی اعلیٰ صلاحیتوں سے اللہ تعالیٰ نے فقہائے احناف کوجوحصہ وافرعطاء فرمایا ہے، وہ ایک زمینی حقیقت ہے، جوکسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتی؛ لیکن ایک لمبی مدت سے عناداً اورعمداً یااپنے بڑوں کی تقلید ونقالی میں کچھ افراد یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ فقہ حنفی قرآن وحدیث کے خلاف ایک تیسرا اسلام ہے اور اس کے مسائل کتاب وسنت کے سراسر خلاف ہیں، احناف کی نماز صلوٰۃ ابوحنیفہ ہے، صلوۃِ رسول نہیں وغیرہ، ان الزامات کے جواب اور احناف کے دلائل کے بیان میں بے شمار قلم حرکت میں آگئے اور جوابی کتابوں کا ایک کتب خانہ تیار ہوگیا، زیرِنظر مضمون میں نہ ان الزامات کی جوابدہی کا ارادہ ہے، نہ دلائل کے ذکر کی نیت؛ بلکہ اس میں کتب احناف سے صرف چند ایسی عبارتوں کوپیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جن میں صحیح احادیثِ مبارکہ سے لفظاً ومعنا مماثلت ومطابقت پائی جاتی ہے، جس سے احادیث نبوی سے فقہاء احناف کی دلی وابستگی، تعلق اور علم حدیث میں ان کی دسترس کا ہلکا اور معمولی سااندازۃ ہوتا ہے، ساتھ ہی ان پر احادیث سے ناواقفیت کے غلط الزام کی حقیقت بھی کھل جاتی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت فائدے سے خالی نہ ہوگی کہ کتب احناف کی چار قسمیں ہیں: (۱)اصول (۲)متون (۳)شروح (۴)فتاویٰ وواقعات۔ مقالۂ ہذا میں صرف متون کی عبارتں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ (۱)نیند سے بیدار ہونے کے بعد ہاتھ دھونا اسلام نے ظاہری صفائی ستھرائی پر بھی خاص توجہ دی ہے؛ حتی کہ نبی کریمﷺ نے اس کوآدھا ایمان قرار دیا ہے، آپﷺ نے اس نقطۂ نظر سے نیند سے بیدار ہونے کے بعد کسی برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل اچھی طرح ہاتھ دھولینے کا حکم دیا؛ تاکہ اگران پر گندگی ہوتو پانی خراب نہ ہو، اس حکم کے پیشِ نظر امام قدوریؒ مسئلہ یوں بیان فرماتے ہیں: "غسل الیدین ثلاثا قبل ادخالھما الاناء اذااستیقظ المتوضی من نومہ"۱؎۔ جب کوئی شخص اپنی نیند سے بیدار ہوتوبرتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ان کوتین مرتبہ دھولے۔ تقریباً یہی الفاظ حدیث شریف میں بھی استعمال کئے گئے ہیں، حضرت ابوہریرہؓ آپﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں: "وَإِذَااسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلْيَغْسِلْ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهَا فِي وَضُوئِهِ"۲؎۔ جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہوتو اپنے ہاتھ برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھولے۔ (۱)قدوری:۳۔ (۲)صحیح بخاری، كِتَاب الْوُضُوءِ،بَاب الِاسْتِجْمَارِوِتْرًا،حدیث نمبر:۱۵۷، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۲)غسل کا مسنون طریقہ عبادات سے لے کر زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے معاملہ میں رسول اللہﷺ نے انسانوں کوجواعلیٰ تعلیمات دی ہیں، وہ صرف اسلام ہی کا خاصہ ہے؛ چنانچہ غسل جوانسانی فطرت کا لازمی جزء ہے، اس کا جوطریقہ آپﷺ نے مسلمانوں کوسکھایا اس کوصاحب قدوری ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: "وسنتہ ان یبدوالمختسل فیغسل یدیہ وفرجہ ویزیل النجاسۃ ان کانت علی بدنہ ثم یتوضأ وضوئہ للصلوٰۃ الارجلیہ ثم یفیض الماء علی رأسہ وسائر جسدہ ثلثاً ثم یتنحیّٰ عن ذلک المکان فیغسل رجلیہ"۳؎۔ غسل کا سنت طریقہ یہ ہے کہ غسل کرنے والا سب سے پہلے اپنے ہاتھ اور شرمگاہ کودھوئے؛ اگربدن پر نجاست ہوتو اس کودور کرے؛ پھرنماز کے وضوء کی طرح وضوء کرے؛ مگرپیرنہ دھوئے؛ پھرتین مرتبہ سرپر اور اس کے بعد سارے بدن پر پانی بہائے؛ پھراس جگہ سے ہٹ کر اپنے پیروں کودھولے۔ حضرت میمونہؓ جوآپﷺ کا طریقۂ غسل بیان کرتی ہیں، ان کے الفاظ اورقدوری کے مذکورہ بالا الفاظ پرایک نظر ڈالیئے دونوں میں کتنی مطابقت ہے، حضرت میمونہؓ فرماتی ہیں: "فَغَسَلَ كَفَّيْهِ مَرَّتَيْنِ أَوْثَلَاثًا ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ ثُمَّ أَفْرَغَ بِهِ عَلَى فَرْجِهِ وَغَسَلَهُ بِشِمَالِهِ ثُمَّ ضَرَبَ بِشِمَالِهِ الْأَرْضَ فَدَلَكَهَا دَلْكًا شَدِيدًا ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ أَفْرَغَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ حَفَنَاتٍ مِلْءَ كَفِّهِ ثُمَّ غَسَلَ سَائِرَ جَسَدِهِ ثُمَّ تَنَحَّى عَنْ مَقَامِهِ ذَلِكَ فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ"۴؎۔ نبی رحمتﷺ نے دویاتین مرتبہ اپنے ہاتھ دھوئے؛ پھران کوبرتن میں ڈالا؛ پھرستر پرپانی ڈال کربائیں ہاتھ سے اس کودھویا؛ پھراس ہاتھ کوزمین پررگڑ کرصاف کیا؛ پھرآپﷺ نے وضوء فرمایا: اس کے بعد تین مرتبہ دونوں ہاتھوں سے سرپرپانی بہایا، اس کے بعد اس مقام سے ہٹ کراپنے دونوں پیر دھوئے۔ (۳)قدوری:۴۔ (۴)صحیح مسلم، كِتَاب الْحَيْضِ،بَاب صِفَةِ غُسْلِ الْجَنَابَةِ،حدیث نمبر:۴۷۶، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۳)دباغت دیئے ہوئے چمڑے کا حکم انسان اور خنزیر کے سوا جن جانوروں کے چمڑوں کودباغت دیدی جائے، وہ شرعاً پاک شمار کی جائیں گی، اس مسئلہ کوصاحب وقایہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وکل إھاب دبغ فقد طہر"۵؎۔ ہروہ چمڑا جس کودباغت دیدی جائے، پاک ہے۔ بعینہ یہی الفاظ حدیث میں بھی استعمال کیئے گئے ہیں؛ چنانچہ امام نسائیؒ حضرت ابنِ عباسؓ سے آپؐ کا ارشاد نقل کرتے ہیں: "أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ"۶؎۔ جس چمڑے کوبھی دباغت دیدی جائے وہ پاک ہوجاتا ہے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ ہی سے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نبی کریمﷺ کا ارشاد یوں نقل فرماتے ہیں: "إِذَادُبِغَ الْإِهَابُ فَقَدْ طَهُرَ"۷؎۔ جب چمڑے کودباغت دیدی جائے تووہ پاک ہوجاتا ہے۔ (۵)وقایۃ مع شرح الوقایۃ:۱/۸۳۔ (۶)سنن ترمذی، كِتَاب اللِّبَاسِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ ،بَاب مَاجَاءَ فِي جُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَادُبِغَتْ،حدیث نمبر:۱۶۵۰، شاملہ، موقع الإسلام۔ سنن نسائی، كِتَاب الْفَرَعِ وَالْعَتِيرَةِ،باب جُلُودُ الْمَيْتَةِ،حدیث نمبر:۴۱۶۸، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۷)صحیح مسلم، كِتَاب الْحَيْضِ،بَاب طَهَارَةِ جُلُودِ الْمَيْتَةِ بِالدِّبَاغِ،حدیث نمبر:۵۴۷، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۴)خفین پر مسح کی مدت اسلام نے خفین پر مسح کرنے کوجائز قرار دیا ہے، مقیم کے لیے ایک دن ایک رات اور مسافر کے لیے تین دن تین رات مسح کرنے کی گنجائش فراہم کی ہے؛ چنانچہ صاحب وقایہ تحریر فرماتے ہیں: "جاز بالسنۃ..... للمقیم یوم ولیلۃ وللمسافر ثلثۃ أیام ولیالیھا"۸؎۔ حدیث سے مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات اور مسافر کے لیے تین دن تین رات تک مسح علی الخفین کرنا ثابت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی نبی کریمﷺ سے تقریباً یہی الفاظ نقل کرتے ہیں؛ چنانچہ مسلم شریف کی روایت ہے: "جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ لِلْمُسَافِرِ وَيَوْمًا وَلَيْلَةً لِلْمُقِيمِ"۹؎۔ رسول اللہﷺ نے مسافر کے لیے تین دن اور تین رات اور مقیم کے لیے ایک دن ایک رات مسح کی مدت مقرر فرمائی۔ ذرا اچھی طرح فقہی عبارت اور حدیث کے الفاظ ملائیے اور پھرفیصلہ کیجئے کہ دونوں میں الفاظ کے لحاظ سے کیسی یکسانیت ہے۔ (۸)وقایہ مع شرحہ:۱/۱۰۳۔ (۹)صحیح مسلم،كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب التَّوْقِيتِ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ،حدیث نمبر:۴۱۴، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۵)اذان کا طریقہ نبی کریمﷺ نے اذان دینے کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا کہ مؤذن اپنے کانوں میں انگلی رکھ کر اذان دے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے آواز بلند اور اونچی نکلتی ہے؛ اسی حکم کوحضراتِ فقہاء یوں بیان کرتے ہیں: "وَيَجْعَلُ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ"۱۰؎۔ اذان دیتے وقت مؤذن شہادت کی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں رکھ لے۔ تقریباً یہی الفاظ حدیث میں بھی استعمال کیئے گئے ہیں؛ چنانچہ رسول کریمﷺ نے حضرت بلالؓ کوحکم دیتے ہوئے فرمایا: "أَنْ يَجْعَلَ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ"۱۱؎۔ اذان دیتے وقت دونوں انگلیاں کانوں میں رکھ لیں۔ (۱۰)کنزل الدقائق:۱۹۔ (۱۱)سنن ابنِ ماجہ، كِتَاب الْأَذَانِ وَالسُّنَّةِ فِيهِ،بَاب السُّنَّةِ فِي الْأَذَانِ،حدیث نمبر:۷۰۲، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۶)تکبیرِتحریمہ میں ہاتھ کہاں تک اُٹھائے جائیں؟ تکبیرِتحریمہ کے وقت رفع یدین کا کیا طریقہ ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے صاحب کنزالدقائق نے یوں بیان فرمایا ہے: "وَإِذَاأَرَادَ الدُّخُولَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ"۱۲؎۔ جب نماز شروع کرنے کا ارادہ کرے تواپنے دونوں ہاتھوں کوکانوں تک اُٹھائے۔ جب کہ حضرت مالک بن حویرثؓ نے بھی آپﷺ کے طریقۂ رفع یدین کوتقریباً انھیں الفاظ میں بیان فرمایا ہے: "كَانَ إِذَاكَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ"۱۳؎۔ رسولِ خداﷺ جب تکبیرِتحریمہ کہتے تواپنے دونوں ہاتھ کانوں کے برابر اُٹھاتے۔ دیکھئے فقہی عبارت اور الفاظِ حدیث میں کیسی مطابقت ہے۔ (۱۲)کنزالدقائق:۱۹۔ (۱۳)صحیح مسلم، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب اسْتِحْبَابِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ حَذْوَ الْمَنْكِبَيْنِ مَعَ تَكْبِيرَةِ ،حدیث نمبر:۵۸۹، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۷)کتنی گایوں میں زکوٰۃ دی جائے؟ صاحب وقایہ نے سائمہ جانوروں کی زکوٰۃ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے گائے کی زکوٰۃ کاذکریوں کیا ہے: "فِي ثَلَاثِينَ بَقَرًا تَبِيعٌ ذُو سَنَةٍ أَوْتَبِيعَةٌ، وَفِي أَرْبَعِينَ مُسِنٌّ ذُو سَنَتَيْنِ أَوْمُسِنَّةٌ"۱۴؎۔ تیس گایوں میں ایک سالہ گائے یابچھڑا واجب ہے اور چالیس گایوں میں دوسالہ گائے یابچھڑا واجب ہے۔ اور حضرت معاذ بن جبلؓ نے نبی رحمتﷺ کا جوارشاد نقل کیا ہے وہ اس طرح ہے: "فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ بَقَرَةً تَبِيعًا أَوْتَبِيعَةً وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً"۱۵؎۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں ہرتیس گایوں پر یکسالہ گائے یابچھڑا اور ہرچالیس پردوسالہ گائے یابچھڑا زکوٰۃ میں لیا کروں۔ ذرا آپ ان دونوں عبارتوں کوملاکر دیکھئے کہ دونوں میں الفاظ کے اعتبار سے کیسی مماثلت ہے۔ (۱۴)وقایۃ مع شرحہ:۱/۲۲۱۔ (۱۵)سنن الترمذی،كِتَاب الزَّكَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ ،بَاب مَاجَاءَ فِي زَكَاةِ الْبَقَرِ،حدیث نمبر:۵۶۶، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۸)احرام میں کیسے کپڑے نہ پہنے جائیں؟ صاحب قدوریؒ نے احرام کی حالت میں ممنوع کپڑوں کی تفصیل ان الفاظ سے بیان کی ہے: "فاذالبی..... لایلبس قمیصاً ولاسراویل ولاعمامۃ ولاقلنسوۃ ولاخفین الا ان لایجد نعلین فیقطعہما من اسفل الکعبین..... ولایلبس ثوبا مصبوغاً بورس ولابزعفران"۱۶؎۔ حج کا ارادہ کرنے والا جب تلبیہ پڑھے تواس کے بعد نہ قمیص پہنے نہ پاجامہ، نہ عمامہ باندھے نہ ٹوپی پہنے اور نہ خفین؛ لیکن اگرکسی کے پاس جوتے نہ ہوں تووہ خفین میں سے ٹخنوں سمیت اوپر کا حصہ کاٹ دے اور نہ ورس یازعفران میں رنگے ہوئے کپڑے پہنے۔ حضرت ابن عمرؓ نے نبی کریمﷺ سے اس بابت جوروایت بیان کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: "لَاتَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَاالْعَمَائِمَ وَلَاالسَّرَاوِيلَاتِ وَلَاالْبَرَانِسَ وَلَاالْخِفَافَ إِلَّاأَحَدٌ لَايَجِدُ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَاتَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ وَلَاالْوَرْسُ"۱۷؎۔ حج کرنے والا نہ قمیص پہنے، نہ پاجامہ، نہ عمامہ باندھے، نہ ٹوپی پہنے اور نہ خفین استعمال کرے؛ لیکن اگرکسی کے پاس جوتے نہ ہوں تووہ خفین پہن لے اور اس میں ٹخنوں سمیت اوپر کا حصہ کاٹ ڈالے اور ایسا کپڑا بھی نہ پہنے جس کوزعفران یاورس لگاہوا ہے۔ دیکھئے دونوں عبارتوں میں کیسی لفظی مطابقت ہے۔ (۱۶)قدوری:۵۷۔ (۱۷)سنن النسائی،كِتَاب مَنَاسِكِ الْحَجِّ، باب النَّهْيُ عَنْ لُبْسِ الْبَرَانِسِ فِي الْإِحْرَامِ،حدیث نمبر:۲۶۲۶، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۹)کس قسم کے جرم میں ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے؟ رسولِ خداﷺ نے تین قسم کے جرائم میں ہاتھ کاٹنے سے منع فرمایا ہے، علامہ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد نسفیؒ اس کوبیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: "لایقطع (الید) بخیانۃ ونھب"۱۸؎۔ خیانت، لوٹ مار اور چھین لینے کے جرائم میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ تقریباً یہی الفاظ حدیث میں بھی وارد ہوئے ہیں؛ چنانچہ حضرت جابرؓ آپﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں: "لَيْسَ عَلَى خَائِنٍ وَلَامُنْتَهِبٍ وَلَامُخْتَلِسٍ قَطْعٌ"۱۹؎۔ خائن، ڈاکو اور چھیننے واے کاہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ (۱۸)کنزمع البحر:۵/۵۳۔ (۱۹)سنن الترمذی، كِتَاب الْحُدُودِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْخَائِنِ وَالْمُخْتَلِسِ وَالْمُنْتَهِبِ،حدیث نمبر:۱۳۶۸، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۱۰)جنگوں کی اصل جنگ کے اصولوں میں سے ایک اصل یہ ہے کہ امیرِلشکر فوجیوں کوجوش دلانے کے لیے یہ اعلان کرسکتا ہے کہ جوشخص دشمن کے جس آدمی کوقتل کرے گا، اس کا سامان اسی مجاہد کی ملکیت ہوگا، شریعت نے اس کی اجازت سپہ سالار کودی ہے، اس مسئلہ میں بھی حدیث وفقہ کے الفاظ ایک ہی جیسے ہیں، ملاحظہ کیجئے، صاحب وقایہ فرماتے ہیں: "مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا فَلَهُ سَلَبُهُ"۲۰؎۔ جوشخص جس دشمن کوقتل کریگا تواس مقتول کا سامان اسی سپاہی کی ملکیت ہوگی۔ اور حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کا جوارشاد نقل کیا ہے، اس کے الفاظ بھی یہی ہیں: "مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ"۲۱؎۔ جوشخص دشمن کے کسی سپاہی کوقتل کرے اور اس پر اس کے پاس گواہ بھی ہوتوقتل کرنے والا مقتول کے سامان کا مالک ہوگا۔ (۲۰)وقایہ مع شرح:۲/۳۰۹۔ (۲۱)صحیح بخاری، كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ،بَاب مَنْ لَمْ يُخَمِّسْ الْأَسْلَابَ وَمَنْ قَتَلَ قَتِيلًا فَلَهُ سَلَبُهُ مِنْ غَيْرِ،حدیث نمبر:۲۹۰۹، شاملہ، موقع الإسلام۔ "تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ"۔ (البقرۃ:۱۹۶) یہ مکمل دس ہوگئے ہیں۔ طوالت کے خوف سے صرف ۱۰/مثالوں پر اکتفاء کیا گیا ہے؛ ورنہ آپ احناف کے متون فقہ کوایک طرف رکھیے اور دوسری طرف نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ رکھیے اور پھردونوں کی عبارت والفاظ پر غور کیجئے، آپ کودونوں میں جس طرح کی مماثلت ویکسانیت نظر آئے گی؛ اس پر آپ خود بے ساختہ کہہ پڑیں گے کہ احناف کوحدیث کے باب میں جوتہی دست کہا جاتا ہے وہ حقیقت سے کوسوں دور ہے، وہ تواپنی تحریروں میں بھی بلاتکلف الفاظِ حدیث درج کرتے ہیں، جو ان کی حدیث دانی کی بین دلیل ہے۔