انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عربوں اور یہودیوں کے تعلقات جزیرۂ عرب میں یہوودیوں کی آمد اور ان کی آبادیوں کی جوتفصیل بیان کی گئی ہے اس سے اجمالاً عربوں اور یہودیوں کے تعلقات پربھی روشنی پڑتی ہے؛ مگرپھربھی اس سلسلہ میں مزید تفصیل کی ضرورت ہے؛ تاکہ ان کے تعلقات کی تمام جہتیں اور ان کی نوعیتیں پورے طور سے سامنے آجائیں، اسلام سے پہلے عربوں اور یہودیوں میں گوناگوں معاشرتی اور تمدنی تعلقات تھے؛ مگران کے باوجود ذہنی طور پران میں ایک طرح کی اجنبیت اور مغائرت بھی موجود تھی، مگر وہ وطنی اور معاشرتی نہیں تھی؛ بلکہ معاشی اور مذہبی تفوق یاافضلیت ومفضولیت کی تھی، یہود دین الہٰی کے ماننے والے اور صحف سماوی کے حامل تھے؛ پھراسی کے ساتھ ان کوپورے جزیرہ میں معاشی غلبہ بھی حاصل تھا، اس لیے وہ عام عربوں کے مقابلہ میں اپنے آپ کوافضل اور بہتر سمجھتے تھے؛ غالباً اسی تفوق پسندی ہی کا نتیجہ تھا کہ یہود خالص عرب آبادی میں بہت کم آباد تھے اور جہاں عربوں کے ساتھ وہ آبادیوں کے نقشے پرآپ نظر ڈالیں گے توعاجز کے اس خیال کی پوری تائید ہوگی؛ مگرچونکہ ان کوپورے جزیرہ میں عددی اکثریت حاصل نہیں تھی اور دوسرے ان کے تجارتی اسباب وسامان اور زراعتی پیداوار وحاصلات کی منڈی زیادہ ترعرب ہی آبادیاں تھیں، اس لیے وہ عربوں سے بالکل منقطع اور بے تعلق ہوکر نہیں رہ سکتے تھے؛ یہی وجہ ہے کہ اس تفوق کے باوجود انہوں نے ہمیشہ عربوں سے اپنے تعلقات استوار رکھنے کی کوشش کی جیسا کہ ہرتجارت پیشہ اور کاروباری قوم کا شیوہ ہوتا ہے؛ اسی کے مقابلہ میں عام اہلِ عرب مذہبی اور معاشی دونوں حیثیت سے اپنے کویہود سے کمتر سمجھتے تھے اور وہ شاید سمجھنے پرمجبور بھی تھے اس لیے کہ ان نعمتوں سے جویہودیوں کوحاصل تھیں، ان کا دامن قریب قریب خالی تھا، نہ توان کے پاس کوئی کتاب الہٰی تھی اور نہ معاشی حیثیت سے وہ مطمئن تھے، قریش جوتجارت میں معروف ومشہور تھے اور جن کوکعبہ کے کلید بردار اور نگران ہونے کی وجہ سے سارے عرب کی سیادت ہی نہیں بلکہ پورے جزیرۂ عرب کی بے تاج کی بادشاہی بھی حاصل تھی، وہ بھی یہود کی مذہبی افضلیت وتفوق کے معترف اور ان کی معاشی برتری کے ماننے پرمجبور تھے۔ قرآن نے متعدد جگہ اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اگرتم کو (اہلِ عرب) رسول کی سچائی اور دین حق میں شبہ ہوتواہلِ کتاب سے پوچھ لو، حدیث وسیر کی کتابوں سے ثابت ہے کہ قریش نے متعدد بار اپنے وفود مدینہ کے یہود کے پاس اس لیے بھیجے کہ وہ آپ کی نبوت اور آپ کے صفات کتب سابقہ کی روشنی میں ان سے دریافت کریں، اسی تفوق وافضلیت ہی کا اثر تھا کہ جب لوگوں کے بچے زندہ نہیں رہتے تھے تووہ منت مانتے تھے کہ بچہ زندہ رہ جائے گا تواسے یہودی بنادیں گے؛ چنانچہ مدینہ میں اس طرح کے بہت سے جدید الیہودیہ افراد موجود تھے (ابوداؤد:۲/۹، کتاب الجہاد) تفصیل آگے آئے گی۔ معاشی حیثیت سے بھی یہود کوعربوں پرعام طور سے تفوق حاصل تھا، مدینہ کی بیشترعرب آبادی ان کی مقروض تھی، خیبرکا بھی یہی حال تھا، وہاں وہ عربوں سے مزدوری کراتے تھے، جس وقت خیبر فتح ہوا اس وقت بہت سے عرب خدمت گار ان کے پاس موجود تھے (ابن ہشام وغیرہ) قریش جوپورے عرب میں ممتاز اور صاحب رحلۃ الشتاء والصیف تھے وہ بھی شادی بیاہ کے موقع پرخیبر کے یہودیوں سے زیورات کرایہ پرلے جاتے تھے، ایک مرتبہ اسی طرح کے مستعار زیورات گم ہوئے توقریش نے یہودیوں کودس ہزار دینار ہرجانہ ادا کیا (السیرالکبیر:۱/۱۸۶، تقریباً ۲۵/ہزار روپیے ہوئے) کہنا یہ ہے کہ اسلام سے پہلے عربوں اور یہودویں میں باہم معاشی اور معاشرتی تعلقات تھے اور باوجو تفوق ومذہبی مغائرت کے جنگ وغیرہ کے مواقع پراپنے مصالح کے ماتحت عربی قبائل سے وہ تحلیف ومعاہدہ کرتے تھے اور اس میں شریک ہوتے تھے۔ مدینہ کے مشہور عربی قبائل اوس وخزرج میں جتنی لڑائیاں ہوئیں (مثلاً جنگ فجار اور جنگ بعاث وغیرہ) ان میں وہاں کے یہودی قبائل کسی نہ کسی کے حلیف تھے؛ اسی طرح خیبر کے یہودیوں سے آس پاس کے تمام قبائل سے معاہدہ جنگ تھا؛ چنانچہ اسلامی غزوات کے مواقع پرانہوں نے اس حلف ومعاہدہ سے پورا فائدہ اُٹھایا۔ (مثلا غزوۂ بدر، غزوۂ خندق، غزوۂ خیبروغیرہ) یہی نہیں بلکہ بعض عربی قبائل اور یہودیوں میں شادی بیاہ کے رشتے بھی شروع ہوگئے تھے، کعب جویہود مدینہ کا اشعرالشعراء اور سب سے بڑا دشمنِ اسلام تھا، اس کا باپ اشرف قبیلہ طے اور بعض روایتوں میں ہے کہ بنو نبہاں سے تھا جس نے مدینہ میں آکراپنا اثرورسوخ پیدا کیا اور سردار بنونضیر ابورافع کی لڑکی سے شادی کرلی تھی(زرقانی:۲/۹) اس طرح مدینہ کے یہود اور عربی قبائل میں بھی غالباً اسی قسم کے تعلقات تھے اور خصوصیت سے وہ قبائل جوجدید الیہودیہ تھے۔ (ان قبائل کا ذکر اُوپرآچکا ہے)