انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امتِ محمدیہ میں سے سب سے پہلے جنت میں جانے والے سب سے پہلے جانے والے گروپ کی صفات: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَلِجُ الْجَنَّةَ صُورَتُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَايَبْصُقُونَ فِيهَا وَلَايَمْتَخِطُونَ وَلَايَتَغَوَّطُونَ آنِيَتُهُمْ فِيهَا الذَّهَبُ أَمْشَاطُهُمْ مِنْ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَمَجَامِرُهُمْ الْأَلُوَّةُ وَرَشْحُهُمْ الْمِسْكُ وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ يُرَى مُخُّ سُوقِهِمَا مِنْ وَرَاءِ اللَّحْمِ مِنْ الْحُسْنِ لَااخْتِلَافَ بَيْنَهُمْ وَلَاتَبَاغُضَ قُلُوبُهُمْ قَلْبٌ وَاحِدٌ يُسَبِّحُونَ اللَّهَ بُكْرَةً وَعَشِيًّا۔ (بخاری، كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ،بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ،حدیث نمبر:۳۰۰۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:سب سے پہلے جوجماعت جنت میں داخل ہوگی ان کی صورتیں چودھویں رات کے چاند کی صورت جیسی ہوں گی، یہ نہ توجنت میں تھوکیں گے نہ ناک بہے گی اور نہ ہی اس میں پاخانہ کریں گے (یعنی ان تینوں عیبوں سے پاک ہوں گے) ان کے برتن اور کنگھیاں سونے اور چاندی کی ہوں گی، ان کی انگیٹھیاں اگرکی لکڑی کی ہوں گی، ان کا پسینہ کستوری کا ہوگا، ان میں سے ہرایک کے لیے دوبیویاں ایسی ہوں گی جن کی پنڈلی کا گودا ان کے حسن کی وجہ سے گوشت کے اندر سے نظر آئے گا، ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہوگا اور نہ آپس میں کوئی بغض ہوگا، ان کے دل ایک دل (کی طرح) ہوں گے یہ صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کہیں گے۔ پہلے اور دوسرے درجہ کے جانے والے جنتیوں کی صفات: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَوَّلَ زُمْرَةٍ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ عَلَى أَشَدِّ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَاءِ إِضَاءَةً لَايَبُولُونَ وَلَايَتَغَوَّطُونَ وَلَايَتْفِلُونَ وَلَايَمْتَخِطُونَ أَمْشَاطُهُمْ الذَّهَبُ وَرَشْحُهُمْ الْمِسْكُ وَمَجَامِرُهُمْ الْأَلُوَّةُ الْأَنْجُوجُ عُودُ الطِّيبِ وَأَزْوَاجُهُمْ الْحُورُ الْعِينُ عَلَى خَلْقِ رَجُلٍ وَاحِدٍ عَلَى صُورَةِ أَبِيهِمْ آدَمَ سِتُّونَ ذِرَاعًا فِي السَّمَاءِ۔ (بخاری،كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ،بَاب خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَذُرِّيَّتِهِ،حدیث نمبر:۳۰۸۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:پہلا گروہ جوجنت میں داخل ہوگا ان کی صورت چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوگی اور وہ لوگ جوان کے بعد (جنت میں) جائیں گے ان کی صورت کسی چمک دمک آسمان میں تیز روشن ستارے کی طرح ہوگی، یہ جنتی نہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ نہ تھوک نہ رینٹ، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی، ان کا پسینہ کستوری کا ہوگا، ان کی انگیٹھیاں اگرکی ہوں گی، ان کی بیویاں حورعین ہوں گی، ان کے اخلاق ایک ہی آدمی کے خلق (جیسے) ہوں گے، ان کی صورت اپنے ابا حضرت آدم کی صورت پرہوگی لمبائی میں ساٹھ ہاتھ کا قد ہوگا۔ داخلہ کے لیے سب سے پہلے کن حضرات کوپکارا جائے گا: حدیث:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أول من يدعى إلى الجنة یوم القیامۃ الحمادون الذين يحمدون الله في السراء والضراء۔ (طبرانی صغیر:۱/۱۰۳۔ حاکم:۱/۵۰۲۔ صفۃ الجنۃ ابونعیم:۸۲) ترجمہ:سب سے پہلے جن کوجنت کی طرف بلایا جائے گا وہ حمادون ہوں گے جو (دنیا میں) خوشی اور تکلیف میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بجالاتے تھے۔ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے تین قسم کے حضرات: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عُرِضَ عَلَيَّ أَوَّلُ ثَلاَثَةٍ مِنْ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ، وَأَوَّلُ ثَلاَثَةٍ يَدْخُلُونَ النَّارَ، فَأَمَّا أَوَّلُ ثَلاَثَةٍ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ فَالشَّهِيدُ وَعَبْدٌ مَمْلُوكٌ لَمْ يَشْغَلْهُ رِقُّ الدُّنْيَا عَنْ طَاعَةِ رَبِّهِ، وَفَقِيرٌ مُتَعَفِّفٌ ذُو عِيَالٍ، وَأَوَّلُ ثَلاَثَةٍ يَدْخُلُونَ النَّارَ فَأَمِيرٌ مُسَلَّطٌ، وَذُوثَرْوَةٍ وَمَالٍ لاَيُؤَدِّي حَقَّ اللهِ فِي مَالِهِ، وَفَقِيرٌ فَخُورٌ (مسنداحمد:۲/۴۲۵۔ بلفظہ وہذااللفظ من حادی الارواح:۱۵۶) ترجمہ:میرے سامنے میری امت کے ان تین قوم کے لوگوں کوپیش کیا گیا جوسب سے پہلے جنت میں جائیں گے اور ان تین قسم کے لوگوں کوپیش کیا گیا جوسب سے پہلے دوزخ میں جائیں گے؛ پس وہ پہلے تین جوجنت میں جائیں گے (۱)شہید (۲)وہ مملوک غلام جس کودنیا کی غلامی نے اس کے پروردگار کی عبادت سے نہیں روکا (۳)فقیر عیال دار دست سوال دراز کرنے سے بچنے والا اور وہ تین قسم کے لوگ جوسب سے پہلے دوزخ میں جائیں گے (۱)امیرزبردستی سے مسلط ہوجانے والا (۲)دولتمند جواپنے مال میں سے اللہ کا حق ادا نہ کرے (۳)بڑمارنے والا تنگ دست فقیر۔ کونسے غلام جنت میں پہلے جائیں گے: حدیث:حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنت میں کوئی بخیل داخل نہیں ہوگا اور نہ کوئی دھوکہ باز (جوفساد پھیلاتا ہو) نہ کوئی خیانتی اور نہ وہ شخص جواپنے غلاموں کے ساتھ براسلوک کرتا ہو اور انبیاء اور اعلیٰ درجہ کے اولیاء صدیقین کے بعد جولوگ جنت کا دروازہ کھٹکائیں گے وہ غلام ہوں گے؛ جنھوں نے اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کے حقوق کواپنے اور اپنے مالکوں کے درمیان کے حقوق کوبہترین طریقہ سے نبھایا ہوگا۔ سب سے پہلے امتِ محمدیہ جنت میں داخل ہوگی: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَنَحْنُ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ۔ ترجمہ:ہم اخیر میں آنے والے ہیں، قیامت میں سب سے پہلے (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ نوٹ:یعنی حضورکی امت تمام امتوں کے بعد آئی ہے اور سب امتوں سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کوہی قبروں سے اٹھایا جائے گا اور سب سے پہلے آپ کی امت جنت میں داخل ہوگی۔ فقراء مہاجرین کی فرشتوں پرفضیلت اور جنت میں داخل ہونا: حدیث:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: هَلْ تَدْرُونَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ الْفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرُونَ الَّذِينَ تَتَّقَى بِهِمْ الْمَكَارِهُ وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ لَايَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً تَقُولُ الْمَلَائِكَةُ رَبَّنَا نَحْنُ مَلَائِکَتِکَ وَخَزَنْتُکَ وَسَکَان سَمَاوَاتِکَ لَاتَدْخلھم الْجَنَّۃَ قَبْلَنَا فَیَقُوْلُ عِبَادِیْ لَايُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا تُتَّقَى بِهِمْ الْمَكَارِهُ يَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ لَمْ يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً فَعِنْدَ ذَلِكَ تَدْخُلُ عَلَيْهِمْ الْمَلَائِکَۃَ مِنْ كُلِّ بَابٍ ﴿ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ﴾ ۔ (مسنداحمد:۲/۱۶۸۔ بزار:۳۶۶۵۔ مجمع الزوائد:۱۰/۲۵۹) ترجمہ:کیا تمھیں معلوم ہے جنت میں سب سے پہلے کون داخل ہوگا؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں، فرمایا مہاجرین میں سے فقراء حضرات جوگرمی سردی وغیرہ کے مشکل اوقات میں شریعت کے مشکل اعمال کوعمدگی سے ادا کرتے ہیں، ان میں سے جب کوئی فوت ہوتا ہے تواس کی ضرورت اس کے سینے میں باقی رہتی ہے اس کے پورا کرنے کی اس میں ہمت نہیں ہوتی، فرشتے عرض کریں گے، اے ہمارے رب! ہم آپ کے فرشتے ہیں (آپ کے) کاموں کے محافظ اور ذمہ دار ہیں آپ کے آسمانوں کے مکین ہیں آپ ان کوہم سے پہلے جنت میں داخل نہ فرمائیے تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے یہ میرے وہ بندے ہیں جنھوں نے میرے ساتھ کسی کوشریک نہیں کیا اور مشکل اوقات میں شریعت پرعمل کرنا نہیں چھوڑا، جب ان میں سے کوئی فوت ہوتا تھا تواس کی حاجت اس کے سینے میں باقی رہتی تھی جس کے پورا کرنے کی اس میں طاقت نہیں تھی؛ پس اس وقت ہردروازہ سے ان کے پاس فرشتے، حاضر ہوں گے (اور یہ کہیں گے) سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (الرعد:۲۴) تم پرسلام ہو بوجہ تمہارے صبر کرنے کے پس آخرت کا گھر کتنا ہی اچھا ہے (جس میں تمہاری تمام خواہشیں پوری ہوں گی)۔ غریب امیروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: يَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُسْلِمِينَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِنِصْفِ يَوْمٍ وَهُوَخَمْسُ مِائَةِ عَامٍ۔ (صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۱۷۹۔ مسنداحمد:۲/۳۴۳) ترجمہ:غریب اور محتاج مسلمان دولت مند مسلمانوں سے (قیامت کا) آدھا دن جوپانچ سوسال کے برابر ہوگا جنت میں پہلے جائیں گے۔ جنت میں آدھا دن پہلے جانے کا کتنا عرصہ ہے: حدیث:حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے ارشاد فرمایا: غریب مسلمان دولت مندوں سے آدھا دن جنت میں پہلے جائیں گے، عرض کیا گیا یارسول اللہ آدھا دن کتنا ہے، فرمایا: پانچ سوسال، عرض کیا گیا کہ اس کے سال کے کتنے مہینے ہیں؟ فرمایا پانچ سومہینے، عرض کیا گیا اس مہینے کے کتنے دن ہیں؟ فرمایا پانچ سودن عرض کیا گیا: پھرایک دن کتناطویل ہے؟ فرمایا:پانچ سودنوں کے برابر جن کوتم شمار کرتے ہو۔ (تذکرۃ فی احوال الموتی وامورالآخرہ:۴۷۰، بحوالہ عیون الاخبار علامہ قبتی) حدیث:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ يَسْبِقُونَ الْأَغْنِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى الْجَنَّةِ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا۔ (مسلم، كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ،بَاب،حدیث نمبر:۵۲۹۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:فقراء مہاجرین قیامت کے دن (جنت میں) دولت مندوں سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے۔ فائدہ:فقراء کا جنت میں پانچ سوسال پہلے داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اوّل درجہ کے فقراء پانچ سوسال پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور یہ حدیث جس میں چالیس سال پہلے داخل ہونے کا ذکر ہے یہ شاید آخری درجہ کے فقراء کے اعتبار سے ہے کہ کم درجہ کے فقراء دولتمندوں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ (صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۱۹۲۔ مسلم:۲۹۷۹۔ احمد:۲/۱۶۹) فقیر سے پیچھے رہ جانے والے جنتی کی حالتِ اضطراب: حدیث:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الْتَقَى مُؤْمِنَانِ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ مُؤْمِنٌ فَقِيرٌ وَمُؤْمِنٌ غَنِيٌّ كَانَا فِي الدُّنْيَا فَأُدْخِلَ الْفَقِيرُ الْجَنَّةَ وَحُبِسَ الْغَنِيُّ مَاشَاءَ اللَّهُ أَنْ يُحْبَسَ ثُمَّ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَلَقِيَهُ الْفَقِيرُ فَقَالَ یَاأَخِي وَمَاذَا حَبَسَكَ؟ وَاللَّهِ لَقَدْ احْتُبِسْتَ حَتَّى خِفْتُ عَلَيْكَ فَيَقُولُ أَيْ أَخِي إِنِّي حُبِسْتُ بَعْدَكَ مَحْبِسًا فَظِيعًا كَرِيهًا وَمَاوَصَلْتُ إِلَيْكَ سَالَ مِنِّي مِنَ الْعَرَقُ مَالَوْوَرَدَهُ أَلْفُ بَعِيرٍ كُلُّهَا آكِلَةُ حَمْضٍ لَصَدَرَتْ عَنْهُ رِوَاءً (مسنداحمد:۱/۳۰۴۔ مجمع الزوائد:۱۰/۲۶۳) ترجمہ:دوقسم کے مؤمن جنت کے دروازہ پرملیں گے ایک مؤمن دنیا میں فقیر ہوگا دوسرا دولتمند؛ چنانچہ فقیر کوجنت میں داخل کردیا جائے گا اور دولتمند کوجب تک اللہ تعالیٰ روکنا چاہیں گے روکا جائے گا پھر اس کوبھی جنت میں داخل کیا جائے گا توجب فقیر کی اس سے ملاقات ہوگی تووہ پوچھے گا، اے بھائی! تمھیں کس چیز نے روک لیا تھا؟ اللہ کی قسم! جب توروکا گیا تومیں تیرے متعلق خوفزدہ ہوگیا تھا (کہ تجھے دوزخ میں توداخل نہیں کردیا گیا) تووہ بتائے گاکہ، اے بھائی! میں تیرے (جنت میں چلے جانے کے) بعد دکھ درد اور گھبراہٹ کے ساتھ (جنت کے باہر) روک لیا گیا تھا اور تم تک نہیں پہنچ سکا تھا اور میرا پسینہ اتنا بہا کہ اگر اس پرایک ہزار نمکین اور تلخ پودے کھانے والے اونٹ جمع ہوجائیں تواس سے سیرہوکر واپس جائیں۔ غریب مسلمانوں کا فرشتوں سے جواب سوال: حدیث: حضرت سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شحص جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بتلائیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہم نشین کون ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: اللہ سے ڈرنے والے اور عاجزی وانکساری کرنے والے جواللہ تعالیٰ کوبہت یاد کرتے ہیں؛ عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہی لوگ جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے؟فرمایا: نہیں، اس نے عرض کیا توپھرسب سے پہلے لوگوں میں سے کون جنت میں داخل ہوگا؟ ارشاد فرمایا: لوگوں میں سے سب سے پہلے غریب مسلمان جنت میں داخل ہوں گے، جنت سے ان کے پاس کچھ فرشتے آئیں گے اور کہیں گے تم حساب کتاب کی طرف چلو، تووہ کہیں گے ہم کس چیز کا حساب دیں؟ اللہ کی قسم! دنیا مال ودولت سے ہمیں کچھ بھی نصیب نہیں ہواجس میں ہم بخل کرتے یافضول خرچیاں کرتے اور نہ ہی ہم حکمران تھے کہ انصاف کرتے اور ظلم کرتے، ہمارے پاس تواللہ تعالیٰ کا دین آیا تھا ہم اس کی عبادت میں مصروف رہے؛ یہاں تک کہ موت آگئی، توان سے کہا جائے گا تم جنت میں داخل ہوجاؤ نیک عمل کرنے والوں کے لیے بہترین اجر ہے۔ غریب جنت کی نعمتوں میں، امیرحساب کی گردش میں: حدیث: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اتقوا الله في الفقراء فإنه يقول يوم القيامة أين صفوتي من خلقي؟ فتقول من هم ياربنا؟ فيقول: الفقراء الصابرون الراضون بقدري أدخلوهم الجنة قال فيدخلون الجنة يأكلون ويشربون والأغنياء في الحساب يترددون۔ (کتاب الزہد ابن المبارک:۲/۸۰۔ تذکرۃ القرطبی:۲/۴۶۹) ترجمہ:تم غریبوں کے حق میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو؛ کیکونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میری مخلوق میں سے میرے مخلص دوست کہاں ہیں؟ توفرشتے عرض کریں گے، اے ہمارے پروردگار! وہ کون لوگ ہیں؟ تواللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے وہ فقراء ومحتاج جو (مصیبتوں اور تنگدستی میں) صبرکرتے تھے میری تقدیر پرراضی رہتے تھے ان کوجنت میں داخل کردو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان کوجنت میں داخل کردیا جائے گا وہ (جنت میں عیش سے) کھاتے پیتے ہوں گے جب کہ امیرلوگ حساب کتاب کی گردش میں ہوں گے۔ فقیرکون ہے؟ اور غنی کون؟ حضرت ابوعلی دقاق رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ ان دوحالتوں میں سے کونسی حالت افضل ہے، فقیر ہونا یاغنی ہونا؟ توآپ نے فرمایا غناء افضل ہے؛ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور فقر مخلوق کی صفت ہے اور اللہ کی صفت افضل ہے مخلوق کی صفت سے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: يَاأَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيدُ۔ (فاطر:۱۵) ترجمہ:اے لوگو! تم خدا کے محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ بے نیاز (اور تمام خوبیوں والا ہے)۔ حقیقت میں فقیر وہ شخص ہے اگرچہ اس کے پاس مال ہومگر وہ اللہ کا عبد (بندگی کرنے والا) ہو وہ اس وقت غنی ہوجائے گا جب وہ اپنی تمام حاجات کا اللہ تعالیٰ سے طلب گار ہوگا اللہ کے سوا کی طرف نظر نہیں کریگا؛ اگرچہ اس کا دنیا کی کسی چیز کی طرف خیال ہو اور نہ ضرورت مند سمجھے لیکن وہ پھربھی اللہ کا بندہ ہی رہے۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۴۷۱) فقراء کا ثواب جنت ہے: حدیث:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم روزِ قیامت میں جمع ہوگے توکہا جائے گا کہ اس امت کے فقراء اور مساکین کہاں ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ یہ کھڑے ہوجائیں گے، ان سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا عمل کئے؟ وہ عرض کریں گے، اے ہمارے پروردگار! ہم پرآزمائشیں ڈالی گئیں توہم نے صبر کیا اور آپ نے مال ودولت اور سلطنت دوسروں کوعطاء کی تھی (ہم کونہیں) تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم نے درست کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ پھریہ لوگ دوسرے لوگوں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے جب کہ مالداروں اور صاحب سلطنت (حکمرانوں) پرحساب کتاب کی سختی بدستور قائم ہوگی، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اس دن مؤمنین حضرات کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان کے لیے نور کی کرسیاں بچھائی جائیں گی اور ان پربادل سایہ کرتے ہوں گے، مؤمنین کے لیے یہ روز دن کی ایک گھڑی ہےسے بھی بہت کم (محسوس) ہوگا۔ (صحیح ابن حبان ،الاحسان:۱۰/۲۵۳۔ حلیۃ الاولیاء:۷/۲۰۶) سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے: حدیث:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أناأول من يقرع باب الجنة، فيقول الخازن: من أنت؟ فأقول: أنامحمد! فيقول: أقم فأفتح لك، فلم أقم لأحد قبلك، ولاأقوم لأحد بعدك (صفۃ الجنۃ، ابونعیم:۱/۱۱۷) ترجمہ:سب سے پہلے جنت کا دروازہ میں کھٹکھٹاؤں گا، داروغہ جنت کہے گا آپ کون ہیں؟ میں کہوں گا میں محمد ہوں، تووہ کہے گا آپ ٹھہریں میں آپ کے لیے ابھی کھولتا ہوں، میں آپ سے پہلے کسی کے لیے نہیں اٹھا اور نہ ہی آپ کے بعد کسی کے لیے اُٹھوں گا (اور ایک روایت ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ سے پہلے جنت کا دروازہ کسی کے لیے نہ کھولوں)۔ (مسلم:۱۹۷۔ احمد:۳/۱۳۶) فائدہ:یہ فرشتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص مقام ومرتبہ کی وجہ سے باب جنت پرمتعن کیا گیا ہے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور کسی نبی اور ولی کے استقبال اور دروازہ کھولنے کے لیے نہیں اٹھے گا؛ بلکہ جنت کے تمام منتظم فرشتے آپ کے اکرام میں کھڑےہوں گے اور یہ فرشتہ گویا کہ جنت کے باقی داروغوں کا بادشاہ ہے، جس کواللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول کی خدمت میں کھڑا کریں گے اور یہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چل کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جنت کا دروازہ کھولے گا۔ (حادی الارواح:۱۵۰) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان وعظمت: حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں بیٹھے گئے آپ جب تشریف لائے اور ان کے قریب پہنچے توان کومذاکرہ کرتے ہوئے سنا جب آپ نے ان کی بات چیت سنی توان میں سے ایک کہہ رہا تھا کتنی عجیب بات ہے اللہ تعالیٰ کا اس کی مخوق میں ایک خالص دوست بھی ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کومخلص دوست بنایا ہے، دوسرے صحابی نے کہا یہ بات اللہ تعالیٰ کے کلیم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ عجیب نہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام فرمایا ہے، ایک اور صحابی نے فرمایا: حضرت عیسی علیہ السلام کودیکھئے وہ اللہ کے کلمہ اور اس کی طرف سے روح ہیں، ایک اور صحابی نے فرمایا حضرت آدم علیہ السلام وہ ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا ہے؛ پھرحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان (صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین) کے پاس تشریف لائے سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا تعجب سنا ہے، ابراہیم علیہ السلام اللہ کے دوست ہیں واقعی ایسا ہی ہے، موسی علیہ السلام اللہ کے ساتھ سرگوشی کرنے والے ہیں واقعی ایسا ہی ہے، عیسیٰ علیہ السلام اس کی طرف سے روح اور اس کا کلمہ (بن باپ کے اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے) ہیں واقعی ایسا ہی ہے اور آدم علیہ السلام وہ ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے برگزیدہ بنایا وہ ایسے ہی ہیں؛ سن لو! میں اللہ کا حبیب (محب ومحبوب) ہوں اور میں کوئی فخر نہیں کررہا، میں ہی قیامت کے دن لواء الحمد کواٹھاؤں گا میں اس میں بھی کوئی فخر نہیں کررہا، میں سب سے پہلے روزِ قیامت شفاعت کرونگا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی اور میں یہ بھی فخر اور تکبر کی بات نہیں کررہا اور میں ہی سب سے پہلے جنت کا کنڈا کھٹکھٹاؤں گا وہ میرے لیے کھولا جائیگا اور میں جنت میں داخل ہوں گا اور میرے ساتھ (جنت میں داخل ہوتے وقت) فقراء مؤمنین (غریب مسلمان) ہوں گے اور اس میں بھی میں فخر نہیں کرتا اور میں اگلوں اور پچھلوں (سب مخلوقات سے) زیادہ شان ومرتبہ کا مالک ہوں اور اس میں بھی میں فخر اور تکبر نہیں کررہا۔ (ترمذی:۳۶۱۶۔ حادی الارواح:۱۵۱) بیوہ کا اپنے بچوں کی پرورش کرنے کا مرتبہ: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أناأول من يفتح باب الجنة إلا أن أمرأة تبادرني فاقول لها مالك ومن أنت فتقول أنا امرأة قعدت على يتامى (حادی الارواح:۱۵۰) ترجمہ:سب سے پہلے جس کے لیے دروازہ کھولا جائے گا وہ میں ہوں؛ مگرایک عورت مجھ سے پہلے داخل ہونا چاہے گی تومیں اس سے کہوں گا تجھے کیا ہے توکون ہے؟ تووہ کہے گی میں وہ (بیوہ) عورت ہوں جواپنے یتیم بچوں (کی پرورش) کے لیے رکی رہی تھی (اور شادی نہیں کی تھی)۔ حدیث:حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَنَاوَامْرَأَةٌ سَفْعَاءُ فِي الْجَنَّةِ كَهَاتَيْنِ امْرَأَةٌ آمَتْ مِنْ زَوْجِهَا فَحَبَسَتْ نَفْسَهَا عَلَى يَتَامَاهَا حَتَّى بَانُوا أَوْمَاتُوا۔ (مسنداحمد بن حنبل، حديث عوف بن مالك الأشجعي الأنصاري رضي الله عنه،حدیث نمبر:۲۴۰۵۴، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:میں اور وہ عورت (جس کا رنگ اولاد کی پرورش میں مشقت کرنے سے سیاہی مائل ہوگیا ہو) جنت میں اس طرح (اکٹھے) ہوں گے (یعنی اس کوبھی جنت میں پہلے داخل کیا جائے گا اور اعلیٰ مرتبہ پرفائز ہوگی) یہ وہ عورت ہے جوخاوند سے الگ ہوگی (موت کی وجہ سے یاکسی اور مصیبت کی وجہ سے) پھراس نے اپنے یتیم بچوں کے لیے اپنے آپ کو (دوسری شادی کرنے سے) روکا؛ حتی کہ وہ بچے (اس کی پرورش) کے محتاج نہ رہے یافوت ہوگئے۔