انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت حارث ؓبن ہشام نام ونسب حارث نام، ابو عبدالرحمن کنیت، نسب نامہ یہ ہے، حارث بن ہشام بن مغیرہ ابن عبداللہ بن عمرو بن مخزوم قرشی مخزومی حارث مشہور دشمن اسلام ابو جہل کے حقیقی بھائی تھے۔ قبل از اسلام حارث مکہ کے رئیس اوربڑے مخیر اور فیاض آدمی تھے، صد ہا غریبوں کی روٹی ان کی ذات سے چلتی تھی، آنحضرتﷺ کو ان کے اسلام کی بڑی خواہش تھی، ایک مرتبہ ان کا ذکر آیا تو فرمایاحارث سردار ہیں، کیوں نہ ہو ان کے باپ بھی سردار تھے، کاش خدا انہیں اسلام کی ہدایت دیتا، (استیعاب:۱/۱۱۷)بدر میں ابو جہل کے ساتھ تھے، لیکن میدان جنگ سے بھاگ نکلے اور ابو جہل مارا گیا، ان کی اس بزدلی پر حسان ؓبن ثابت نے اشعار میں غیرت دلائی،انہوں نے اشعار ہی میں اس کی توجیہ آمیز وقدرت کی،احد میں بھی مشرکین کے ہمراہ تھے۔ (استیعاب:۱/۱۱۷) اسلام اورغزوات فتحِ مکہ میں دوسرے سردارانِ قریش کی طرح مشرف باسلام ہوئے،اسلام کے بعد سب سے پہلے غزوۂ حنین میں شریک ہوئے، آنحضرتﷺ نے اس غزوہ کے مال غنیمت میں سے سو اونٹ مرحمت فرمائے۔ (اسد الغابہ:۱/۳۵۱) سقیفہ بنی ساعدہ حنین کے بعد مکہ لوٹ گئے،لیکن آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت مدینہ ہی میں موجود تھے ؛چنانچہ جب سقیفۂ بنی ساعدہ میں مہاجرین اورانصار میں خلافت کے بارہ میں اختلاف ہوا تو حارث نے یہ صائب رائے ظاہر کی کہ خدا کی قسم اگر رسو ل اللہ ﷺ نے الأیمۃ من قریش نہ فرمایا ہوتا تو ہم انصار کو بے تعلق نہ کرتے،کیونکہ وہ اس کے اہل ہیں، لیکن رسول اللہﷺ کے فرمان میں کوئی شک و شبہ نہیں، اگر قریش میں صرف ایک شخص باقی ہوتا تو بھی خدا اس کو خلیفہ بناتا۔ (اصابہ:۱/۳۰۷) شام کی فوج کشی کے لیے تیاری اوراہل مکہ کا ماتم حضرت ابوبکرؓ نے جب شام پر فوج کشی کا عزم کیا اور تمام بڑے بڑے رؤساء کو اس میں شرکت کی دعوت دی تو حارث کو بھی ایک خط لکھا، حارث حصولِ سعادت کے بہت سے مواقع کھوچکے تھے، اس لیے تلافی مافات کے لیے فوراً آمادہ ہوگئے ؛لیکن ان کی ذات تنہا نہ تھی، وہ صدہا غریبوں کا سہارا تھے،اس لیے مکہ ماتم کدہ بن گیا، پروردگار کی اس نعمت کے جانے پر زار زارروتے تھے، سب بادیدۂ پرنم رخصت کرنے کو نکلے، جب بطحا کے بلند حصے پر پہنچے تو رونے والوں کی گریۂ وزاری پر ان کا دل بھر آیا اور ان الفاظ میں ان کی تشفی کی کوشش کی ،لوگو! خدا کی قسم میں اس لیے تم لوگوں سے نہیں جدا ہورہا ہوں کہ مجھ کو تمہارے مقابلہ میں کوئی ذات منفعت مقصود ہے یا تمہارے شہر کے مقابلہ میں دوسرا شہر پسند ہے؛بلکہ ایک اہم معاملہ پیش آگیا ہے، اس میں قریش کے بہت سے اشخاص شریک ہوچکے ہیں، جو تجربہ اورخاندانی اعزاز کے اعتبار سے کوئی امتیاز نہیں رکھتے اگر ہم نے اس زریں موقع کو چھوڑدیا تو اگر مکہ کے تمام پہاڑ سونے کے ہوجائیں اوران سب کو ہم خدا کی راہ میں لٹادیں تب بھی اس کے ایک دن کے برابر اجر نہیں پاسکتے اُن لوگوں کے مقابلہ میں اگر ہم کو دنیا نہ ملی تو کم از کم آخرت کے اجر میں تو شریک ہوجائیں ،ہمارا یہ نقلِ مکان خدا کے لیے اور شام کی طرف ہے۔ (اسد الغابہ:۱/۳۵۳،واستیعاب:۱/۱۱) جہاد اور شہادت غرض اس ولولہ اورجوش کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلے اورمخل اوراجنادین کے معرکوں میں دادِ شجاعت دی (ابن سعد،جلد۷،ق۲،۱۲۶) اس سلسلہ کی مشہور جنگ یرموک میں جب ابتدا میں مسلمانوں کے پاؤں اکھڑے تو بہت سے مسلمان شہید ہوگئے،حارث بھی سخت زخمی ہوگئے دم واپسیں پیاس کا غلبہ ہوا، پانی مانگا، فوراً پانی لایا گیا، پاس ہی ایک دوسرے زخمی مجاہد تشنہ لب پڑے تھے ،فطری فیاضی نے گوارانہ کیا کہ ان کو پیاسا چھوڑ کر خود سیراب ہوں؛چنانچہ پانی ان کی طرف بڑھادیا،ان کے پاس ایک تیسرے زخمی اسی حالت میں تھے، اس لیے انہوں نے ان کی طرف بڑھادیا، ان کے پاس پانی پہنچنےبھی نہ پایا تھا کہ دم توڑدیا، غرض تینوں تشنہ کامانِ حق تشتہ حوض کوثر پر پہنچ گئے۔ (اسد الغابہ:۱/۳۵۱) اولاد شہادت کے وقت ایک لڑکا عبدالرحمن یاد گار چھوڑا، خدانے اس کی نسل میں بڑی ترقی دی اورخوب پھلی پھولی۔ (اصابہ:۱/۳۰۷) عام حالات فیاضی،سیر چشمی اورغرباپروری کے مناظر اوپر دیکھ چکے، دوسرے فضائل ابن عبدالبر کی زبان سے سنیے، وہ لکھتے ہیں کہ حارث فضلا اورخیار صحابہ میں تھے، عموما ًمولفۃ القلوب مسلمانوں کے دلوں میں اسلام راسخ نہ تھا، لیکن حضرت حارث اس سے مستنیٰ تھے وہ ان مؤلفۃ القلوب میں تھے جو سچے مسلمان تھےاور قبول اسلام کے بعد ان میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہ دیکھی گئی۔ (استیعاب:۱/۱۱۷)